ناخداؤں کا گھمنڈ اور عذابِ الٰہی کا ضابطہ

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۱۷ اگست ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مکہ مکرمہ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور قریش کی طرف سے مخالفت وحی کے بعد شروع ہو گئی تھی، تیرہ سال تک پورے عروج پر یہ مخالفت اور کشمکش رہی جس کے مختلف مراحل ہیں۔ مخالفت اس حد تک آگے بڑھی کہ ایک موقع پر بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر قریش کے بڑے سرداروں نے اللہ پاک سے خطاب کر کے یہ کہا جو قرآن پاک میں ہے: "واذ قالوا اللھم ان كان ھذا ھو الحق من عندك فامطر علينا حجارۃ من السماء أو ائتنا بعذاب اليم" ابوجہل وغیرہ بیت اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اللہ سے کہہ رہے ہیں نبی کریم کے بارے میں کہ اگر یہ سچا ہے اور ہم نہیں مانتے تو پتھر برسا ہم پر، یعنی ضد اور عناد اس حد تک آگے بڑھا کہ ہم نہیں مانتے جو عذاب بھیجنا ہے بھیج دے۔

اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے جہاں یہ ذکر کیا وہاں عذاب کے بارے میں اپنے کچھ ضابطے بیان کیے ہیں۔ ایک عذاب آخرت کا ہے، ایک عذاب دنیا کا ہے۔ آخرت کا عذاب تو اپنے مقام پر ملے گا، دنیا کے عذاب دو قسم کے ہیں، اس کا بھی قرآن پاک میں ذکر ہے۔

پہلے اللہ پاک عذاب بھیجتے ہیں تنبیہ کے لیے کہ سنبھل جاؤ۔ سنبھل جائیں تو ٹھیک، نہ سنبھلیں تو پھر اللہ پاک کا عذاب آتا ہے۔ یہ قرآن پاک میں ضابطہ بیان ہوا ہے، سورۃ الانفال کی آیات میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ عذاب کے مستحق تو یہ ہیں "وما لھم الا يعذبھم اللہ" (الانفال) اللہ پاک ان کو کیوں عذاب نہیں دے گا؟ یہ کیا کرتے ہیں؟ "يصدون عن سبيل اللہ" (الحج) یہ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ لوگ مسلمان ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ رکاوٹ بنتے ہیں اور تکلیفیں دیتے ہیں۔ اور یہ بیت اللہ کی تولیت کو سنبھالے ہوئے ہیں "وما کانوا اولیاء" (الانفال) یہ بیت اللہ کے متولی نہیں ہیں، مسجد اور بیت اللہ کے متولی "متقون" ہوتے ہیں مومن ہوتے ہیں، یہ مشرک ہو کر بیت اللہ کے چودھری بنے ہوئے ہیں۔ یہ دوسرا جرم ہے۔ "ویصدون عن سبیل اللہ والمسجد الحرام" (الحج) اللہ کے دین سے لوگوں کو روکتے ہیں، مسجد حرام میں لوگوں کو آنے سے روکتے ہیں اور بیت اللہ کے چودھری بنے بیٹھے ہیں یہ اس کے متولی نہیں ہے" ان أولیاؤہٗ الا المتقون" بیت اللہ کے متولی متقی ہوں گے۔ اور آگے فرمایا "ما کان صلاتھم عند البيت إلا مكآء وتصديۃ" (الانفال) بیت اللہ نماز کے لیے ہے اور یہ وہاں تالیاں اور سیٹیاں بجاتے ہیں یعنی مذاق اڑاتے ہیں۔

یہ تو ان کے جرائم بیان کیے اور پھر فرمایا کہ اللہ انہیں عذاب کیوں نہیں دے رہا؟ دلچسپ سوال ہے کیونکہ ان کا تقاضہ یہ ہے کہ عذاب نازل کر۔ اللہ کہتا ہے کہ تم عذاب کے مستحق ہو، تمہارے جرائم عذاب والے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ عذاب دے کیوں نہیں رہا؟ درمیان میں وہ آیت ہے "وما كان اللہ ليعذبھم وأنت فيھم وما كان اللہ معذبھم وھم يستغفرون" (الانفال) اللہ دو وجہ سے مکہ والوں کو مکہ میں عذاب نہیں دے رہا:

(۱) جب تک آپؐ موجود ہیں عذاب نہیں آئے گا۔ اللہ کے دوسرے پیغمبروں کے ساتھ بھی ہوا تھا نوح علیہ السلام کی قوم کو عذاب کا فیصلہ ہوا تو ان سے کہا آپ کشتی میں بیٹھ جائیں، آپ الگ ہوں۔ لوط علیہ السلام کی قوم کو عذاب کا فیصلہ ہوا تو کہا "اسر باھلك بقطع من الليل" حضرت آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر رات کو نکلیں، صبح ہم عذاب بھیجیں گے۔ اللہ کا ضابطہ یہ ہے کہ پیغمبر کی موجودگی میں عذاب نہیں بھیجتا، اس لیے آپ جب تک درمیان میں موجود ہیں مکہ والوں پر عذاب نہیں آئے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود گرامی، حضورؐ کی موجودگی اللہ کے عذاب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

