کراچی کی سرگرمیاں

   
۳۱ مارچ ۲۰۱۳ء

کراچی میں حاضری کے آخری دن کا بیشتر حصہ جامعۃ الرشید میں گزرا اور حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب سے ان کے والد محترمؒ کی وفات پر تعزیت کے علاوہ اساتذہ اور طلبہ کی دو نشستوں میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا موضوع قیامِ پاکستان کے بعد کی دینی تحریکات تھا، ایک نشست میں نفاذِ اسلام کی دستوری جدوجہد کے بارے میں گزارشات پیش کیں اور دوسری نشست میں نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں دستوری اور قانونی پیش رفت کو سبوتاژ کرنے کے حوالہ سے سیکولر حلقوں اور بیوروکریسی کی سازشوں اور چالوں پر ایک نظر ڈالی۔ اس پر ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ اتنی تحریکات کے اتار چڑھاؤ کے عینی شاہد ہیں تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کو بقیہ زندگی ان تحریکات کے حالات اور اپنے مشاہدات مرتب کرنے میں صرف کر دینی چاہیے۔

میں نے گزارش کی کہ دل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے لیکن تدریسی زندگی اور اس سے بڑھ کر جلسوں کی مصروفیات میں اس کی گنجائش نہیں ملتی۔ ہفتہ میں عام طور پر ’’اسلام‘‘ کے لیے ایک کالم لکھنے کا معمول ہے جبکہ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے لیے بھی ہفتہ میں ایک کالم لکھنے کی کوشش کرتا ہوں جو ’’اسلام‘‘ کے کالم سے الگ ہوتا ہے، نوائے قلم کے عنوان سے شائع ہوتا ہے اور اسے dailypakistan.com.pk کی ویب سائٹ پر ادارتی صفحہ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ ان دو کالموں کے لیے مجھے اپنی بہت سی مصروفیات کے ساتھ دھکّا کرنا پڑتا ہے تب کہیں اس تسلسل کو قائم رکھ پاتا ہوں۔ تدریسی زندگی سے کنارہ کشی تو میرے بس کی بات نہیں کہ یہ اب میرے لیے لازمی خوراک کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ البتہ جلسوں سے جان چھڑانا چاہتا ہوں مگر یہ کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔ مسلسل معذرتوں کے باوجود دوست احباب جب تقاضوں کی لائن لگا دیتے ہیں تو سرنڈر ہونا ہی پڑتا ہے، ہر دوست کا تقاضہ ہوتا ہے کہ بس صرف ہمارا پروگرام بھگتا دیں باقی بے شک آپ کہیں نہ جائیں، جلسوں اور پروگراموں کا کمبل اگر پیچھا چھوڑ دے تو بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں، خاصا کام ادھورا پڑتا ہے اور بے شمار داستانیں اور یادداشتیں ایسی ہیں جو شاید میرے ساتھ ہی رخصت ہو جائیں گی۔ اس کے ساتھ اگر ایک اور بات کا تذکرہ نہ کروں تو صورت حال کے ساتھ انصاف نہیں کر پاؤں گا کہ میرے بہت سے معاملات ان جلسوں کے ولی فیھا مآرب أخرٰی سے وابستہ ہیں اور عالم اسباب میں مجھے ان کا کوئی متبادل میسر نہیں ہے ورنہ اس بڑھاپے میں سفر در سفر کے کولہو کے گرد گھومتے رہنے کو آخر کس کا جی چاہتا ہے؟ پاکستان میں نفاذِ اسلام کی دستوری جدوجہد کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر جامعۃ الرشید کی دو نشستوں میں جو کچھ عرض کیا ہے اسے قلمبند کرنا اپنے ذمہ قارئین کا قرض سمجھتا ہوں، خدا کرے کہ اس قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت جلد نکل آئے۔ آمین یا رب العالمین۔

جامعۃ الرشید سے رخصت ہو کر گلشن معمار کی مسجد توابین میں عصر کی نماز پڑھی جو ہمارے انتہائی محبوب دوست اور ساتھی مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہیدؒ کی یادگار اور صدقۂ جاریہ ہے، ان کی زندگی میں میرا معمول تھا کہ کراچی کی کسی بھی حاضری میں ان سے ملے بغیر واپسی میرے لیے مشکل ہوتی تھی اور اب تو اسے ان کے بچوں کا حق سمجھتا ہوں۔ عزیزم مولانا عثمان اسلم شیخوپوری سلمہ اور ان کے بھائیوں کو دیکھ کر مرحوم بھائی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور مولانا شہیدؒ کی قبر پر فاتحہ خوانی کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

مغرب کی نماز ہم نے ملئیر کینٹ کی ایک مسجد میں ادا کی جہاں ہمارے فاضل دوست مولانا عبد الجبار طاہر خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، صاحبِ ذوق اور صاحب مطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ نقد و تجزیہ کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہیں، مسجد کی نماز کے بعد ان کی فرمائش پر نمازیوں کے سامنے مختصر گفتگو کی جس کا موضوع یہ تھا کہ سنی سنائی بات کو تحقیق کے بغیر آگے چلا دینے کا رویہ ہمارے معاشرتی مزاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے اور چونکہ میسج سسٹم اور پٹی سسٹم نے بات کو آگے چلا دینے کا دائرہ بہت زیادہ وسیع کر دیا ہے اس لیے اس کی تباہ کاریوں کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے امریکہ کے بعض اسفار کے تذکرہ میں دارالعلوم نیویارک کے حوالہ سے اپنے ایک فاضل دوست مولانا حافظ اعجاز احمد کا متعدد بار ذکر کیا ہے جو ایک عرصہ تک وہاں دینی اور تعلیمی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں اور حضرت والد محترمؒ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں، وہ آج کل بیمار ہیں، دل کے مریض ہیں اور کراچی میں اپنی بیٹی کے ہاں مقیم ہیں، ایئرپورٹ جاتے ہوئے ان کی بیمار پرسی کی سعادت حاصل کی اور انہوں نے خوش ہو کر بڑی دعاؤں سے نوازا، قارئین سے درخواست ہے کہ وہ بھی ان کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے خصوصی دعا کریں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter