بعد الحمد والصلوۃ۔ تفصیل سے جو باتیں ہو چکی ہیں، میں انہی کی روشنی میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
(۱) پہلی بات تو یہ کہ ہمارے مفتی رضوان عزیز صاحب گفتگو کے آخر نوجوانوں کی گمراہی اور ان کو گمراہ کرنے والوں کے حوالے سے بہت اچھی باتیں فرما رہے تھے، میں اس کے ایک پہلو پر بات کروں گا۔ ہمیں اپنی نئی نسل کے نوجوانوں سے شکایت ہے کہ ان میں بے راہ روی بڑھتی جا رہی ہے، اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے یا کچھ اور، لیکن اگر آپ ذرا کھلے دل کے ساتھ اس پر غور کریں کہ اصل قصور کس کا ہے؟ یہ بات تو درست ہے کہ شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں اشکالات، بے راہ روی اور غلط فکری کے رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے، اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔
دیکھیں، اگر میں اپنے برتن کو کسی کھلی جگہ پر خالی رکھ کر چھوڑ دوں گا اور خود اس میں کچھ نہیں ڈالوں گا، تو جس کا جو جی چاہے گا اس میں ڈال جائے گا۔ پھر مجھے ڈالنے والے سے بھی شکایت کا حق نہیں ہے اور برتن سے تو بالکل بھی شکایت کا حق نہیں ہے۔ اگر میں نے بچے کے دل و دماغ میں دین کی، دینی شخصیات کی، دینی مسائل کی، اور اپنے ماضی کی بنیادی معلومات نہیں ڈالیں، اور اس کے ذہن میں کوئی اپنا سودا ڈال گیا ہے تو قصور تو میرا ہے۔ جبکہ ہم کوستے بچوں کو ہیں کہ بچہ گمراہ ہو گیا ہے، بے راہ رو ہو گیا ہے، شکوک و شبہات کا اظہار کرتا ہے۔ میں ایک بات تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی کوتاہیاں ماننی چاہئیں۔
میں تقریبا پون صدی گزار چکا ہوں، مجھ سے کوئی عمر پوچھتا ہے تو سادہ سا جواب دیتا ہوں کہ پاکستان مجھ سے ایک سال بڑا ہے۔ میں اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ کوئی بچہ یا بچی جو کالج کی عمر اور منزل تک پہنچ گیا ہے اور دین کی بنیادی معلومات اور علم اس کے پاس نہیں ہے تو وہ یقینا گمراہ ہو گا۔ یہ بلا (سمارٹ فون) جو کچھ دیتی ہے اس کے لیے تو کالج بھی نہیں جانا پڑتا، اس کے ذریعے گھر بیٹھے شکوک و شبہات ذہنوں میں آتے ہیں اور یہ رات کو لحاف اوڑھے ہوئے سب کچھ مہیا کر دیتا ہے۔ نئی نسل کا جو بچہ کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ گیا ہے اور اس کے پاس دینی تعلیم نہیں ہے، میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ اس کے ساتھ نو مسلم جیسا معاملہ کیا کریں اور اسے بنیادی دینی تعلیم دیں، اس کو بحثوں اور مناظروں میں نہ الجھائیں کیونکہ اسے قرآن کا، خدا کا، رسول کا پتہ ہی نہیں ہے اور ہم اس کو بحثوں میں الجھا رہے ہوتے ہیں۔ جس خاندان کا تعلق مدرسے اور مسجد سے ہے، کسی اللہ والے سے کسی کا تعلق ہے، یا جماعت کے ساتھ کچھ وقت لگ گیا ہے، وہ خاندان اور بچے تو بچ جاتے ہیں، اس کے علاوہ باقی فیملیاں اور بچے شکار ہوتے ہیں اور اس کے قصوروار ان کے برتنوں کو خالی رکھنے والے ہیں۔ اس لیے علماء کرام سے عرض ہے کہ بچہ یا بچی اگر شکوک و شبہات کا شکار ہو تو پیار اور محبت کے ساتھ، ڈانٹے بغیر، اعتماد میں لے کر ان کو سمجھائیں اور نو مسلم سمجھ کر معاملہ کریں تب آپ ان کو سنبھال سکیں گے۔
پہلی بات میں نے یہ کی ہے کہ اللہ پاک نے جو بچی یا بچہ دیا ہے وہ اللہ کی نعمت ہے، اپنے برتن کو دودھ سے بھریں تاکہ کوئی گندگی سے نہ بھر دے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، فرمایا ’’ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ وینصرانہ ویمجسانہ ‘‘ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، ماں باپ کی مرضی ہے کہ اسے یہودی بنا دیں، عیسائی بنا دیں، مجوسی بنا دیں۔ اس کا سادہ ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی تمہیں خالی سی ڈی دیتے ہیں، تمہاری مرضی ہے اس میں قرآن بھر دو، تمہاری مرضی ہے اس میں گانے بھر دو، تمہاری مرضی ہے اس میں گالیاں بھر دو۔ اس لیے ہمیں اپنی نئی نسل کی فکر کرنی چاہیے اور سب سے پہلی ذمہ داری والدین کی ہے۔
(۲) ابھی علماء کے اتحاد کی بات ہوئی ہے، یہ بات میں بھی تقریبا تیس سال سے کر رہا ہوں۔ الحمد للہ خود ہمارے ہاں گوجرانوالہ کا ماحول یہی ہے کہ کوئی دینی، قومی، شہری مسئلہ ہو تو ہم تمام مکاتب فکر کے علماء اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ تاجروں اور وکیلوں کو بھی شریک کرتے ہیں اور اکٹھے ہو کر پیش آمدہ مسئلے پر مشترکہ کردار ادا کرتے ہیں۔ اور الحمد للہ ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ کوئی مسئلہ جب پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے جامع مسجد کی رائے معلوم کی جاتی ہے کہ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس لیے میں یہاں کا ماحول دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں۔ اور ضروری نہیں کہ ہم ہر وقت اکٹھے رہیں، آپس میں اختلاف بھی ہوتا ہے، بلکہ میں یہ کہا کرتا ہوں کہ جب ہم آپس میں لڑتے ہیں تو ٹھیک ٹھاک لڑتے ہیں، لیکن جب اکٹھے ہوتے ہیں تو اکٹھے بھی ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں منڈیالہ تیگہ کے علماء نے ایک بڑی کانفرنس کی، انہوں نے بھی اسی طرح کا ایک اتحاد بنا رکھا ہے، میں نے ان سے کہا کہ یار اور کچھ نہ کرو، بس علاقے کے پچاس ساٹھ، سو ڈیڑھ سو علماء مہینے دو مہینے کے بعد اکٹھے بیٹھ کر چائے پی لیا کرو۔ لوگوں کو نظر آئے کہ علاقے کے علماء بیٹھ کر چائے پی رہے ہیں، ہنس کھیل رہے ہیں اور حال احوال پوچھ رہے ہیں۔ باقی فوائد اپنی جگہ ہوتے ہیں، یہ اکٹھے مل بیٹھنے سے جو ساٹھ ستر فیصد غلط فہمیاں ہوتی ہیں وہ دور ہو جاتی ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ جھگڑے پندرہ بیس فیصد ہی نکلتے ہیں، باقی مغالطے ہوتے ہیں جو دور ہو جاتے ہیں۔
(۳) سماجی خدمات کا جان کر بھی مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ لوگوں کی اجتماعی ضرورت کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانا۔ اس پر میں ایک حوالہ عرض کیا کرتا ہوں آپ کو بھی سنا دیتا ہوں۔ ذرا غور فرمائیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا تعارف نبی کے طور پر کیا ہے؟ ’’اقرأ باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقرأ وربک الاکرم، الذی علم بالقلم، علم الانسان ما لم یعلم‘‘۔ اس واقعہ کے تھوڑی دیر بعد جب آپ گھر گئے اور زوجہ محترمہ ام المومنین خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ قصہ بیان کیا اور فرمایا ’’خشیت علی نفسی‘‘ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔ ’’فقالت خدیجۃ: کلا واللہ ما یخزیک اللہ ابدا، انک لتصل الرحم، وتحمل الکل، وتکسب المعدوم، وتقری الضیف، وتعین علی نوائب الحق‘‘ ام المومنینؓ نے حضورؐ کو تسلی دی کہ کہ گھبرائیں نہیں اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی ضائع نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کو کما کر کھلاتے ہیں، مہمانوں اور مسافروں کی خدمت کرتے ہیں، ناگہانی آفات اور حادثات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہاں میں ایک دل لگی کی بات کیا کرتا ہوں کہ حضور کی یہ صفات کون بیان کر رہا ہے؟ آپ کی بیوی بیان کر رہی ہے اور میں اسے حضورؐ کے معجزات میں سے پہلا معجزہ بتایا کرتا ہوں۔ خیر، ام المؤمنینؓ نے کہا کہ اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا کہ آپ سماجی خدمت گزار ہیں اور بے کسوں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں۔
یہ تو نبوت کا مزاج تھا۔ خلافت کا مزاج کیا ہے؟ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضرت صدیق اکبرؓ بھی پریشان ہوئے، بہت سے لوگ مظالم سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے تھے، تو ایک دن انہوں نے حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اجازت ہو تو میں بھی کہیں چلا جاتا ہوں، جب حالات ٹھیک ہوں گے تو آجاؤں گا۔ حضورؐ نے فرمایا، ٹھیک ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایتی کرتی ہیں کہ سامان باندھا اور نکل گئے۔ ایک دن دو دن کی مسافت بھی طے کر لی، راستے میں ایک جگہ جاتے ہوئے بنو قارہ قبیلے کے سردار ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا کہ ابوبکر کدھر جا رہے ہو؟ بتایا کہ مکے والے بہت زیادتی کرتے ہیں، وہاں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس نے کہا، نہیں نہیں، میں یہ نہیں ہونے دوں گا، تم واپس چلو گے، تیرے جیسے لوگ شہر چھوڑ کر نہیں جایا کرتے، میری ضمانت پر واپس چلو، میں مکے والوں کو سنبھال لوں گا۔ وہ حضرت صدیق اکبرؓ کو مکہ واپس لے آیا اور قریشی سرداروں سے کہا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو، تم نے کس کو مکہ چھوڑنے پہ مجبور کر دیا؟ اس نے بھی وہی جملے کہے جو حضرت خدیجۃ الکبری نے غار حرا کے واقعے کے بعد حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائے تھے۔ اس نے کہا کہ تمہارے جیسے آدمی شہر چھوڑ چھوڑ جائیں تو شہر والوں کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جو نبوت کا مزاج ہے وہی خلافت کا مزاج بھی ہے تو پھر امت کا مزاج کیا ہونا چاہیے؟ علماء کس کے خلیفہ ہیں؟ علماء وارث ہیں انبیاء کے، اس لیے یہ دونوں صفتیں علماء میں بھی ہونی چاہئیں۔ تعلیم و تعلم کے ساتھ صلہ رحمی اور مصیبت میں لوگوں کے کام آنا بھی، یہ علماء کا کام ہے اور ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔ اس لیے سچی بات ہے کہ میں بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ آپ کے ہاں اس کی ترتیب ہے۔ اور آخری بات کہ اتحاد اور سماجی خدمت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنا عقیدہ اور مسلک چھوڑ دیں، نہیں، بلکہ اس پر قائم رہتے ہوئے جب ضرورت پڑے سب کے ساتھ اکٹھے ہوں۔ دیکھیں، کسی کے گھر کو آگ لگ جائے تو کیا آپ وہاں یہ دیکھیں گے کہ یہ دیوبندی کا گھر ہے یا بریلوی کا یا شیعہ کا؟ اپنا مسلک اور عقیدہ پختہ رکھیں لیکن اجتماعی ضروریات میں مل بیٹھیں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
میں آخر میں پھر عرض کروں گا کہ آپ کے پروگرام کی کارگزاری اور ایجنڈا دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت آپ حضرات کے عزائم میں برکتیں عطا فرمائے، اور سب سے بڑی دعا کہ اللہ پاک بری نظر سے بچائے اور اسی جذبے کے ساتھ کام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