(۲) دوسری بات کہ حرم کے ماحول میں استغفار ہوتا ہے اور بیت اللہ کا ماحول یہ ہے کہ لوگ دور دراز سے آتے ہیں، طواف کرتے ہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں، جب تک یہ استغفار کا ماحول قائم ہے یہاں عذاب نہیں آئے گا۔

یہ دو باتیں رکاوٹ ہیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا مکہ والوں پر عذاب آیا ہے لیکن مکہ میں نہیں آیا۔ کہاں آیا ہے؟ اللہ پاک سب کو بدر لے گئے جہاں مکے والوں کے ۷۰ چودھری مارے گئے تھے۔ مکہ حرم ہے وہاں نہیں مارے، حرم خود رکاوٹ کا عذاب میں۔ اللہ پاک نے وہ منظر بھی بڑا عجیب بیان کیا ہے "اذ یعدکم اللہ احدی الطائفتين انھا لكم وتودون أن غير ذات الشوکۃ تكون لكم ویرید اللہ أن یحق الحق بکلماتہ" (الانفال)۔ وہ قافلہ لے کر مکہ سے نکلے تھے، آپؐ مدینہ سے نکلے تھے روکنے کے لیے، وہ قافلہ بچانے کے لیے نکلے تھے، اللہ پاک نے راستے بدل دیے۔ آپؐ بھی بدر کی لڑائی کے لیے نہیں جانا چاہتے تھے، وہ بھی نہیں جانا چاہتے تھے۔ "وتودون ان غير ذات الشوكۃ تكون لكم" آپ یہ چاہتے تھے کہ لڑائی نہ ہی ہو تو بہتر ہے، لیکن اللہ پاک مکہ والوں کو سزا دینے کے لیے بیت اللہ سے دور بدر تک لے گیا اور فرمایا میں لے گیا ہوں میں نے یہ کرنا تھا۔ مکہ میں سزا نہیں ہوگی اور آپؐ کی موجودگی میں سزا نہیں ہو گی البتہ آپؐ کے ہاتھوں سزا ہوگی، اللہ پاک نے وہاں سزا دلوائی۔ اور دوسری بات یہ فرمائی کہ مکہ حرم ہے یہاں لوگ آتے ہیں استغفار کرتے ہیں، توبہ کرتے ہیں۔ یہ اللہ رب العزت نے مکے والوں کے سوال کا جواب دیا کہ تم جو عذاب مانگ رہے ہو، میں دوں گا لیکن اپنے وقت پر دوں گا، مکہ میں نہیں دوں گا، حضور کی موجودگی میں عذاب نہیں آئے گا باہر لے جا کر دوں گا۔

میں نے یہ عرض کیوں کیا ہے؟ اس لیے کہ ہم بھی اس وقت اللہ کی ناراضگی کے ماحول میں ہیں، تھوڑا سا سوچیں کہ ہماری حالت دنیا میں اور وطنِ عزیز میں کیا ہے؟ اللہ کی رضا والی حالت ہے یا ناراضگی والی حالت ہے؟ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ اللہ راضی ہے ہم سے؟ اللہ جس قوم سے راضی ہوتا ہے اس کا یہ حشر ہوتا ہے؟ یہ رضا کی حالت ہے یا ناراضگی کی؟ جب ناراض ہوتا تو پھر عذاب ہوتا ہے۔

مفسرین اہلِ علم بتاتے ہیں کہ عذاب سے رکاوٹ دو چیزیں ہیں: جناب نبی کریم خود تو ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن حضورؐ کی سنت تو موجود ہے۔ سنت کا ماحول اور استغفار کا ماحول آج بھی عذاب کے راستے میں رکاوٹ ہے اللہ کی ناراضگی سے۔ اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو سنت کے ساتھ جڑ جاؤ! حضورؐ نہیں ہیں مگر وہ نقشہ تو نظر آئے۔ میں اس کا سادہ ترجمہ یوں کیا کرتا ہوں حضورؐ کی سنت کا ماحول پیدا کرو اور استغفار کا ماحول پیدا کرو، استغفار کی کثرت ہوگی تو اللہ تعالی کے عذاب میں رکاوٹ ہو گی۔ آج بھی ہم جس ماحول میں ہیں ہماری یہ دو ہی پناہ گاہیں ہیں کہ (۱) ہم جس حد تک سنتِ رسولؐ کے قریب ہوں گے عذاب سے بچیں گے (۲) جس حد تک استغفار کی کثرت کریں گے عذاب سے بچیں گے، اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے، آمین، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter