گزشتہ روز ”اسلام“ میں یہ خبر نظر سے گزری کہ محترم ملک عبد الغنی صاحب مکہ مکرمہ میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بہت سی باتیں ماضی کے حوالہ سے ذہن میں تازہ ہو گئیں اور قارئین کو بھی ان یادوں میں شریک کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
ملک عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ اور ملک عبد الغنی رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ خاندان، جو علمی و دینی حلقوں میں حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی دامت فیوضہم کے ذریعہ متعارف ہے، مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتا ہے اور تقسیمِ ہند کے بعد فیصل آباد میں آباد ہو گیا تھا۔ گکھڑ میں بھی ان کی عزیز داری رہی ہے، گکھڑ میں سراج دین بٹ اور معراج دین بٹ صاحبان کا خاندان معروف ہے اور دریوں کے کاروبار میں ان کا خاصہ رہا ہے، یہ ملک عبد الحق صاحب مرحوم کے رشتہ داروں میں سے ہیں اور ملک محمد عامر صاحب ہمارے اچھے ساتھی تھے، جو اب کچھ عرصہ سے مکہ مکرمہ میں قیام پذیر ہیں۔
ملک عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ مولانا عبد الحفیظ مکی کے والد محترم تھے۔ بہت پہلے مکہ مکرمہ جا کر وہاں آباد ہو گئے تھے اور کاروبار کرتے تھے۔ گکھڑ میں حاجی اللہ دتہ بٹ صاحب مرحوم ہمارے سرپرست بزرگوں میں سے تھے، بٹ دری فیکٹری کے مالک تھے، جمعیت علماء اسلام گکھڑ کے امیر بھی رہے ہیں اور ملک عبد الحق صاحب مرحوم کے دوستوں میں سے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ملک صاحب مرحوم کا نام پہلی بار بٹ صاحب مرحوم سے سنا، یہ اس دور کی بات ہے جب والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ پہلی بار حج بیت اللہ کے لیے جا رہے تھے اور حاجی اللہ دتہ بٹ مرحوم نے کچھ دریاں ملک عبد الحق صاحب مرحوم تک پہنچانے کے لیے حضرت والد صاحبؒ کے سپرد کی تھیں۔
۱۹۸۴ء میں جب پہلی بار عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا تو میرے خالو محترم مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی ”جامعہ ام القریٰ“ میں زیرِ تعلیم تھے اور مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھے۔ میرا قیام ان کے ہاں تھا۔ ایک دن وہ مجھے ملک عبد الحق صاحب مرحوم کے پاس ملاقات کے لیے لے گئے تو ملک صاحب مرحوم نے تعارف کے بعد ناراضگی کا اظہار کیا کہ تم مکہ مکرمہ آئے ہو تو مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا اور قیام میرے ہاں کیوں نہیں رکھا؟ تم تو میرے دوست کے بیٹے ہو اور میرے بھتیجے لگتے ہو۔ میں نے معذرت کرنا چاہی تو فرمایا کہ نہیں، ابھی اپنا سامان اٹھاؤ اور میرے ہاں آ جاؤ۔ چنانچہ میں قاضی صاحب محترم سے اجازت لے کر ملک صاحب مرحوم کے ہاں منتقل ہو گیا اور دو چار روز وہاں گزارے۔
مولانا عبد الحفیظ مکی سے اسی موقع پر ملاقات اور تعارف کے پہلے مرحلہ سے گزرا، جو بڑھتے بڑھتے دوستی بلکہ تحریکی رفاقت میں بدل گیا۔ ملک عبد الحق مرحوم بڑے زندہ دل بزرگ تھے اور مکہ مکرمہ میں آنے والے بہت سے علماء کرام کا ان کے ہاں قیام رہتا تھا۔ مولانا عبد الحفیظ مکی نے اس روایت کو قائم رکھا ہوا ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے انہوں نے جو خانقاہ قائم کی ہے وہ اب علماء کرام اور دینی کارکنوں کی فرودگاہ ہے۔ البتہ میں اپنی افتاد طبع کے باعث (ایک آدھ بار کے علاوہ) وہاں کی حاضری سے محروم ہی رہتا ہوں۔
مکہ مکرمہ میں مولانا عبد الحفیظ مکی کی خانقاہ اور مدینہ منورہ میں مولانا محمد مکی دامت فیوضہم کی ”رباطِ مکی“ علماء کرام اور دینی کارکنوں کا مستقل مہمان خانہ ہوتی ہے۔ میں رباط مکی میں بھی کئی بار حاضری کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں علماء کرام کا ایک عرصہ تک دارالضيوف رہا ہے، لیکن اب مسجد حرام میں توسیع کی وجہ سے نئی جگہ پر منتقل ہو گیا ہے۔ ورنہ وہ برصغیر پاک و ہند سے جانے والے علماء کرام اور دینی راہ نماؤں کا مرکز بھی تھا اور دینی مسائل میں اس خطہ کے حاجیوں کے لیے راہ نمائی بھی وہاں سے مل جاتی تھی کہ وہ مکہ مکرمہ میں احناف کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے اور ہمارے ہاں سے جانے والا کوئی حاجی کسی دینی مسئلہ کے بارے میں راہ نمائی کا طالب ہوتا ہے، تو ہم عام طور پر اسے مدرسہ صولتیہ سے رجوع کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ وہ وہاں کے ماحول اور دینی ضروریات سے براہ راست واقف ہیں اور زیادہ بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
ملک عبد الغنی صاحب مرحوم ملک عبد الحق صاحب مرحوم کے بھائی اور مولانا عبد الحفیظ مکی کے چچا محترم تھے اور ان کا گھر بھی بہت سے علماء کرام کا مہمان خانہ رہتا تھا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے وہ مستقل طور پر میزبان تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن زیادہ تر وہیں ٹھہرتے ہیں اور مجھے بھی چند بار ان کی میزبانی کا حظ اٹھانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس خاندان کا محبت و عقیدت کا تعلق چلا آ رہا ہے۔ مولانا عبد الحفیظ مکی حضرت شیخؒ کے خلفاء میں سے ہیں اور ان کے ذاتی خدام میں شامل رہے ہیں۔ حضرت شیخؒ کے خانقاہی ذوق و محنت کو زندہ رکھنے والے خلفاء میں ان کا نام نمایاں ہے اور وہ اس کے لیے پاکستان، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک میں مسلسل سرگرم رہتے ہیں۔
انہوں نے ۱۹۸۵ء میں علامہ خالد محمود مدظلہ، مولانا ضیاء القاسمی رحمہ اللہ تعالیٰ اور مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مل کر ”انٹرنیشنل ختم نبوت مشن“ قائم کیا اور لندن کے ویمبلے کانفرنس سینٹر میں پہلی عالمی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی تو میں بھی ان کی ٹیم کا حصہ تھا اور کانفرنس کی تیاری کے لیے ان کے ساتھ برطانیہ کے طول و عرض میں مسلسل ایک ماہ تک محنت میں شریک رہا۔ بعد میں جب انٹرنیشنل ختم نبوت مشن نے بعض مراحل سے گزر کر ”انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ“ کی شکل اختیار کی تو میں تنظیمی دائرے میں ان کے ساتھ شریک نہ ہو سکا، البتہ جدوجہد اور محنت کے تحریکی محاذ پر ان کا مسلسل ساتھی ہوں اور اس محاذ پر کام کرنے والی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور مجلس احرار اسلام کے ساتھ ساتھ خود کو انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کا بھی کارکن سمجھتا ہوں۔
ملک عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اور ملک عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا شمار ان اصحابِ خیر میں ہوتا ہے جو ہر دور میں نہ صرف دینی تحریکات میں سرگرمی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، بلکہ دینی جدوجہد کے لیے خود کو وقف کر دینے والے کارکنوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ یہ ذوق اب کم ہوتا جا رہا ہے اور شاید دینی تحریکات میں کچھ عرصہ سے محسوس ہونے والے اضمحلال کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ملک عبد الغنی صاحب مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