بعد الحمد والصلوٰۃ۔ چونکہ شوال المکرم پاکستان بلکہ پورے برصغیر میں دینی مدارس کے تعلیمی سال کے آغاز کا مہینہ ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، اور جنوبی ایشیا میں جو لاکھوں مدارس ہیں، ان کے تعلیمی نظام اور نیٹ ورک کے مطابق شعبان و رمضان میں چھٹیاں ہوتی ہیں اور شوال کے وسط میں کم و بیش ہر جگہ تعلیمی سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس مناسبت سے آج آپ سے مدارس کے نظام، تعلیمی نصاب پر اور اس کے پس منظر پر کچھ گزارشات پیش کروں گا۔
ہمارے اس نصاب کو درسِ نظامی کا نصاب کہا جاتا ہے۔ درس نظامی کیا ہے؟ یہ ملّا نظام الدین سہالویؒ کی طرف منسوب نصاب ہے۔ آپؒ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے معاصرین میں سے ہیں۔ لکھنؤ کے علاقے میں سہالہ قصبہ کے رہنے والے تھے، پرانے علمی خاندان کے بزرگ تھے۔ ”فرنگی محل“ لکھنؤ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک تجارتی کوٹھی تھی جو مبینہ طور پر قوانین کی خلاف ورزی کی بنیاد پر مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں ضبط کر لی گئی تھی۔ برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ جو برصغیر میں تجارت کے حوالے سے آئے تھے انہوں نے مغل حکمرانوں سے کچھ شرائط اور معاہدات کے تحت تجارتی مراعات حاصل کر رکھی تھیں، اور گودام طرز کی کوٹھیاں بنائی ہوئی تھیں جہاں اپنا سامان رکھتے تھے۔ لکھنؤ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی کوٹھی تھی جو فرنگی محل کہلاتی تھی، وہ قوانین کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اورنگزیب عالمگیر نے ان سے ضبط کر کے ملّا نظام الدین سہالویؒ کو دینی مدرسے کے لیے الاٹ کر دی تھی۔ اسی وجہ سے وہاں کے علماء فرنگی محلی علماء کہلاتے ہیں۔ مثلاً مولانا عبد الحی لکھنویؒ، مولانا عبد الحلیم لکھنویؒ اور مولانا عبد الشکور لکھنویؒ فرنگی محلی علماء کہلاتے ہیں۔ ان کے سرخیل ملا نظام الدین سہالویؒ تھے۔ انہوں نے اس دور کے تقاضوں کے مطابق ایک نصاب ترتیب دیا تھا جس کو درس نظامی کہتے ہیں۔ یہ درس نظامی ان سے منسوب ہے۔
درسِ نظامی میں اس دور کی عمومی ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا، مثلاً فارسی سرکاری اور عدالتی زبان تھی جیسے آج کل ہماری دفتری اور عدالتی زبان انگریزی ہے، چونکہ فارسی دفتری اور عدالتی زبان تھی اس لیے اہلِ علم کی آپس کی زبان بھی فارسی تھی۔ لہٰذا فارسی زبان سیکھنا اس زمانے میں ضروریات کا حصہ تھا۔ اسی طرح فتاویٰ عالمگیری ملک کا قانون تھا، عدالتوں میں نافذ تھا، اس سے پہلے بھی یہاں مغل حکمرانوں کے دور میں عدالتوں میں فقہ حنفی ہی نافذ تھی، مقدمات کے فیصلے اسی کے مطابق کیے جاتے تھے تو چونکہ فقہ حنفی ملک کا قانون تھا، مالیاتی قانون بھی، حدود و قصاص کا قانون بھی، دیوانی قانون بھی، تو یہ بھی وقت کی ضرورت تھی کہ اس قانون کو پڑھایا جائے، اس حوالے سے فقہ کو نصاب میں داخل کیا گیا۔ اور معقولات یعنی فلسفہ، منطق وغیرہ اس زمانے کی علمی زبان تھی کہ اس زمانے میں مکالمے اور گفتگو کا اسلوب، علمی مکالمے کا معیار یونانی فلسفہ تھا۔ چنانچہ اس نصاب میں یہ تین بنیادی چیزیں تھیں۔ ان کے ساتھ عربی ہماری علمی زبان تھی۔ فارسی قومی ضرورت تھی اور عربی علمی ضرورت تھی جس کے ذریعے قرآن پاک، حدیث، فقہ اور ماضی کے علوم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے تو درس نظامی کی یہ چار بنیادیں تھیں۔ فارسی، عربی زبان، معقولات اور فقہ حنفی۔
اس کے پیش نظر ملّا نظام الدین سہالویؒ نے جو نصاب مقرر کیا وہ اس وقت کی قومی ضروریات پر مبنی تھا اور زیادہ تر اس کی بنیاد معقولات پر تھی، جس میں فلسفہ، منطق، فلکیات، ہندسہ یعنی ہیئت اور ریاضی بھی تھی اور فقہ تو تفصیل سے پڑھائی جاتی تھی۔ قرآن و حدیث اگرچہ وسیع پیمانے پر نہیں تھے لیکن وہ بھی شاملِ نصاب تھے، مثلاً مشکوٰۃ شریف پڑھائی جاتی تھی، دورۂ حدیث اس زمانے میں نہیں ہوتا تھا۔
درسِ نظامی کے نصاب کے مقابلے میں اسی دور میں ایک ولی اللہی نصاب بھی تھا جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ترتیب دیا تھا۔ اس کی بنیاد علوم اور منقولات پر تھی۔ فارسی اور عربی تو ضروریات میں سے تھیں، اس میں فقہ کی تعلیم بھی تھی، لیکن ان کا زیادہ زور قرآن پاک کے ترجمہ اور تفسیر پر اور حدیث کی براہ راست سنداً روایت پر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ سے پہلے بخاری و مسلم کی روایت سنداً پڑھانے کا عمومی رجحان نہیں تھا، حدیث شریف میں آخری کتاب مشکوٰۃ شریف پڑھائی جاتی تھی اور آپ کو معلوم ہے وہ سنداً نہیں پڑھائی جاتی بلکہ روایتاً پڑھائی جاتی ہے۔ صاحبِ مشکوٰۃ اپنی سند کے ساتھ کوئی روایت ذکر نہیں کرتے بلکہ حوالے سے ذکر کرتے ہیں، مثلاً رواہ البخاری، رواہ مسلم، رواہ الترمذی وغیرہ کا طرز اپناتے ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ نے اس میں دو باتوں کا اضافہ کیا تھا۔ ایک قرآن پاک کے علوم، ترجمہ اور تفسیر کا۔ آپؒ نے خود فارسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا اور ترغیب دی کہ قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر کو مدارس میں باضابطہ پڑھایا جانا چاہیے۔ اور دوسرے حدیث میں انہوں نے یہ اضافہ کیا کہ حدیث سند کے ساتھ روایتاً پڑھائی جائے۔ شاہ ولی اللہؒ جب حجاز مقدس گئے ہیں تو شیخ ابو طاہر المدنیؒ سے سند حاصل کی اور یہاں آ کر وہ طرز جاری کی۔ شاہ صاحبؒ کے نصاب میں قرآن و حدیث کو اہمیت زیادہ تھی، معقولات آپؒ نے تقریباً نکال ہی دیے تھے اور فارسی، عربی اور فقہ بھی بقدر ضرورت تھی۔ یہ دونوں نصابوں میں فرق تھا۔ ۱۸۵۷ء تک یہ دونوں نصاب چلتے رہے۔
