روہنگیا مسلمانوں کا جرم؟

   
۲۲ جون ۲۰۱۳ء

این این آئی کے حوالہ سے ’’پاکستان‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے برما (میانمار) سے مطالبہ کیا ہے کہ اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی شہریت اور طویل مدتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کا تعین کیا جائے جن میں لاکھوں افراد نسلی تشدد کے واقعات کے نتیجے میں پناہ گزین خیموں میں رہائش پر مجبور ہوئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد سے متعلق ادارے نے بتایا ہے کہ برما کی مغربی ریاست راکھین (اراکان) میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد بے گھر ہیں۔ ایک برس سے جاری (حالیہ) بودھ مسلمان فسادات کے باعث تقریباً دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یہ خطہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر بٹ چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت مندوں کو اب روزانہ کی بنیاد پر خوراک تقسیم ہوتی ہے اور اکہتر ہزار سے زائد افراد کو پناہ دینے کے لیے عارضی خیمے قائم ہیں۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ تناؤ کی بنیادی وجوہات ختم کیے بغیر دیرپا امن اور ہم آہنگی قائم نہیں ہو سکتی۔ رپورٹ میں کم و بیش آٹھ لاکھ مسلمانوں کی شہریت کے تعین کے معاملے کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

میانمار (برما) کی مغربی ریاست اراکان کے بارے میں اس قسم کی رپورٹیں کم و بیش ایک سال سے تسلسل کے ساتھ اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اور اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت عالمی اداروں کی طرف سے احتجاج اور برما کی حکومت سے اصلاح احوال کے مطالبات بھی نظر سے گزرتے رہتے ہیں، لیکن صورت حال میں بہتری کی کوئی صورت سامنے نہیں آرہی بلکہ اراکانی مسلمانوں کی اس بے رحمانہ خونریزی کو بودھ مسلم فسادات یا نسلی فسادات کا عنوان دے کر فریقین کے درمیان کشمکش بتایا جا رہا ہے حالانکہ یہ سب کچھ یکطرفہ ہے۔ قتل بھی صرف مسلمان ہو رہے ہیں، مکانات صرف ان کے جل رہے ہیں، وہی جلا وطن ہو رہے ہیں، پناہ گزینوں کے کیمپوں میں صرف ان کا بسیرا ہے اور انہی پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان کی رائے عامہ اور درد مند مسلمانوں کو توجہ دلانے کے لیے ”اراکان ویلفیئر فاؤنڈیشن“ کے نام سے ایک فورم کام کر رہا ہے، جس کی لاہور میں سرپرستی جامع مسجد خضراء سمن آباد کے خطیب مولانا عبد الرؤف فاروقی کر رہے ہیں۔ فاؤنڈیشن کی طرف سے اراکان کی صورت حال کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی ہے، جو ممتاز اراکانی عالم دین مولانا حافظ نور البشر کی تحریر کردہ ہے۔ وہ اس رپورٹ میں اراکانی مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  • برما ۱۹۴۸ء میں آزاد ہوا، اس سے ایک سال قبل جب پاکستان کو آزادی مل رہی تھی، اراکان کے ارباب حل و عقد اور مسلمانوں کے قائدین نے قائد اعظم محمد علی جناح سے باقاعدہ ملاقات کی اور ان کے گوش گزار کیا کہ اراکان کو پاکستان کے ساتھ ملایا جائے (اس لیے کہ یہ خطہ سابقہ مشرقی پاکستان کی بندر گاہ چٹاگانگ کے ساتھ متصل ہے۔ جس زمانے میں اراکان آزاد اسلامی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر صدیوں تک موجود رہا، اس وقت چٹاگانگ اراکان کا حصہ تھا) لیکن یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور ۱۹۴۸ء میں برطانیہ نے جاتے جاتے اراکان کو مشرقی پاکستان کے ساتھ ملانے کی بجائے برما میں شامل کر دیا، جس سے مسلمانوں پر مظالم کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
  • ۱۹۶۴ء میں جنرل نے ون نے حکومت سنبھالی تو مسلمانوں کو اراکان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی گئی، جس میں صدیوں سے اس خطے میں آباد روہنگیا مسلمانوں کی برما کی شہریت کو مشکوک بنا دیا گیا اور اراکان کو برما کا حصہ رکھتے ہوئے وہاں کی آبادی کو برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
  • ۱۹۷۸ء
    میں برما کی حکومت نے باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوئے اور پانچ لاکھ کے لگ بھگ بے گھر ہوئے۔
  • ۱۹۹۱ء میں پھر آپریشن کیا گیا، جس میں ہزاروں مسلمان لقمہ اجل ہوئے اور ساڑھے تین لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، جہاں وہ آج بھی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
  • ابھی گزشتہ سال سے پھر مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے، جس پر عالمی ادارے بھی چیخ اٹھے ہیں، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کو برما کی حکومت سے مطالبہ کرنا پڑا ہے کہ وہ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ طے کرے اور خونریزی کے سلسلے پر قابو پائے۔
  • اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کے زیر سایہ عالمی سطح پر ایک فورم ”اراکان روہنگیا یونین“ کے نام سے قائم کیا گیا ہے، جو ان مسلمانوں کی مظلومیت اور کسمپرسی کی طرف عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی اداروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک اراکانی مسلمان ڈاکٹر وقار الدین اس فورم کے سربراہ ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اراکان کے ان مسلمانوں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ایک اسلامی ریاست کا پس منظر رکھتے ہیں اور بد قسمتی سے بودھ اکثریت کے ملک برما (میانمار) کا حصہ بن گئے ہیں، جبکہ ان کا اس سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کر کے ان سے اس کی درخواست بھی کر دی جو بوجوہ قبول نہ کی جا سکی۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ سے مختلف نہیں ہے۔

گزشتہ برس ہم نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن سے، جو اس وقت پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، ملاقات کر کے درخواست کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ اراکان کے مسئلہ کو بھی حکومت پاکستان کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے اور اس کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں برما کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور اس کے اثرات بھی سامنے آئے ہیں، لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ

  • او آئی سی اس سلسلہ میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے،
  • بنگلہ دیش کی حکومت اسے باقاعدہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرے،
  • اور حکومت پاکستان بھی اسے ترجیحات کا حصہ بنائے۔

اراکانی مسلمان صدیوں تک ایک آزاد اسلامی ریاست کا پس منظر رکھنے کے باوجود آج مسلسل مظالم اور بے بسی کا شکار ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانا اور عالمی رائے عامہ اور اداروں کو برما (میانمار) کی حکومت پر مؤثر دباؤ ڈالنے کے لیے آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم مسلمانوں کی امداد کا اہتمام کرنا بہرحال ہماری دینی اور قومی ذمہ داری بنتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter