جمعیت علمائے اسلام پاکستان (ف) ۳۱ مارچ کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے زیر سایہ ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کے انعقاد کی تیاریوں میں مصروف ہے اور صوبہ پنجاب میں جمعیت کے کارکن اسے کامیاب بنانے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کو اسی گراؤنڈ میں تحریک انصاف کے زیر اہتمام ہونے والا عوامی اجتماع جمعیت کے کارکنوں کے لیے چیلنج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور وہ اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ جس طرح کراچی میں مزارِ قائدؒ کے وسیع سبزہ زار میں انہوں نے تحریک انصاف کے جلسے کے بعد اس سے بڑا عوامی اجتماع کیا تھا، اسی طرح لاہور میں وہ عمران خان کے جلسے سے بڑا جلسہ کر کے دکھائیں گے۔
ظاہر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے ایک رکن کے طور پر ہماری ہمدردیاں انہی کے ساتھ ہیں اور ہم ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں عالمی سیکولر حلقوں اور ملک کے اندر ان کی نمائندگی کرنے والے عناصر کے جو عزائم ہیں، وہ ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور ان کا سامنا دینی جماعتوں نے ہی کرنا ہے، جن میں جمعیت علمائے اسلام ایک متحرک، مضبوط اور توانا سیاسی فورم کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیکولر حلقوں کے ایجنڈے کے تناظر میں اس توانا اور مضبوط آواز کو اور زیادہ مضبوط بنانا ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے، چنانچہ پاکستان شریعت کونسل نے ایک غیر انتخابی سیاسی فورم سے ملک کے تمام دینی و سیاسی حلقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں مذہبی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچائیں اور ۳۱ مارچ کی ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کو بھرپور طریقے سے کامیاب بنانے میں تعاون کریں۔ اس حوالے سے ہمارا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت، دستور کی اسلامی دفعات اور کردار پر یقین رکھنے والی تمام جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے جلسوں کو کامیاب بنانا چاہیے، باہمی اشتراک و تعاون کے ساتھ عام انتخابات کے میدان میں آنا چاہیے یا کم از کم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے مذہبی ووٹ کو تقسیم ہونے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ دین اور وقت دونوں کا یہی تقاضا ہے۔
اس موقع پر ہم جمعیت علمائے اسلام کی تاریخ کے بارے میں ایک ہلکا سا خاکہ پیش کرنا چاہیں گے کہ اس کا قیام سب سے پہلے تحریک پاکستان کے دوران جمعیت علمائے ہند کی طرف سے تقسیم ہند کی مخالفت کا موقف اختیار کرنے پر ان سرکردہ علمائے کرام کی کوششوں سے عمل میں لایا گیا تھا، جو جمعیت علمائے ہند کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے تحریک پاکستان کی حمایت اور اس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے تھے۔ انہیں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی زندگی میں ان کی سرپرستی حاصل تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کی سیاسی سوچ ان علمائے کرام کی رہنمائی کے لیے اساس ثابت ہوئی۔ کلکتہ میں آل ہند جمعیت علمائے اسلام کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس فورم پر علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا، جن میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا اطہر علیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا راغب احسنؒ، مولانا غلام مرشدؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا محمد مبین خطیبؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ بطورِ خاص قابل ذکر ہیں۔
تحریک پاکستان کی تاریخ میں صوبہ سرحد میں پاکستان کے حق میں عوامی ریفرنڈم جیتنے میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور سلہٹ میں عوام کو پاکستان کی حمایت کے لیے آمادہ کرنے میں مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی جدوجہد کا بطور خاص تذکرہ کیا جاتا ہے۔ خود قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ان کے اس کردار کو سراہا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری کے لیے زبردست محنت کی اور ان کی کوششوں سے وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم کی پیش کردہ تاریخی قرارداد منظور ہوئی، جس میں پاکستان کی نظریاتی اساس اور تہذیبی شناخت ہمیشہ کے لیے طے کر دی گئی اور دستور ساز اسمبلی نے اعلان کیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گا، جہاں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی، حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو ہو گا اور حکومت اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و تعلیمات کی پابند ہو گی۔
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا اس کے بعد جلد انتقال ہو گیا، جس کی وجہ سے تحریک پاکستان میں عملی حصہ لینے والی جمعیت علمائے اسلام کو کوئی متحرک قیادت میسر نہ آ سکی اور مختلف مراحل و ادوار سے گزرنے کے بعد وہ غیر مؤثر سی ہو کر رہ گئی، البتہ اس دوران جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں نے ایک اہم کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ سیکولر حلقوں کے اس چیلنج کے جواب میں کہ اسلام کا نفاذ فرقہ وارانہ مسئلہ ہے اور پاکستان میں سنی، شیعہ، دیوبندی اور بریلوی اسلام کی تعبیر و تشریح پر متفق نہیں، انہوں نے کراچی میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کی صدارت میں تمام مکاتب فکر کے اکتیس اکابر علمائے کرام کا اجتماع کر کے بائیس متفقہ دستوری نکات طے کرائے، جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ پاکستان میں اسلام کی دستوری اور قانونی تعبیر پر مختلف مکاتب فکر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور نفاذِ اسلام پاکستان کے تمام مذہبی حلقوں کا متفقہ مسئلہ ہے۔
اس کے بعد پاکستان میں جمعیت علمائے ہند سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے قومی سیاست میں حصہ لینے کے لیے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا ٹائٹل اختیار کیا اور مولانا احمد علیؒ، مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، پیر محسن الدین احمدؒ، مولانا عبد الحقؒ اور مشرقی و مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دیگر بہت سے سرکردہ علمائے کرام نے اس فورم پر قومی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام کے سات ارکان قومی اسمبلی میں پہنچے اور دستور سازی میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دستور میں اساسی اسلامی دفعات کی شمولیت میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد الحقؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا محمد ذاکرؒ، پروفیسر غفور احمدؒ، مولانا عبد المصطفیٰ الازہری اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر مولانا مفتی محمودؒ نے اس ساری جدوجہد کی قیادت کی تھی۔ مولانا مفتی محمودؒ اس دوران صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں نیشنل عوامی پارٹی کے تعاون سے کم و بیش دس ماہ تک وزیر اعلیٰ رہے اور ان کی بعض اسلامی اصلاحات اور ساده و درویشانہ طرز حکومت کو اب تک یاد کیا جاتا ہے۔
۱۹۷۷ء میں نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل ”پاکستان قومی اتحاد“ کی سربراہی مولانا مفتی محمودؒ کے حصے میں آئی، جو جمعیت علمائے اسلام کے قائد تھے اور ان کی سربراہی میں پاکستان قومی اتحاد نے نہ صرف عام انتخابات میں نظام مصطفٰیؐ کے نفاذ کے نعرے پر حصہ لیا، بلکہ عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف زبردست عوامی تحریک چلائی، جو انتخابی منشور کی مناسبت سے ”تحریک نظام مصطفیٰؐ“ کا عنوان اختیار کر گئی اور برصغیر کی زبردست عوامی تحریکات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں جنرل محمد ضیاء الحق شہیدؒ نے اقتدار سنبھال کر مارشل لاء نافذ کیا اور ملک میں نفاذ شریعت کے لیے پیشرفت کا اعلان کیا تو پاکستان قومی اتحاد نے مولانا مفتی محمودؒ کی سربراہی میں ان کی حکومت میں شمولیت اختیار کی اور نفاذ اسلام کے سلسلے میں ان کی عملی رہنمائی کی، جس کے نتیجے میں قرارداد مقاصد کو دستور کے دیباچے سے نکال کر واجب العمل حصے میں شامل کیا گیا، وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی، حدود آرڈیننس کا نفاذ عمل میں آیا اور ۱۹۷۴ء کے دوران پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے پر عملدر آمد کے لیے امتناع قادیانیت آرڈیننس کا نفاذ ہوا۔
جنرل محمد ضیاء الحق شہیدؒ کے دور میں ہی جمعیت علمائے اسلام کے دو رہنماؤں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیفؒ نے قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کے لیے ”شریعت بل“ پیش کیا جو سینٹ نے منظور کر لیا، مگر قومی اسمبلی میں آنے کے بعد اپنی اصل حیثیت برقرار نہ رکھ سکا۔ گزشتہ قومی اسمبلی نے پورے دستور پر نظرثانی کا کام شروع کیا تو دستور کی اسلامی دفعات، بالخصوص قرارداد مقاصد، تحفظ ختم نبوت کا قانون اور ناموس رسالت کے تحفظ کا قانون ترامیم کی زد میں آنے لگے تو جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن ان ترامیم کے سامنے ڈٹ گئے اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کی جنگ لڑی، جس میں وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔
جمعیت علمائے اسلام صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کے فورم پر الیکشن میں حصہ لے کر گزشتہ دور میں حکمران رہی ہے، جب اکرم درانی صوبے کے وزیر اعلیٰ تھے۔ جبکہ بلوچستان کے مختلف ادوار میں وہ صوبائی حکومت کا حصہ رہی ہے اور ان دو صوبوں کی سیاست میں اس کا اہم کردار چلا آ رہا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام بھی دوسری سیاسی و دینی جماعتوں کی طرح آج کے دور کی ہی جماعت ہے اور معاشرے کے عمومی ماحول اور تناظر میں ہی اس کے کردار کو دیکھنا مناسب بات ہے۔ اس سلسلے میں سرِدست صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ملک میں کرپشن کے عذاب بلکہ سونامی کے حوالے سے بھاری قرضے معاف کرانے والے سیاستدانوں، بدعنوانی کے ضمن میں نیب میں زیر سماعت کیسوں اور آئی ایس آئی سے سیاسی رشوت کے طور پر ملنے والی رقوم کے بارے میں جو فہرستیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور قومی پریس کے ریکارڈ میں ہیں، ان میں جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کا کہیں نام نظر نہیں آتا، جو آج کے حالات اور تناظر میں جمعیت علمائے اسلام کے بہتر سیاسی کردار کی ایک واقعاتی شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہماری گزارش ہے کہ ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اگر عام انتخابات میں بھی جمعیت علمائے اسلام کو آگے آنے کا موقع دیا جائے تو وہ یقیناً ملک کی بہت سی دیگر جماعتوں سے زیادہ بہتر طور پر ملک کی قیادت اور نظام کی اصلاح کا کردار ادا کر سکے گی۔