اس زمانے میں مدارس کا نصاب تو یہ تھا۔ ان دونوں میں سے کوئی چلتا تھا۔ جن کا جو ذوق ہوتا اسی کے مطابق وہاں نصاب پڑھایا جاتا، لیکن مدارس کا نظام یہ تھا کہ عام طور پر مغل حکومتیں اس وقت کے بڑے علماء کو جاگیر الاٹ کر دیتی تھیں اور اس الاٹمنٹ کے ذریعے مدارس کے خرچے پورے ہوتے تھے۔ اس سے عالمِ دین کا اپنا خرچہ بھی نکلتا تھا اور مدارس کا نظام بھی چلتا تھا۔ چندہ وغیرہ کا عام رواج نہیں تھا اور باقاعدہ سرکاری ایڈ، سرکاری تنخواہ بھی نہیں تھی، وظیفے عام لوگوں کی طرح ملتے تھے۔ بنیادی طور پر جاگیر الاٹ کر دیا جانا ہی مدارس کے نظام کی بنیاد تھی۔
درسِ نظامی چونکہ قومی ضرورت تھی تو اسے مسلمان، ہندو اور سکھ سبھی پڑھتے تھے، اسی طرح فارسی بھی سب کی ضرورت تھی اور فقہ بھی سب کی ضرورت تھی کہ وہ ملک کا قانون تھا۔ قومی شعبوں کی ضروریات مشترک تھیں اس لیے ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی قومی شعبوں میں جانے کے لیے عدالت اور دفتری ملازمت کے لیے یہ بنیادی تعلیم لازماً حاصل کرتے تھے۔
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ’’مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت‘‘ میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ اس زمانے میں ایک بہت بڑے ہندو ماہرِ معقولات حکیم کامران درسِ نظامی کے بہت بڑے مدرس تھے۔ اپنے دور میں برصغیر پاک و ہند کے معقولات کے معروف مدرسین میں سے تھے۔ ان سے کسی نے شیعہ سنی جھگڑے کے بارے میں پوچھا۔ یہ جھگڑا پرانا چلا آ رہا ہے، بابر اور ہمایوں کے زمانے سے شروع ہوا تھا اور اب تک ہے۔ سرکاری سرپرستی بھی دونوں کو ہر زمانے میں حاصل رہی ہے۔ ایک فرق یہ ہے کہ جو یہاں پٹھان آئے ہیں غزنوی، لودھی، شیر شاہ سوری وغیرہ یہ خالص سُنی رہے ہیں۔ اور مغلوں میں چونکہ ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دے دی تھی، ہمایوں کو دہلی چھوڑنا پڑا تھا، پھر ہمایوں کو دوبارہ حکومت ایران کے صفوی حکمرانوں نے دلوائی تھی جو کہ شیعہ تھے۔ اس لیے مغل حکمران اس حوالے سے ایران کے صفویوں کے ہمیشہ رہینِ منت رہے ہیں۔ تب سے شیعہ یہاں آئے ہیں اور یہاں ان کا نظام چل رہا ہے اور اسی دور سے یہ کشمکش چلتی آ رہی ہے جو کہ علمی بھی ہے۔ شیعہ حضرات علمِ کلام، فلسفہ، نحو اور منطق میں ہمیشہ فائق رہے ہیں۔ اس کشمکش کے حوالے سے حکیم کامران سے کسی نے پوچھا کہ آپ نہ سنی ہیں نہ شیعہ، لیکن دونوں کو جانتے ہیں تو بتائیے کہ ان دونوں کے مذہب میں کیا فرق ہے اور ایک غیرجانبدار کے طور پر آپ نے کیا محسوس کیا ہے؟ تو حکیم کامران نے بڑا دلچسپ جواب دیا کہ ’’سنی کا مذہب ہے اللہ تعالیٰ کی حمد، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل و اصحاب پر درود، اور باقی سب مؤمنین، فاسق، فاجر کے لیے دعائے مغفرت۔ اور شیعہ کا مذہب ہے اللہ تعالیٰ کی حمد، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر درود، اور باقی سب مؤمنین، فاسق، فاجر پر لعنت‘‘۔ بہرحال اس زمانے میں سب یہی درسِ نظامی پڑھتے تھے اور ان میں جو قومی تقاضوں سے ہٹ کر خالصتاً علمی اور تحقیقی ذوق کے لوگ تھے وہ درسِ ولی اللّٰہی کے دائرے میں کام کر رہے تھے۔ مدارس کا نظام جاگیروں، عطیات و وظائف پر تھا۔ نہ چندہ کا نظام تھا، نہ سرکاری تنخواہوں کا بلکہ بین بین معاملہ تھا۔
