بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم اس وقت قومی سطح پر ہمہ گیر معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بجلی کے ناقابل برداشت بلوں اور ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ نے عام شہری تو کجا متوسط طبقہ کی زندگی بھی اجیرن کر رکھی ہے اور اصلاحِ احوال کی کوئی تدبیر سجھائی نہیں دے رہی۔ اس پس منظر میں ایسی صورتحال میں ماضی کے عادل حکمرانوں کے طریق کار اور خاص طور پر قرنِ اول کے خلفاء کرام کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اسی مناسبت سے امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کا آج کی محفل میں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ مؤرخین کے مطابق انہیں بھی اقتدار سنبھالتے وقت کچھ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا تھا اور انہوں نے انقلابی اقدامات کر کے مختصر وقت میں حالات کو کنٹرول کر لیا تھا۔
(۱) تاریخی روایات کے مطابق انہوں نے جب خلافت کا منصب سنبھالا تو سب سے پہلے یہ کیا کہ انہیں ان کے پیش رو خلیفہ سلیمان بن عبد الملکؒ نے خلیفہ کے طور پر اپنا جانشین نامزد کیا تھا لیکن وہ بیعتِ عامہ کے لیے مرکزی جامع مسجد میں آئے تو انہوں نے عوام کے سامنے اعلان کیا کہ خلیفہ کا انتخاب عوام کا حق ہے اور وہ ان کا حق انہیں واپس کرتے ہوئے یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ ان کے علاوہ جس شخص کو بھی خلیفہ منتخب کرنا چاہتے ہیں کر لیں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس پر سب لوگوں نے بیک آواز کہا کہ ہمیں آپ ہی بطور خلیفہ قبول ہیں اس لیے آپ ہم سے بیعت لیں۔ چنانچہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت کی بیعت سب موجود لوگوں نے کی۔
(۲) دوسری بات یہ کی کہ اپنی ذاتی زندگی کو شاہانہ تکلفات سے پاک کیا، اس سے قبل وہ انتہائی نفیس الطبع شاہزادے دکھائی دیتے تھے۔ عمدہ لباس، بہترین سواری اور پر تعیش زندگی ان کا امتیاز سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے سب کچھ ترک کر کے ایک عام شہری کی زندگی اختیار کی حتیٰ کہ جب بیعت کے بعد مرکزی جامع مسجد سے واپسی پر انہیں عمدہ گھوڑوں کا دستہ پیش کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ان کی ذاتی خچر ہی سواری کے لیے کافی ہے اور وہ اب اسی پر سواری کریں گے۔
(۳) جبکہ گھر جا کر انہوں نے اہلیہ محترمہ فاطمہ بنت عبد الملکؒ سے، جو خلیفہ کی بیٹی، خلیفہ کی بیوی، اور اس وقت کے آرمی چیف مسلمہ بن عبد الملک کی بہن تھیں، کہا کہ گھر میں جو اتنا زیادہ سامان ہے وہ انہیں بیت المال کے خزانہ سے دیا گیا تھا، میں اس مال کے ساتھ اس گھر میں نہیں رہ سکتا۔ اہلیہ محترمہ نے جواب دیا کہ اس گھر میں جو سامان بھی آپ کو اس قسم کا دکھائی دیتا ہے سب اٹھا کر بیت المال میں بھیج دیں، فاطمہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گی۔ چنانچہ بیشتر سامان گھر سے اٹھوا دیا گیا۔
(۴) اس کے ساتھ ہی خیبر کا مشہور باغِ فدک جس پر اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے اب تک مناظرے چل رہے ہیں، اس وقت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے تصرف میں تھا، وہ بھی بیت المال کو واپس کر دیا کہ یہ مسلمانوں کا اجتماعی مال ہے، میرا ذاتی طور پر اس پر کوئی حق نہیں ہے۔
(۵) اس کے بعد حکمران طبقہ کے سرکردہ لوگوں کو طلب کیا اور ان سے اجتماعی ملاقات میں کہا کہ بیت المال کا جو بھی مال کسی کے تصرف میں ہے واپس کر دے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت بیت المال کے بیشتر اثاثے ایسے لوگوں کے تصرف میں تھے۔ اس پر اعتراض بھی ہوا کہ آپ اپنے دورِ خلافت میں کسی کو نہ دیں مگر ماضی کے فیصلے آپ کیوں ختم کر رہے ہیں؟ ماضی کے حکمرانوں نے جو اثاثے اور اموال کچھ لوگوں کو دے رکھے ہیں وہ آپ کیسے واپس کر رہے ہیں؟ انہوں نے قرآن کریم کا حوالہ دیا کہ اگر کسی وصیت کرنے والے نے تقسیم میں زیادتی کی ہے اور وصیت کو نافذ کرنے والا اس کی اصلاح کر کے تقسیم کو انصاف کے مطابق بنا دے تو اسے اس کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے بہت مختصر عرصہ میں لوگوں کے تصرف سے بیت المال کے اثاثے واپس لے کر مرکزی خزانہ کی مالی حیثیت کو مستحکم کیا۔
(۶) اس کے بعد یہ کیا کہ عام لوگوں پر عائد کیے جانے والے ٹیکسوں پر نظرثانی کی اور بہت سے ٹیکس جنہیں وہ منصفانہ نہیں سمجھتے تھے ختم کر دیے۔ بیت المال کے حکّام نے اعتراض کیا کہ اس سے بیت المال کی آمدنی بہت کم ہو جائے گی، مگر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں سنا اور ناجائز ٹیکس سب ختم کر دیے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ ایک سال گزرنے پر جب مختلف علاقوں سے ٹیکس وغیرہ بیت المال کو وصول ہوئے تو صرف ایک صوبہ عراق سے آنے والی رقوم گزشتہ سال کی بہ نسبت کم و بیش دس گنا زیادہ تھیں جو یقیناً انصاف اور عدل کی برکت کا اظہار تھا۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے یہ اقدامات آج بھی ہمارے لیے نمونہ ہیں اور اس فارمولے کو اختیار کر کے ہم اپنی قومی معیشت کو اصلاح و ترقی کے ٹریک پر لا سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق دیں، آمین۔