گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے رمضان المبارک کے دوران لاہور کے تین دینی مراکز کا دورہ کیا اور علماء و طلبہ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاؤن، جامعہ نظامیہ لوہاری گیٹ اور جامعہ عثمانیہ ماڈل ٹاؤن تشریف لے گئے، اساتذہ، طلبہ اور مسجد کے نمازیوں سے ملاقات کی اور ان سے مختلف امور پر بات چیت کی۔ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کراچی میں دارالعلوم کورنگی کا دورہ کیا اور اساتذہ و طلبہ سے بعض امور پر گفتگو کی۔
ہمارا خیال ہے کہ دینی مدارس کے حوالہ سے اس وقت عالمی حلقوں کی طرف سے جو دباؤ بڑھ رہا ہے اس کے پیش نظر حکومت کے ذمہ دار حضرات ملک کے بڑے دینی مدارس کا دورہ کر رہے ہیں جس کا مقصد اس دباؤ کے سلسلہ میں اہم دینی مدارس کے منتظمین کو اعتماد میں لینا معلوم ہوتا ہے جو بہرحال ایک خوش آئند بات ہے اور دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کو اس معاملہ میں سنجیدہ غور و خوض کی کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے تاکہ دینی مدارس کے تعلیمی کردار، خود مختاری اور آزادانہ نظام کی ضرورت و اہمیت کا ارباب اختیار کو احساس دلاتے ہوئے اس کے تحفظ کا کوئی باوقار راستہ نکل آئے۔
دینی مدارس کے تعلیمی کردار اور معاشرہ پر اس کے اثرات کے بارے میں عالمی حلقوں کو ایک عرصہ سے تشویش ہے اور وہ مسلم امہ میں مغربی تہذیب و ثقافت اور فلسفہ و نظام کے اثر و نفوذ میں جو فکری و نظریاتی رکاوٹیں محسوس کر رہے ہیں ان کے خیال میں ان رکاوٹوں کا سرچشمہ یہ آزاد دینی مدارس ہیں۔ اس لیے عالمی حلقوں کی مدت سے یہ کوشش ہے کہ دینی مدارس کے اس آزادانہ اور خود مختار و خود کار نظام کو یا تو سرے سے ختم کر دیا جائے اور یا پھر اسے قومی تعلیمی نظام کے اجتماعی دھارے میں اس طرح ضم کر دیا جائے کہ وہ حکومتی پالیسیوں کے دائرہ سے ہٹ کر معاشرے میں کوئی امتیازی اور انفرادی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ اس مقصد کے لیے اس سے قبل بھی مختلف حکومتوں کے دور میں دینی مدارس میں سرکاری مداخلت کے راستے نکالنے کی متعدد کوششیں کی گئی ہیں جنہیں دینی مدارس نے اجتماعی طور پر مسترد کر دیا تھا۔ اور اب گیارہ ستمبر کے واقعات اور افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اس کام کو پہلے کی نسبت آسان تصور کرتے ہوئے حکومتی حلقے پھر اس قسم کا کوئی راستہ تلاش کر رہے ہیں کہ دینی مدارس کے آزادانہ کردار کو محدود کرنے، ان کے نظام میں ریاستی مداخلت کی راہ ہموار کرنے اور ان کے امتیازی تعلیمی تشخص کو ختم کر کے انہیں سرکاری پالیسی کے تابع قومی تعلیمی نظام کے اجتماعی دھارے میں ضم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ مگر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ کے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دینی مدارس کے پانچوں وفاقوں (۱) وفاق المدارس العربیہ (۲) تنظیم المدارس (۳) وفاق المدارس السلفیہ (۴) رابطۃ المدارس الاسلامیہ (۵) وفاق المدارس الشیعہ نے گزشتہ دنوں ایک مشترکہ اجلاس میں دینی مدارس کے آزادانہ تعلیمی کردار اور مالیاتی و انتظامی خودمختاری کے ہر قیمت پر تحفظ کا عزم کرتے ہوئے ۶ جنوری کو جامعہ نعیمیہ لاہور، ۲۰ جنوری کو بنوری ٹاؤن کراچی، ۳ فروری کو درویش مسجد پشاور، اور ۱۰ فروری کو اسلام آباد میں اجتماعی کنونشن منعقد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ دینی مدارس حسب سابق اپنی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے متحد ہیں اور حکومتی اقدامات کی مزاحمت کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
اس فضا میں جنرل (ر) معین الدین حیدر اور جنرل (ر) خالد مقبول کے دینی مدارس کے یہ دورے جہاں اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ اعلیٰ سرکاری حلقے افغانستان کی صورتحال اور طالبان حکومت کے خاتمہ کے دینی مدارس پر پڑنے والے اثرات کا براہ راست جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے اقدامات کی ترجیحات طے کر سکیں، اور اس کے ساتھ ہی شاید ان کی یہ خواہش بھی ہو کہ کچھ اہم تعلیمی مراکز کو دینی مدارس کی اجتماعی مزاحمتی جدوجہد سے الگ رکھنا اگر ممکن ہو تو اس کے لیے ابھی سے پیش رفت کر لی جائے۔ مگر ان سب امور سے قطع نظر ہم گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول کے ان ارشادات کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نظامیہ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ:
’’دنیائے اسلام کو اس وقت بہت بڑا چیلنج درپیش ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ، اقتصادی وسائل اور ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے والی قوتوں نے اسلام اور پاکستان کا غلط اور غیر حقیقی رخ پیش کر کے ہمارے مذہب و ملک کو ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ ذرائع ابلاغ و جدید ٹیکنالوجی پر حاوی ہونے کے سبب یہ ممالک اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کر رہے ہیں کیونکہ وہ جو بات کہتے ہیں دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جذبات اور نیتوں میں کوئی خرابی نہیں لیکن ہم دور جدید کے وسائل و ذرائع سے محروم ہونے کے سبب اپنے مفادات کا مؤثر تحفظ کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مغربیت اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں فرق کرنا ہوگا کیونکہ ایک اچھا ہتھیار مومن یا غیر مومن دشمن میں کوئی تمیز نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مخالفین کو جدید سائنسی علوم و تحقیقات میں کمال حاصل ہے جبکہ ہم کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی اغیار کی فنی مہارت و امداد کے محتاج ہیں۔ غیر ممالک سے خوراک و ادویات اور دیگر ساز و سامان حاصل کرنے کی صورت میں ہم برائے نام آزاد و خود مختار رہ جاتے ہیں۔‘‘
ہمیں جنرل خالد مقبول کے ان ارشادات سے سو فیصد اتفاق ہے اور ہم ان کی دونوں باتوں کی تائید کرتے ہیں:
- اس بات کی بھی کہ اس وقت دنیا کے سامنے اسلام اور پاکستان کی صحیح تصویر پیش نہیں کی جا رہی اور مغربی میڈیا جان بوجھ کر اسلام و پاکستان کی تصویر بگاڑ رہا ہے، جبکہ اسلام کی بات کہنے والے حلقے اور مراکز ابلاغ کے جدید ذرائع اور سائنٹیفک اسلوب سے بہرہ ور نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کو اسلام کی تعلیمات اور اس کے حقیقی کردار سے آگاہ نہیں کر پا رہے۔
- اور اس بات سے بھی ہم پوری طرح متفق ہیں کہ عالم اسلام کی بے بسی اور مغربی قوتوں کی بالادستی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب کو سائنسی علوم و تحقیقات اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل ہے جبکہ عالم اسلام اس سے محروم ہے۔ اور اس کی وجہ سے نہ صرف مسلم ممالک کی آزادی اور خودمختاری برائے نام رہ گئی ہے بلکہ خود عالم اسلام کے اپنے بے پناہ وسائل اور دولت بھی مسلمانوں کی بجائے ان پر گھیرا تنگ کرنے والوں کے کام آرہی ہے۔
البتہ گورنر پنجاب نے یہ باتیں جہاں کھڑے ہو کر فرمائی ہیں اس سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کیونکہ یہ باتیں کہنے کی صحیح جگہ جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نظامیہ نہیں ہے اور نہ ہی دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ ان باتوں کے صحیح مخاطب ہیں۔ گورنر صاحب اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ جنوبی ایشیا پر برطانوی استعمار کے تسلط اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلم معاشرہ میں ایک فطری تقسیم کار وجود میں آگئی تھی جس کے تحت دو الگ الگ تعلیمی نظام وجود میں آئے تھے۔ ایک نظام دینی مدارس کا تھا جس نے اپنے ذمہ صرف یہ کام لیا تھا کہ وہ دینی علوم و روایات کا تحفظ کریں گے اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے نشانات کو باقی رکھتے ہوئے اسے حملہ آور تہذیب میں ضم ہونے سے بچائیں گے۔ جبکہ دوسرے تعلیمی نظام نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی کہ مسلمانوں کو جدید علوم سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیقات سے بہرہ ور کیا جائے گا اور انہیں معاصر اقوام کی ترقی سے ہم آہنگ کرنے کی جدوجہد کی جائے گی۔
جہاں تک دینی مدارس کی ذمہ داری، جدوجہد اور اس کے نتائج کا تعلق ہے آج وہ اس معاملہ میں بحمد اللہ تعالیٰ پوری طرح سرخرو ہیں کہ انہوں نے اسلامی علوم و فنون کی صرف حفاظت نہیں کی بلکہ کسی قسم کی سرکاری امداد کے بغیر معاشرہ کے لاکھوں افراد کو ہر دور میں اسلامی علوم سے بہرہ ور کیا ہے۔ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے صرف نشانات کو باقی نہیں رکھا بلکہ طالبان حکومت کی صورت میں اس کا عملی نمونہ بھی اس انداز سے دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ دیکھنے والے پکار اٹھے کہ یہ تو وہی صدیوں پرانا نمونہ ہے اور انہوں نے تو گزشتہ دو صدیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی سرے سے کوئی اثر قبول نہیں کیا۔ اس لیے دینی مدارس سے کسی درجہ میں شکایت تو ہو سکتی ہے (اگر اس شکایت کو درست تسلیم کر لیا جائے) کہ جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی انہوں نے اتنی سختی اور شدت سے اس کی حفاظت کی اور اسے آنے والی نسلوں تک پہنچا دیا ہے کہ اسے زمانے کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ مگر جدید ٹیکنالوجی، سائنسی تحقیقات اور علوم میں قوم کے پیچھے رہ جانے پر دینی مدارس کو ذمہ دار قرار دینا اور ان کے اساتذہ و طلبہ کے درمیان کھڑے ہو کر سائنس و ٹیکنالوجی اور ابلاغ کے جدید ترین ذرائع سے محرومی کا رونا رونا نہ صرف سراسر نا انصافی ہے بلکہ انتہائی بے ذوقی کی بات بھی ہے۔
آج اگر ہم جدید سائنسی علوم، ٹیکنالوجی اور تحقیقات کی صلاحیت و مواقع سے محروم ہیں تو اس کی ذمہ داری دینی مدارس پر نہیں بلکہ اس تعلیمی نظام پر ہے جس نے ڈیڑھ سو برس قبل اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اس نے جنرل خالد مقبول کے بقول مغربیت کو قبول کرنے میں تو کسی حجاب سے کام نہ لیا لیکن جدید ٹیکنالوجی کی طرف اس کے قدم نہ بڑھ سکے۔ بلکہ اس تعلیمی نظام کی نا اہلی نے ہماری آزادی اور خودمختاری کو بے بسی کی دلدل سے دوچار کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمیں جنرل خالد مقبول کی باتوں سے اتفاق ہے اور ہم ان میں پوری طرح ان کے ساتھ ہیں لیکن اتنی گزارش کے ساتھ کہ یہ باتیں کہنے کی جگہ جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نظامیہ نہیں بلکہ پنجاب یونیورسٹی اور وفاقی وزارت تعلیم کا پالیسی ونگ ہے۔ کیا جنرل (ر) معین الدین حیدر اور جنرل (ر) خالد مقبول اس بات کو پسند کریں گے کہ جدید سائنسی علوم و تحقیقات اور جدید ٹیکنالوجی میں قوم کے پیچھے رہ جانے کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کے لیے ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جو اسباب و عوامل کی نشاندہی کے ساتھ اس کے ذمہ داروں کا تعین کرے اور اس ناکامی کی تلافی کے لیے طریقہ کار اور اقدامات تجویز کرے؟ ہم آپ کے ساتھ ہیں مگر قدم تو صحیح سمت اٹھائیے!