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی تک ایسٹ انڈیا کمپنی حکمران تھی۔ باقاعدہ برطانوی حکومت یہاں حکمران نہیں تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تجارتی کمپنی تھی جسے آج کی ملٹی نیشنل کمپنی سمجھ لیں، جنہوں نے مراعات حاصل کیں اور رفتہ رفتہ اثر و رسوخ حاصل کرتے کرتے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ پہلے بنگال، پھر میسور پر پھر دہلی پر۔ ۱۷۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر حکومت قائم کی تھی اور ۱۸۵۷ء تک ایسٹ انڈیا کمپنی اس علاقے کے بڑے خطوں پر حکمران بنی رہی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہو گئی اور برطانوی حکومت نے جنوبی ایشیا کا نظام براہ راست سنبھال لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی فارسی زبان تھی اور خود ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی ضرورت کے لیے درسِ نظامی کے مدرسے بنا رکھے تھے، سرکاری سطح پر بڑے بڑے مدارس بنائے ہوئے تھے۔
جب تاج برطانیہ براہ راست آ گیا تو ۱۸۵۷ء کے بعد دو بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ ایک تو یہ کہ فارسی جو کہ عدالتی دفتری زبان تھی اس کی یہ حیثیت ختم کر دی اور انگریزی کو عدالتی دفتری زبان قرار دیا گیا۔ دوسری تبدیلی یہ کی کہ فتاویٰ عالمگیری اور فقہ حنفی جو قانوناً نافذ تھے ان کو منسوخ کر کے یہاں انگریزی قانون نافذ کر دیا گیا۔ ان دو بڑے فیصلوں کے بعد نہ تو یہاں فارسی کی ضرورت رہی اور نہ بطور قانون کے فقہ کی ضرورت رہی۔ یہ قومی ضروریات نہ رہیں اور عربی بھی اس وقت قومی ضرورت کا حصہ نہیں تھی۔ اس سے پہلے کسی حد تک عربی ضروریات میں سے اس حوالے سے تھی کہ فقہ کا زیادہ تر لٹریچر عربی میں ہے تو قانون دانوں کو بھی عربی پڑھنا پڑتی تھی تاکہ اصل ذخائر سے استفادہ کیا جا سکے۔ فتاویٰ عالمگیری خود عربی میں ہے، اس طرح قومی ضروریات کے دائرے سے عربی، فارسی اور فقہ تینوں چیزیں نکل گئیں اور دو نئی ضروریات شامل ہو گئیں، انگریزی زبان اور انگریزی قانون۔
ایک زمانے میں فارسی پڑھا ہوا شخص تعلیم یافتہ شمار ہوتا تھا، اور جس کو فارسی نہیں آتی تھی اس کو اَن پڑھ شمار کیا جاتا تھا۔ جیسے ہمارے ہاں انگریزی پڑھے ہوئے کو پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے اور جس کو انگریزی نہ آتی ہو اسے اَن پڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں فارسی کو وہی حیثیت حاصل تھی جو آج انگریزی کو حاصل ہے۔ برصغیر میں انگریزی آنے کے بعد دفتری عدالتی ضروریات کے لیے اسے سیکھنا ضروری ہو گیا اور عدالتی ضروریات اور ملک کا نظام چلانے کے لیے انگریزی زبان کو سمجھنا ضروری ہو گیا۔ یکسر صورتحال بدل گئی اور فارسی کے بارے میں یہ محاورہ مشہور ہوا کہ ’’پڑھے فارسی اور بیچے تیل‘‘ یعنی فارسی پڑھ کر کیا کرنا ہے، تیل ہی بیچنا ہے، نوکری تو ملے گی نہیں، کسی مقام پر کوئی اہمیت تو ہو گی نہیں۔ فارسی بالکل بیکار ہو گئی اور عربی اور فقہ بھی ملک کی قومی ضروریات سے نکل گئیں اور ملک کا جو ریاستی تعلیمی نظام بنا اس کی بنیاد انگریزی زبان، انگریزی قانون اور سائنس پر آ گئی۔ اس طرح فارسی، عربی، فقہ اور قرآن و سنت کی تعلیم ملک کے نظام سے لا تعلق ہو گئے اور ان کے مدارس بند کر دیے گئے۔
حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے ’’نقشِ حیات‘‘ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ہزاروں مدارس بند کر دیے گئے، جاگیریں ضبط کر لیں۔ ہزاروں علماء کو پھانسی پر لٹکا دیا اور پوری کوشش کی گئی کہ مولوی کا وجود ختم ہو جائے۔ اس فضا میں ہمارے چند بزرگوں نے یہ طے کیا کہ عربی زبان اور قرآن و سنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کے لیے سرکاری نظام میں تو اب جگہ نہیں ملے گی اس لیے غیر سرکاری طور پر اور نجی سطح پر یہ کام شروع کرتے ہیں۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کے بعد ۱۸۶۶ء میں دیوبند میں اس نظام کا آغاز ہوا کہ عوامی چندے اور تعاون پر امدادِ باہمی کی بنیاد پر عربی تعلیم کے سلسلہ کو باقی رکھنے کے لیے اپنا نظام بنائیں گے۔ اسی لیے دارالعلوم دیوبند کا ابتدائی نام مدرسہ عربیہ ہے۔ اور تقسیم یوں تھی کہ یہ عربی مدارس ہیں، وہ انگریزی مدارس ہیں۔ اس طرح دیوبند سے اس کا آغاز ہوا، پھر سہارنپور میں اور پھر ہاٹ ہزاری بنگلہ دیش میں مدرسہ بنا۔ اس کے بعد بنتے رہے اور اب تو الحمد للہ پورے برصغیر میں تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ ان بزرگوں کا خلوص تھا کہ مدارس ترقی کرتے کرتے اس عروج کو پہنچے ہیں۔
اس سے پہلے عوامی چندے پر مدرسے کا نظام کہیں بھی نہیں تھا، یہ بزرگوں کا اجتہادی فیصلہ تھا۔ پھر ان مدارس میں عربی، فارسی، قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم پڑھائے جانے لگے، جن کو وہاں سے نکال دیا گیا تھا۔ علماء نے طے کیا کہ ہم حکومت سے اور کسی ریاستی نواب سے کوئی امداد نہیں لیں گے۔ یہ بہت بڑی حکمت کی بات تھی، اس حکمت کی بنیاد پر مدارس آج تک چل رہے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ حکومتیں، امریکہ اور یورپی یونین وغیرہ مدارس کی امداد کرنا چاہتی ہیں لیکن مدارس ان سے امداد نہیں لیتے۔ یہ اس حکمت کی برکت ہے اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے جو اصول ہشت گانہ لکھے تھے ان میں یہ بھی تھا کہ کسی کے مستقل بھروسے پر نہ چلنا بلکہ عوامی چندے پر چلنا ہے۔ اور الحمد للہ مدارس کا ایسا نظام ہے کہ حکومتی امداد کے بغیر اپنا نظام چلا رہے ہیں۔
مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے ایک بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ وہ پکڑ دھکڑ کا دور تھا، مدارس بند کیے جا رہے تھے، علماء کو قتل کیا جا رہا تھا اور پورے ملک میں مولوی کو ختم کرنے کی مہم جاری تھی، تو ہمارے بزرگوں نے یہ حکمتِ عملی اختیار کی کہ بالکل زمین سے لگ کر کام شروع کر دیا۔ چٹائی تپائی مجبوری نہیں تھی بلکہ یہ حکمت عملی تھی کہ راڈار کی رینج سے نیچے رہ کر کام کرو، گراس لیول پر چلے جاؤ کہ کام کرو لیکن نظر نہ آؤ۔ اور اس وقت تک مدارس اس طرح کام کرتے رہے اور نظر نہیں آئے جب تک مشکل اوقات تھے۔ اور جب نظر آئے تب اتنے مستحکم ہو چکے تھے کہ ان کو ختم کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ یہ مولانا علی میاںؒ نے بہت خوبصورت تجزیہ کیا ہے۔ یہ مدارس کا نظام ۱۸۵۷ء کے بعد شروع ہوا، جو اب الحمد للہ بہت مستحکم نظام کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے اور کفر کی دنیا اس سے پریشان ہے۔
یہاں ایک دلچسپ سوال کا جائزہ لینا چاہوں گا۔ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مغلوں کے دور میں ۱۸۵۷ء سے پہلے تعلیمی نظام میں عربی، فارسی، قرآن کی تعلیم کے ساتھ انجینئرنگ، ہندسہ، ریاضی، فلکیات بھی پڑھائی جاتی تھی یعنی تمام علوم اکٹھے پڑھائے جاتے تھے، تو اب ان علوم میں تقسیم کیوں ہو گئی ہے؟ اور مولوی پر یہ الزام لگتا ہے کہ مولوی نے ان علوم کو تقسیم کر دیا ہے۔ اس کی ذمہ داری عموماً علماء کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے۔ میں بھی تاریخ کا طالب علم ہوں، یہ تقسیم ہوئی ہے لیکن اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے بلکہ اس تقسیم کا ذمہ دار وہ ہے جس نے ۱۸۵۷ء کے بعد نئے تعلیمی نظام سے عربی، فارسی اور فقہ کو نکال دیا تھا۔ ہم نے تو عربی، فارسی اور فقہ کے علم کو باقی رکھنے کے لیے اپنا نظام بنایا تھا، اور اس کے فائدہ کا اندازہ اس سے کریں کہ اگر یہ نظام نہ چلتا تو شاید اب کسی کو کلمہ بھی نصیب نہ ہوتا۔ ہم نے تو جو علوم نکال دیے گئے تھے ان کو باقی رکھنے کے لیے یہ نظام شروع کیا تھا۔ اس لیے اس تقسیم کی ذمہ داری نیا ریاستی تعلیمی نصاب شروع کرنے والوں پر ہے جنہوں نے فارسی نکال کر انگریزی شروع کی، فقہ نکال کر انگریزی قانون جاری کیا اور عربی علوم نکال دیے۔ ہم تو ان کو بچانے کے لیے ڈیڑھ سو سال سے لگے ہوئے ہیں اور الحمد للہ بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس لیے علومِ دینیہ اور غیر دینیہ کی تقسیم کی ذمہ داری ریاستی اور حکومتی اداروں پر ہے اور اس نئے نظام کو ذہناً قبول کرنے والوں پر ہے، علماء پر نہیں ہے۔
