وفاقی وزیرخزانہ سے ایک اہم گزارش

   
مئی ۲۰۲۴ء

روزنامہ اسلام ملتان میں ۲۴ اپریل کو وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب صاحب کے دو بیان الگ الگ شائع ہوئے ہیں جن میں انہوں نے ملکی معاشی صورتحال اور حکومت کی پالیسی کے حوالے سے وضاحت کی ہے۔ ایک خبر کے مطابق انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سودی نظام کے خاتمے کا مرحلہ وار سلسلہ جاری ہے اور اسلامی شریعت کورٹ نے اس سلسلہ میں جو ٹائم فریم دیا ہے اس پر کام ہو رہا ہے۔ جبکہ دوسری خبر کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طویل المدتی پروگرام ضروری ہے۔ پہلی خبر میں انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمیں بالآخر آئی ایم ایف کے پروگرام سے نکلنا ہو گا مگر اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ہماری ضرورت ہے۔

جہاں تک سودی نظام کے خاتمے کی طرف پیش رفت کی بات ہے، ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وفاقی وزیر خزانہ کی یہ بات معروضی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی اور انہوں نے صورتحال کا خود جائزہ لینے کی بجائے دفتری رپورٹوں پر گزارہ کرتے ہوئے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ سودی نظام کے خاتمہ کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت نے جو فریم ورک دیا تھا اس کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہو رہا بلکہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے متعلقہ فیصلے نظرثانی کی اپیل دائر ہونے کے بعد تعطل کا شکار ہیں اور اس دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کی شرح میں اضافہ کیا ہے جو عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد کی بجائے ہمارے نزدیک اس کی توہین اور اسے نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔

سودی نظام کا خاتمہ دستور کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے کوئی بھی حکومت عدالتی فیصلوں کی محتاج نہیں، اور دستور کے تحت اس کی مستقل ذمہ داری ہے کہ وہ سودی نظام کے جلد از جلد خاتمہ کا اہتمام کرے۔ مگر کسی عملی پیش رفت کی بجائے زبانی جمع خرچ اور وعدوں پر قوم کو مسلسل ٹرخایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو ہم سابق وزیر خزانہ جناب غلام اسحاق خان مرحوم کی ایک نشری تقریر کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے جو انہوں نے ۱۹۸۴ء کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کی تھی اور روزنامہ جنگ لاہور میں ۱۵ جون ۱۹۸۴ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انہوں نے فرمایا تھا کہ

’’بینکاری نظام سے ربا کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اور جامع پروگرام اسٹیٹ بینک اور قومی کمرشل بینکوں کے مشورہ سے وضع کیا گیا ہے اور اس پروگرام کا اطلاق تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں بشمول غیر ملکی بینکوں کے ہو گا۔ یکم جنوری ۱۹۸۵ء سے بینکاری نظام حکومت کو اور سرکاری کارپوریشنوں اور سرکاری و نجی جوائنٹ اسٹاک کمپنیوں کو جو سرمایہ فراہم کرے گا وہ شریعت کے اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہو گا۔‘‘

جناب غلام اسحاق خان مرحوم نے وفاقی وزیرخزانہ کی حیثیت سے ۱۹۸۴ء کو اپنی بجٹ تقریر میں قوم کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ غیر سودی مالیاتی نظام کی تشکیل مکمل کر لی گئی ہے اور اگلے سال یعنی ۱۹۸۵ء کا بجٹ غیر سودی ہو گا۔ غلام اسحاق خان مرحوم اس کے بعد ملک کے صدر کے منصب پر بھی فائز ہوئے مگر ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا معاملہ ہے اور چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود قوم غیر سودی بجٹ کو ترس رہی ہے، اور دستور کی ہدایات کے ساتھ عدالتی فیصلوں کو بھی نظرثانی کے چکروں میں ڈال کر بدستور تعطل کا شکار رکھا جا رہا ہے۔

ہم وفاقی وزیرخزانہ سے گزارش کریں گے کہ وہ جناب غلام اسحاق خان مرحوم کی ۱۹۸۴ء کی یہ بجٹ تقریر ریکارڈ سے نکلوا کر اس کا ایک بار ضرور مطالعہ کریں تاکہ کم از کم انہیں یہ تو معلوم ہو کہ وہ قوم سے کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی وزارت کے ریکارڈ نے اپنی فائلوں میں کیا کچھ دبا رکھا ہے۔ باقی رہی بات کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو جاری رکھنے بلکہ طویل المدتی پروگرام طے کرنے کو وزیر خزانہ قومی ضرورت بتا رہے ہیں، ان کی یہ بات قومی ضروریات اور جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے کی بجائے قومی معاملات بالخصوص ملکی معیشت میں غیر ملکی مداخلت اور عالمی مالیاتی اداروں کی مسلسل دخل اندازی کی وکالت کے مترادف ہے۔ اور ہم اس پر وفاقی وزیر خزانہ سے احتجاج کرتے ہوئے ان سے گزارش کریں گے کہ اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت ملک کے سیاسی، معاشی اور تہذیبی معاملات میں غیر ملکی مداخلت اور عالمی اداروں کی ڈکٹیشن کا راستہ بند کرنا ہے جو پاکستان کی اسلامی تہذیبی شناخت، دستوری تقاضوں اور قومی خودمختاری کے سراسر منافی ہے۔ ہم سیکولر ایجنڈا اور عزائم رکھنے والی عالمی لابیوں کے مسلسل حصار میں ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان کی اسلامی تہذیبی شناخت بلکہ ہماری قومی خودمختاری اور ملکی وحدت کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ قوم کے تمام دینی و سیاسی طبقات اور ادارے ملکی وحدت، تہذیبی شناخت اور قومی خودمختاری کے تحفظ کے لیے یک آواز ہو کر قوم کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کریں اور اس کے لیے راہ ہموار کرنے کے اقدامات کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter