راجہ انور صاحب محترم نے ملائیت کو تھیاکریسی سے تعبیر کر کے مذہبی پیشوائیت کے اس فلسفہ کو اپنی فکر اور سوچ کی بنیاد بنایا ہے جو مسیحی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے اور جس کی اسلامی تعلیمات میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یورپ میں سائنس اور صنعت کے آگے بڑھنے پر مذہبی پیشوائیت کی طرف سے اس کی مخالفت کے باعث جو کشمکش پیدا ہوئی اس میں مذہبی پیشوائیت کے لیے ’’تھیاکریسی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ اور اسی اصطلاح کو ہمارے جدید تعلیم یافتہ دانشور وہاں سے اٹھا کر مسلم معاشرہ کی مذہبی پیشوائیت پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ مگر وہ اس فرق اور امتیاز کو بھول جاتے ہیں جو ان دونوں میں عملی طور پر روز روشن کی طرح واضح ہے۔
مسیحی دنیا کی مذہبی پیشوائیت کا حال یہ تھا کہ اسے خدا کے براہ راست نمائندہ کی حیثیت دی جاتی تھی۔ سب سے بڑے مذہبی پیشوا کی رائے ہر معاملہ میں حرف آخر سمجھی جاتی تھی اور اس کی مطلق العنانی اور اختیارات کا یہ عالم تھا کہ بائبل کی آیات اور الفاظ کے تغیر و تبدل اور اس کی تعبیر و تشریح میں بھی اس کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ان اختیارات اور مطلق العنانی کے ساتھ جب مذہبی پیشوائیت نے سائنسی ترقی اور مشاہدات سے انکار کر کے انہیں کفر ٹھہرایا، اور بادشاہ و جاگیردار کے مظالم اور جبر و تشدد کے خلاف بغاوت کرنے والے غریب عوام کی حمایت کرنے کی بجائے بادشاہت اور جاگیرداروں کی پشت پناہی کی، تو مظلوم عوام کے سامنے مذہبی پیشوائیت کی اس مطلق العنانی کو غلط ٹھہرانے اور اسے چیلنج کرنے کا کوئی اصول و ضابطہ اور فورم موجود نہیں تھا۔ اس لیے آخری چارہ کار کے طور پر انہیں سرے سے اس مذہبی پیشوائیت ہی کو مسترد کرنا پڑا۔ پھر خدا کی نمائندگی کرنے والی یہ مذہبی پیشوائیت عوامی انقلاب اور بغاوت کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔
مگر اسلام میں اس قسم کی مذہبی پیشوائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ دونوں اصلی حالت میں محفوظ ریکارڈ کے طور پر امت مسلمہ کے پاس موجود ہیں۔ اور اسلام کے ان دونوں سرچشموں کے حوالہ سے تعبیر و تشریح کے وسیع تر جزوی اور فروعی اختلافات کے باوجود کوئی مذہبی پیشوا اسلام کے بنیادی اصولوں اور اسلامی تعلیمات سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ جب بھی کسی نے مذہبی پیشوائیت کے دعوؤں کے ساتھ قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں سے انحراف کی کوشش کی ہے تو وہ امت کے اجتماعی دھارے سے ایسے کٹا ہے جیسے مکھن سے بال نکال دیا جاتا ہے۔
چنانچہ اسلامی تعلیمات میں فائنل اتھارٹی شخصیات کو نہیں بلکہ اصولوں کو حاصل ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے کہ آپؐ نے ایک دفعہ صرف اپنی ذات کی حد تک شہد نہ کھانے کی قسم اٹھا لی تھی، لیکن چونکہ آنحضرتؐ کا شہد استعمال نہ کرنا ایک سنت کے طور پر امت میں نمونہ اور مثال بن سکتا تھا اس لیے قیامت تک محفوظ رہنے والی وحی میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کو اس سے منع فرما دیا اور قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
جناب رسول اللہؐ کے بعد حضرات خلفاء راشدینؓ ان کے نمائندہ ہیں جو حکومت اور مذہبی پیشوائیت دونوں میں آنحضرتؐ کی نیابت کرتے ہیں۔ تاریخ میں خلفاء راشدینؓ کے بیسیوں ایسے واقعات ہیں کہ ان کے اقدامات پر قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں اعتراض کیا گیا تو انہوں نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ چونکہ خلیفہ راشد ہیں اور خدا کے نمائندہ ہیں اس لیے وہ جو کہتے ہیں خدا کی طرف سے کہتے ہیں اور وہی ہر بات میں فائنل اتھارٹی ہیں لہٰذا ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے برعکس ایسے ہر اعتراض کے موقع پر انہوں نے اپنی صفائی پیش کی، قرآن و سنت سے اپنے طرز عمل کے حق میں دلائل دیے، اور جہاں غلطی نظر آئی وہاں رجوع کرنے اور اپنا فیصلہ واپس لینے میں بھی کسی تامل سے کام نہیں لیا۔
خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ نے تب تھیاکریسی کی نفی کر دی تھی جب انہیں کسی صاحب نے یا خلیفۃ اللہ کہہ کر پکارا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فورًا ٹوک دیا اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں بلکہ رسول اللہؐ کا خلیفہ ہوں۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ خدا کی نیابت اور نمائندگی میں تو اس مطلق العنانی کی گنجائش موجود ہے کہ وہ جو کچھ کہیں وہ خدا کی طرف سے ہے اور اسی کا نام تھیاکریسی ہے۔ مگر رسول اللہؐ کا خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان اصولوں اور ہدایات کے پابند ہیں جو نبی اکرمؐ نے پیش فرمائے، جو محفوظ حالت میں موجود ہیں، اور جن میں رد و بدل کا قیامت تک کوئی امکان نہیں ہے۔
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ خطبہ جمعہ کے دوران نکاح میں مہر کی رقم کی مقدار پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو ایک عام عورت نے انہیں قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دے کر ٹوک دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ حضرت عثمانؓ اور ان کے عمال پر اعتراضات ہوئے تو انہوں نے تمام صوبوں میں باقاعدہ اعلان کر کے شکایات کرنے والوں کو حج کے موقع پر بلایا اور منیٰ میں خود عوامی عدالت میں کھڑے ہو کر لوگوں کے اعتراضات سنے اور ایک ایک بات کا جواب دیا۔ جبکہ حضرت علیؓ کے ایک اقدام کی وجہ سے خوارج کی طرف سے ان پر کفر کا فتویٰ لگ گیا تھا مگر حضرت علیؓ نے اپنے فیصلے کو حرف آخر قرار دینے کی بجائے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو اپنے نمائندہ کے طور پر خوارج کے پاس بھیجا جنہوں نے قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ ان کے سامنے حضرت علیؓ کی پوزیشن کو واضح کیا اور دلائل کی بنیاد پر انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
یہ بزرگ اگر تھیاکریسی کی بنیاد رکھنے والے ہوتے تو آسانی کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ ہم خدا کے نمائندے ہیں اور ہماری بات حرف آخر ہے، اس لیے ہمارے کسی فیصلہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن انہوں نے قرآن و سنت کو اپنی رائے کے تابع کرنے کی بجائے خود کو اصولوں کے سامنے کھڑا کر کے یہ بتا دیا کہ اسلام میں تھیاکریسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یہ روایت اور طریق کار صرف حضرات خلفاء راشدینؓ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ آج بھی اسلام کے اصول یہی ہیں اور ان کی پابندی سے کوئی طبقہ یا شخصیت مستثنیٰ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ قانونی احتساب اور عدالت میں پیش ہونے سے جو استثنیٰ بعض مقتدر شخصیات کو آج کے مروجہ قانون میں حاصل ہے اسلام اس کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی واضح سفارشات موجود ہیں۔
راجہ انور صاحب محترم سے عرض ہے کہ اس وقت بھی دنیا بھر میں امت مسلمہ کی غالب اکثریت اہل السنۃ والجماعۃ میں کوئی طبقہ ایسا موجود نہیں ہے جو کسی بھی معاملہ میں اپنی رائے کو خدا کی نمائندگی کہہ کر حتمی قرار دیتا ہو اور خود کو فائنل اتھارٹی کے طور پر پیش کرتا ہو۔ بلکہ میں اپنے بعض سابقہ مضامین میں وضاحت کر چکا ہوں کہ جب ہم حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ جیسے عظیم المرتبت ائمہ کرام کے فیصلوں کو اس درجہ میں حتمی نہیں مانتے کہ ان میں خطا کا احتمال نہ ہو، یا قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں انہیں رد کر دینے کا امکان موجود نہ ہو تو ان کے بعد قیامت تک اور کون سا طبقہ ایسا ہو سکتا ہے جسے خدا کا نمائندہ قرار دے کر دینی معاملات میں اس کی رائے کو حرف آخر تسلیم کر لیا جائے؟
اس لیے مسلمانوں کے دینی رہنمائی کے نظام ملائیت پر تھیاکریسی کی پھبتی کسنے کا مطلب تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اور ہمارے پڑھے لکھے دوستوں کو تاریخ کے ساتھ ایسی بے انصافی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