چونکہ میڈیا اور لابنگ ہمارے پاس نہیں ہے اس لیے یہ الزامات ہم پر لگائے جا رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ کیا ہوا، میں اس پر ایک کہاوت سنایا کرتا ہوں کہ ایک زمیندارہ ڈیرے والے رات کو دودھ کا برتن رکھ دیتے تھے۔ ایک بندر آ کر رات کو دودھ پی جاتا اور قریب ہی بھینس کا بچہ بندھا ہوتا تھا اس کے منہ پر ملائی مل جاتا تھا۔ صبح مالک آکر دیکھتا کہ سارا دودھ بھینس کا بچہ پی گیا ہے تو وہ اس پٹائی شروع کر دیتا۔ بندر کا روزانہ کا یہ معمول تھا۔ ایک دن مالک کو خیال آیا کہ اسے مارتا ہوں پھر بھی یہ باز نہیں آتا، لگتا ہے بات کچھ اور ہے، اس لیے آج رات کو دیکھوں گا۔ رات کو وہ گھات میں بیٹھا اور اس نے دیکھا کہ جنگل سے بندر آیا، اس نے دودھ پیا اور ملائی بھینس کے بچے کے منہ پر مل دی، تب مالک کی سمجھ میں بات کہ بھینس کا بچہ تو ویسے ہی مار کھاتا رہا ہے، اصل مجرم تو بندر ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے کہ سارے کام ان لوگوں نے خود کیے اور ملائی ہمارے منہ پر مل دی۔ ورنہ اس تقسیم کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے۔ بہرحال یہ تقسیم ہو گئی اور یہ تبدیلی ۱۸۵۷ء کے بعد آ گئی۔
ہمارے ہاں عام طور پر اس نصاب کو درسِ نظامی کہا جاتا ہے۔ پرانے تسلسل میں یہ کہنا ٹھیک ہے اور ملّا نظام الدینؒ ہمارے اکابر میں سے اور اس دور کے بڑے اہلِ علم میں سے تھے۔ لیکن دیوبند، سہارنپور، ہاٹ ہزاری میں جو نصاب شروع ہوا وہ درسِ نظامی کا نصاب نہیں ہے۔ انہوں نے درسِ نظامی کے نصاب کو اور ولی اللّٰہی نصاب کو اکٹھا کیا ہے اور یہ دونوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں معقولات ایک درجے میں تھیں جو اَب کم ہوتی جا رہی ہیں، فارسی بھی ایک درجے میں ہے، فقہ تو ہے ہی، لیکن قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر جو درسِ نظامی میں اس درجہ میں نہیں تھا وہ شامل کیا، اور حدیث کی سنداً روایت کو شامل کیا۔ دورۂ حدیث حضرت شاہ ولی اللہؒ سے پہلے نہیں تھا اور درسِ نظامی میں تو بالکل نہیں تھا۔ یہ دو بڑے اضافے ہوئے۔ قرآن مجید اور حدیث میں ولی اللہی نصاب اور باقی علوم کی تدریس میں درسِ نظامی کا نصاب دونوں کو ملا کر دارالعلوم دیوبند کا نصاب بنایا گیا جو تھوڑے بہت اضافوں اور ہلکی پھلکی تبدیلیوں کے ساتھ چلتا آ رہا ہے۔ لیکن ’’الفضل للمتقدم‘‘ چونکہ نام ملّا نظام الدین کا تھا تو درسِ نظامی کا نام چلا آ رہا ہے۔
اس نظام میں ایک اور فرق یہ آیا ہے کہ شاہ ولی اللہؒ کے بعد شاہ عبد العزیزؒ بخاری شریف سنداً پڑھاتے تھے۔ ان کے بعد شاہ محمد اسحٰق اور شاہ عبد الغنیؒ پڑھاتے رہے۔ یہ ۱۸۳۱ء کے بعد کا دور ہے۔ اس زمانے میں یہاں عدمِ تقلید کا رجحان عام ہو گیا تھا۔ حضرت مولانا میاں نذیر حسین دہلویؒ بڑے محدث تھے، شاہ محمد اسحٰقؒ کے شاگرد تھے، انہوں نے حنفیت چھوڑ دی تھی۔ اور اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ یہ وہ دور تھا کہ شہداء بالاکوٹ شہید ہو چکے تھے اور ملک بھر میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا، تو حالات کے پیشِ نظر شاہ محمد اسحٰق اور شاہ عبد الغنیؒ دونوں استاد شاگرد نے دہلی کی مسند چھوڑ دی اور ہجرت کر کے حجازِ مقدس چلے گئے، وہیں ان کا انتقال ہوا، تو ان کے بعد یہاں ان کی مسند پر میاں نذیر حسین دہلویؒ بیٹھے۔ ان کے ساتھ مولانا محمد حسین بٹالویؒ، نواب صدیق حسن خانؒ ایک نیا مکتب متعارف کروا رہے تھے۔ ان کی ضرورت تھی کہ اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے کچھ امتیازی تشخص قائم کریں تو انہوں نے رفع یدین، فاتحہ خلف الامام وغیرہ مسائل شروع کیے اور ان پر شدت اختیار کی۔ حنفیت کے خلاف دلائل شروع کیے اور بخاری و ترمذی کو اس طرح پڑھانا شروع کیا کہ گویا یہ حنفیت کے خلاف محاذ ہے۔ ورنہ بخاری و ترمذی کو دنیا میں کہیں بھی حنفیت و شافعیت کے حوالے سے نہیں پڑھایا جاتا۔ اس کا آغاز ان حضرات نے کیا اور ان کی اپنی ضرورت تھی کہ انہوں نے اپنا وجود قائم کرنا تھا، اس لیے اپنے امتیازات قائم کیے اور کہا کہ شاہ ولی اللہؒ کے وارث ہم ہیں۔
اس کے جواب میں ہمارے بزرگوں کو بھی یہ طرز اختیار کرنا پڑا۔ وہ الزام لگاتے تھے کہ حنفیوں کے پاس حدیث کوئی نہیں ہے، تو اِدھر سے مولانا احمد علی سہارنپوریؒ جو کہ شاہ محمد اسحٰقؒ کے شاگرد تھے یعنی دونوں ایک ہی استاد کے شاگرد تھے، دونوں شاگردوں میں ٹکراؤ ہو گیا۔ مولانا احمد علی سہارنپوریؒ نے یہ طرز شروع کی۔ پھر مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اس طرز پر پڑھایا، اس کے بعد اس کو حضرت مولانا انور شاہ کاشمیریؒ اور مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے علمی کمال تک پہنچایا۔ چنانچہ دونوں طرف یہ طرز ایسا شروع ہوا کہ آج تک بخاری و مسلم اور ترمذی حنفیت اور غیر مقلدیت کے دائرے میں پڑھائی جا رہی ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے جو حدیث کی سنداً روایت کو شامل کیا تھا وہ تو محدثین کی طرز پر تھا لیکن ہمارے ہاں مجادلہ آ گیا۔ یہ مجادلہ شاہ ولی للہؒ کے دور میں نہیں تھا اور شاہ محمد اسحٰق اور شاہ عبد الغنیؒ کے دورمیں بھی نہیں تھا۔ حدیث میں فقہی مجادلہ مولانا میاں نذیرحسین دہلویؒ اور مقابلے میں مولانا احمد علی سہارنپوریؒ نے شروع کیا۔ آج اس مجادلے کی ضرورت ہے یا نہیں لیکن دونوں طرف سے یہ جاری ہے۔ ادھر سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ ہندوؤں نے یہاں کے انگریزی قانون اور انگریزی زبان کا نیا نظام سنبھال لیا تھا تو سرسید نے اس حوالے سے کوشش کی کہ سارا نظام ہندو سنبھال لیں گے تو ہم مسلمان کسی کھاتے میں نہیں رہیں گے، اس لیے یہ نظام ہمیں سنبھالنا چاہیے۔ اس محاذ پر سر سید نے اس ہندو تغلب کے مقابلے میں مسلمانوں کو مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے ایک مستقل کردار ادا کیا۔
حضرات محترم! میں نے آج مدارس کا پس منظر عرض کیا ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے بزرگوں نے کن مقاصد کے لیے اور کس دائرے میں یہ کام شروع کیا تھا۔ اللہ پاک ان مدارس کی حفاظت فرمائیں، ترقیات نصیب فرمائیں اور اپنے مقاصد و اہداف میں کامیابی نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