بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی کریمؐ سے پہلے بھی غلاموں کا سلسلہ جاری تھا، غلام جانوروں کی طرح خریدے اور بیچے جاتے تھے اور ان سے کام لیا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں تو یہ سلسلہ اسلام کے آغاز سے کچھ عرصہ بعد ہی کنٹرول ہو گیا تھا لیکن باقی دنیا میں یہ سلسلہ جاری رہا، مثلاً امریکہ میں اب سے ایک صدی پہلے ۱۹۲۴ء، ۱۹۲۵ء تک غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں اور انہیں خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ اب بھی لوگ خریدے بیچے جاتے ہیں لیکن اب اس کو غلامی نہیں، بردہ فروشی کہتے ہیں۔ جناب نبی کریمؐ کی بعثت کے وقت غلام کس طرح بنائے جاتے تھے؟ عام طور اس کے تین طریقے ہوتے تھے:
- ایک یہ کہ کسی بھی کمزور، بے سہارا، لاوارث آدمی کو کوئی بھی طاقتور آدمی پکڑ کر غلام بنا کر بیچ دیتا تھا اور وہ پھر جانوروں کی طرح بکتے بکاتے رہتے تھے۔ ہمارے دو بزرگ صحابی اسی طریقے سے غلام بنے تھے۔ حضرت زیدبن حارثہؓ جو صرف صحابی نہیں بلکہ حضورؐ نے تو انہیں بیٹا بنا لیا تھا، لیکن اللہ نے قبول نہیں کیا، وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن میں آیا ہے۔ اصلاً آزاد خاندان کے فرد تھے، راہ جاتے کہیں لوگوں نے پکڑا اور بیچ دیا، اس طرح غلام بن گئے۔ پھر بکتے بکاتے مکہ مکرمہ آگئے، مکہ میں آنحضرتؐ کے حصے میں آئے اور حضورؐ نے آزاد کر دیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ بھی اسی طرح غلام بنے۔ وہ بھی ایک آزاد خاندان کے فرد تھے، مذہب تبدیل کیا، گھر سے پناہ کی تلاش میں نکلے، راستے میں لوگوں نے پکڑا اور غلام بنا کر بیچ دیا۔ فرماتے ہیں کہ میں دس سے بھی زیادہ مالکوں کے ہاتھ بکتا بکتا مدینہ پہنچا، دس سے زیادہ مالکوں کی غلامی میں نے گزاری ہے۔ خیر ان دونوں صحابہ کے لیے تو غلامی خیر کا باعث بن گئی۔ حضرت زیدؓ غلام بنے تو اللہ تعالٰی نے مکہ پہنچا دیا اور حضرت سلمانؓ کو بکتے بکاتے یثرب پہنچا دیا، وہ اس تلاش میں تھے کہ جناب نبی آخر الزمان آنے والے ہیں، میری ان سے ملاقات ہو جائے۔ ادھر سے اسی وقت نبی اکرمؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے، جب آپؐ قبا میں تھے اس وقت حضرت سلمانؓ ایک یہودی آقا کے غلام بن کر آئے تھے۔ پھر اللہ تعالٰی نے انہیں اسلام کی توفیق دی اور وہ حضورؐ کی غلامی میں چلے گئے۔ اکثر لوگوں کو غلامی راس نہیں آتی لیکن ان کے لیے تو غلامی اللہ کی رحمت ثابت ہوئی، نعمت ثابت ہوئی۔ غلام نہ بنتے تو نہ معلوم یہاں تک پہنچتے یا نہ پہنچتے۔ بہرحال غلامی کا ایک سبب یہ تھا کہ کوئی طاقتور آدمی کسی بے سہارا کو پکڑ کر بیچ دیتا اور وہ بک کر غلام ہو جاتا تھا۔
- دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کوئی آدمی تاوان یا قرضے میں پھنس گیا ہے، یا یا کوئی مالی ذمہ داری اس پر آگئی ہے اور وہ ادا نہیں کر پا رہا اور قرض خواہ مجبور کر رہے ہیں تو یا تو وہ خود پیشکش کر دیتا تھا کہ مجھے بیچ کر اپنی قیمت پوری کر لو، یا عدالت، جرگہ، پنچائت فیصلہ کرتی تھی کہ یہ قرضہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور تم اپنے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہو تو ٹھیک ہے اس کو بیچ کر اپنا قرضہ پورا کر لو۔ یہ رواج حضورؐ کے زمانے بھی موجود تھا۔ اس پر ایک بڑا دلچسپ واقعہ ابوداؤد شریف میں مذکور ہے۔
حضرت بلالؓ مکہ مکرمہ میں امیہ بن خلف کے غلام تھے، حضرت صدیق اکبرؓ نے آزادی دلوائی تھی۔ ہجرت کر کے آئے تو مدینہ منورہ میں آزاد کردہ غلام تھے، حضورؐ کے ساتھی اور خادم تھے۔ آپؐ کے گھریلو معاملات کے ذمہ دار حضرت بلالؓ تھے۔ گھر کا خرچہ، غلہ، پانی، مہمانوں کا سنبھالنا، اس سب کی ذمہ داری حضرت بلالؓ پر تھی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ حضرت بلالؓ حضورؐ کے وزیر امور خانہ داری و مہمانداری تھے۔ یہ معروف بات ہے کہ حضورؐ کے یہ معاملات حضرت بلالؓ کے ذمے تھے، حضرت بلالؓ کے پاس گھر کے لیے خرچہ موجود ہوتا تو کرتے رہتے ورنہ قرضہ لے لیتے تھے، خرچہ تو نہیں رکتا کرنا ہی پڑتا ہے، قرضہ لے کر خرچہ پورا کرتے۔ بعد میں حضورؐ کے پاس کوئی رقم آتی خمس وغیرہ کی تو اس سے قرضہ ادا ہو جاتا تھا۔ حضرت بلالؓ اور جناب نبی کریمؐ کا آپس میں یہ معاملہ چلتا رہتا۔ مدینہ منورہ کا ایک یہودی تھا، حضرت بلالؓ اکثر اس سے قرضہ لیتے تھے۔ اتفاق سے ایک دفعہ ایسا ہوا کہ قرضہ بڑھتے بڑھتے خاصا بڑھ گیا۔ اس یہودی نے کہا قرضہ واپس کرو۔ ان کے پاس گنجائش نہیں تھی۔ قرض خواہ نے ایک دن دھمکی دے دی کہ تین دن کے اندر اندر میرا قرضہ واپس کر دو ورنہ تمہارے گلے میں رسی ڈال دوں گا۔ اس زمانے میں گلے میں رسی ڈالنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تمہیں غلام بنا کر بیچ دوں گا اور اپنا قرض پورا کروں گا۔ حضرت بلالؓ بہت پریشان ہوئے کہ یہ رواج عرب میں عام تھا۔ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اس نے تو دھمکی دے دی ہے، لہٰذا آپ کچھ کریں۔ آپؐ نے فرمایا اس وقت تو میرے پاس گنجائش نہیں ہے۔ ایسے ہی تین دن گزر گئے، تیسرے دن اس نے پھر کہہ دیا کہ اگر آج رات تک میرے پیسے نہ ملے تو میں تمہارے گلے میں رسی ڈال دوں گا۔ اب پھر حضرت بلالؓ حضورؐ کی خدمت میں آئے کہ آج میرے گلے میں رسی پڑ جائے گی، میں ایک دفعہ غلامی بھگت چکا ہوں دوسری دفعہ غلام بننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یارسول اللہ! کوئی راستہ نکالیے۔ آپؐ کے پاس کوئی گنجائش نہیں تھی، کیا کرتے۔ حضرت بلالؓ نے کہا اچھا اگر انتظام آپ کے پاس بھی نہیں ہے اور میرے پاس بھی نہیں ہے اور اس نے کل صبح ہی مجھے غلام بنا لینا ہے اور بازار میں لے جا کر بیچ دینا ہے تو مجھے پھر ایک بات کی اجازت دیجیے کہ میں چپکے سے رات کہیں کھسک جاؤں، جب کہیں سے گنجائش ہو جائے گی تو آجاؤں گا، حضورؐ نے اجازت عطا فرما دی۔ حضرت بلالؓ کہتے ہیں رات میں نے سونے پہلے سواری تیار کی، سفر کا سامان تیار کیا اور عشاء کے بعد تیاری کر کے لیٹ گیا۔ پروگرام یہ تھا کہ آدھی رات کے بعد اٹھوں گا اور سفر شروع کر دوں گا، صبح ہوتے ہی میں دور کہیں پہنچ جاؤں گا ۔کہتے ہیں کہ میں سارا بندوبست کر کے ابھی لیٹا ہی تھا کہ کسی نے آواز دی بلال! رسول اللہؐ بلا رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں اٹھا حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ مسجد کے باہر تشریف فرما تھے اور حضورؐ کے سامنے چار اونٹ سازوسامان سمیت کھڑے تھے۔ سازوسامان میں غلہ، کپڑے اور دیگر ضروریات کی چیزیں ہوتی تھیں۔ حضورؐ نے فرمایا بلال دیکھو اس سے قرضہ پورا ہو جائے گا؟ میں نے اندازہ کیا اور کہا یارسول اللہ! قرضہ بھی ادا ہو جائے گا اور کچھ بچ بھی جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا یہ فلاں قبیلے کے سردار نے مجھے ہدیہ بھیجے ہیں، ان سے قرضہ ادا کر دو اور اگر ان میں سے کچھ بچ گیا تو وہ میرے گھر نہیں لانا صدقہ کر دینا۔ حضرت بلالؓ کہتے ہیں اس طرح اللہ تعالٰی نے میری جان بچا لی ورنہ یا تو میں کہیں دور دراز نکل جاتا اور یا غلام بنا لیا جاتا ۔بہرحال غلام بنانے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ تاوان اور قرضے میں سے غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھا۔
- غلام بنانے کا تیسرا طریقہ یہ تھا کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنایا جاتا۔ اس زمانے میں اجتماعی قید خانے نہیں ہوتے تھے جنگی قیدیوں کے بارے میں تین چار آپشن ہوتے تھے: (۱) انہیں قتل کر دیتے تھے (۲) ویسے چھوڑ دیتے تھے (۳) فدیہ لے کر چھوڑ دیتے تھے (۴) یا قیدیوں کا تبادلہ کر لیتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی مختلف آپشن ذکر کیے ہیں ’’فاما منا بعد واما فداءً حتٰی تضع الحرب اوزارھا‘‘ (سورہ محمد ۴)۔
جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑا گیا، ان کے بارے میں حضرت عمرؓ کا مشورہ قتل کرنے کا تھا، اس طرح کہ آپؐ اپنے چچا کو خود ماریں، ابوبکر اپنے بیٹے کو ماریں، میں اپنے ماموں کو ماروں۔ جس جس کا جو رشتہ دار ہے وہ خود اسے قتل کرے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ کی رائے نرمی کرنے کی تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، تو آپؐ نے فدیہ لے کر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اللہ تعالٰی نے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ ایسے کیوں کیا؟ عمرؓ کی رائے ٹھیک تھی۔ اب فیصلہ ہو گیا ہے تو ٹھیک ہے لیکن ایسا کرنا نہیں چاہیے تھا۔ فرمایا ’’ما کان لنبی ان یکون لہ اسرٰی حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید الاخرۃ‘‘ (سورہ الانفال ۶۷)۔ اس لہجے میں بات اللہ تعالٰی ہی کر سکتے ہیں، فرمایا دنیا کے چار پیسوں کے لیے تم نے قیدی چھوڑ دیے۔ عمرؓ کی بات کیوں نہیں مانی؟ اللہ تعالٰی نے تنبیہ کی کہ ان کو قتل کرنا چاہیے تھا، فدیہ لے کر آزاد نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ایک آپشن یہ بھی تھا کہ قیدیوں کا تبادلہ کر لیا جائے۔ آج کل زیادہ تر جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہی ہوتا ہے۔ اس پر ایک واقعہ نقل کرتا ہوں، ابوداؤد میں روایت ہے کہ کسی جنگ میں ایک خوبصورت لونڈی قیدی بن کر آ گئی جو حضرت سلمہ بن الاکوعؓ کے حصے میں آئی۔ جناب نبی کریمؐ نے ان سے کہا یہ لونڈی مجھے دے دو میں اس کے بدلے اور دے دوں گا۔ وہ حیران ہوئے کہ لونڈی میرے حصے میں آئی ہے اور حضورؐ فرما رہے ہیں کہ مجھے دے دو۔ بہرحال انہوں نے دے دی۔ آپؐ نے وہ لونڈی سنبھال کر رکھی، جس قبیلے کی وہ لڑکی تھی اس قبیلے کے پاس حضورؐ کے کچھ ساتھی قید تھے۔ حضورؐ نے اس لونڈی کے ساتھ اپنے قیدیوں کا تبادلہ کروایا کہ ہمارے قیدی واپس کر دو اور اپنی لڑکی واپس لے لو۔ عرب میں یہ سب رواج موجود تھے کہ قیدیوں کو یا قتل کر دیتے تھے یا ویسے چھوڑ دیتے تھے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیتے تھے یا تبادلہ کر لیتے تھے۔
ایک آپشن قتل کرنے کا بھی تھا جیسا کہ حضرت عمرؓ کی رائے تھی اور اللہ تعالٰی نے بھی فرمایا قتل کرنے چاہیے تھے۔ اگر قیدیوں کو ویسے نہ چھوڑنا ہوتا، نہ فدیہ لے کر چھوڑنا ہوتا، نہ تبادلہ کرنا ہوتا، نہ قتل کرنا ہوتا تو جیل خانے تو ہوتے نہیں تھے، تو اب اتنے زیادہ قیدیوں کا کیا کریں، ان کو کہاں رکھیں؟ اس لیے یہ آپشن موجود تھا کہ ان کو تقسیم کر دیا جاتا تھا، یہ غلام اور باندیاں کہلاتے تھے اور بکتے تھے، خریدے جاتے تھے۔
مذکورہ بالا تین طریقے غلام بنانے کے تھے۔ حضورؐ نے یہ کیا کہ پہلے دو طریقے حرام قرار دے دیے۔ آزاد انسان کو بیچنے اور غلام بنانے کا طریقہ ممنوع قرار دیا اور فرمایا ’’بیع الحر حرام، ثمن الحر حرام‘‘ کسی آزاد کو پکڑ کر بیچ دینے کو حضورؐ نے حرام قرار دے دیا۔ دوسرا طریقہ کہ تاوان میں کسی کو غلام بنا لیا جائے اس کو بھی حضورؐ نے حرام قرار دے دیا۔ ویسے جو سزا چاہیں دیں لیکن تاوان میں غلام بنا کر بیچ دینا درست نہیں۔ یہ دونوں طریقے حرام قرار دیے۔ آپؐ کے اس اعلان کے بعد اس حوالے سے ہمارے ہاں نہ کوئی آدمی غلام بنا ہے اور نہ بکا ہے۔ جبکہ تیسرا طریقہ باقی رکھا، بطور حکم کے نہیں بلکہ مختلف آپشنز میں سے ایک آپشن کے طور پر۔ اس لیے کہ اس کی ضرورت تھی کیونکہ جنگی قیدیوں کو اکٹھا رکھنے کی صورت نہیں تھی اور انہیں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
جبکہ آپؐ نے غلاموں کے حقوق بیان فرمائے کہ یہ بھی تمہاری طرح انسان ہیں ’’اخوانکم‘‘ تمہارے بھائی ہیں، آدم کی اولاد ہیں ’’خولکم‘‘ تمہارے خادم ہیں ’’جعلھم اللہ تحت ایدیکم‘‘ اللہ تعالٰی نے انہیں تمہارا ماتحت بنا دیا ہے ’’اطعموھم مما تطعمون والبسوھم مما تلبسون‘‘ جو خود کھاتے ہو ان کو بھی وہی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو ان کو بھی وہی پہناؤ۔ ان کو اپنے برابر رکھو، ان کے ساتھ زیادتی نہ کرو ’’ولا تکلفوھم بما لا یطیقون‘‘ ان سے کام لو لیکن اگر کام ان کی ہمت سے زیادہ ہو تو پھر ان کے ساتھ کام میں معاونت کرو۔ ان سے اتنا ہی کام لو جتنا وہ کر سکیں۔
چنانچہ اسلام نے غلام بنانے کا آخری آپشن باقی رکھا ہے لیکن ان شرائط کے ساتھ۔ خود تو حضورؐ کا مزاج ہی اور تھا۔ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال حضورؐ کی خدمت میں گزارے ہیں، میں نے حضورؐ کو کسی پر ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا، نہ بچے پر، نہ عورت پر، نہ غلام پر۔ حضورؐ کے سامنے ایک دفعہ ایک صحابی حضرت ابو مسعود انصاریؓ نے باندی کو تھپڑ مارا تو حضور کا طرز عمل کیا تھا؟ ابو مسعودؓ کہتے ہیں میری لونڈی بکریاں چرا رہی تھی کہ کچھ دیر وہ بے پرواہ ہو گئی۔ اس کی بے پرواہی سے بھیڑیا آیا اور ایک بکری لے گیا۔ ابومسعود دیکھ رہے تھے، وہ لونڈی کے پاس گئے اور غصے میں اسے زور سے تھپڑ مارا اور کہا بے پرواہ بیٹھی ہوئی ہو، بھیڑیا بکری لے گیا ہے۔ جب زور سے تھپڑ مارا تو پیچھے سے آواز آئی۔ ابو مسعود اس کو تھپڑ مارنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ تم سے طاقتور بھی کوئی ہے جو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے رسول اللہؐ تھے۔ ذرا غور کریں کہ انہوں نے تھپڑ کس کو مارا تھا؟ نوکرانی کو، اور بے قصور بھی نہیں مارا تھا بلکہ غلطی کرنے پر مارا تھا۔ پھر بھی حضورؐ ناراض ہوئے کہ اس کو کیوں مارا ہے۔ حضورؐ نے جب ڈانٹا تو ابومسعودؓ نے عرض کیا، یارسول اللہ! میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں، میں نے اپنی اس غلطی کے کفارے میں اللہ کے لیے اس لونڈی کو آزاد کیا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا، اگر تم اس کو آزاد نہ کرتے تو دوزخ میں جاتے ’’للفحتک النار‘‘ آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی، اس تھپڑ کا صلہ یہی تھا کہ تم اسے آزاد کر دو۔ ایک تھپڑ جو کہ جرم کرنے پر مارا اس پر یہ وعید فرمائی۔ ہمارے ہاں تو نہ معلوم ماتحتوں کے ساتھ کیا کیا ہوتا ہے۔ ابھی چند سال پہلے گوجرانوالہ کچہری میں ایک کمی کو مار مار کر اس کا برا حال کر دیا گیا، اس بات پر کہ اس نے ایک چوہدری کو گزرتے ہوئے سلام کر دیا تھا کہ اس کی کیا جرأت کہ اس نے مجھے سلام کہا۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کا معمول یہ تھا کہ جیسے کپڑے خود پہنتے تھے ویسے ہی نوکروں کو پہناتے تھے۔ ایک دن آپؓ کے ایک دوست نے آپؓ سے کہا آپ نے جو اتنا قیمتی لباس پہنا ہوا ہے اسی کپڑے سے اپنے غلام کو پہنا رکھا ہے، اس کو کوئی ہلکی پھلکی چادر کافی تھی۔ فرمایا، نہیں بھئی! میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ تمہارے ماتحت ہیں ’’اطعموھم مما تطعمون والبسوھم مما تلبسون‘‘ جو خود کھاتے ہو ان کو بھی وہی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو ان کو بھی وہی پہناؤ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام نہ ڈالو۔ جتنا کر سکتے ہیں ان سے اتنا کام لو، اور اگر زیادہ کام اس کے ذمہ لگا دیا ہے اور تمہیں اندازہ ہے کہ یہ اکیلے نہیں کر سکے گا تو ’’اعینوھم‘‘ اس کے ساتھ مل کر کام کرو۔
غلامی کا مسئلہ آج کی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ہے، جبکہ معروضی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ دو سو سال سے کسی جہاد میں ہم نے غلام یا لونڈی نہیں بنائے۔ جہاد فلسطین، جہاد کشمیر، جہاد افغانستان کسی میں بھی غلام اور لونڈی نہیں بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کا ہم پر اعتراض یہ ہے کہ جب آپ نے غلامی کا سلسلہ ترک کر رکھا ہے تو قرآن کریم سے غلامی کے متعلق آیات نکالتے کیوں نہیں؟ حدیث میں غلامی کے ابواب کیوں پڑھاتے ہو؟ آپ کی فقہ کی کتابوں میں مکاتبت، تدبیر، استیلاد کے ابواب کیوں پڑھائے جاتے ہیں؟ مجھ سے ایک مذاکرے میں یہ سوال ہوا کہ تم نے غلام بنانا کیوں چھوڑا ہوا ہے، اور اگر غلام بناتے نہیں تو یہ مسائل پڑھانا کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا ہم نے غلام بنانا چھوڑ اس لیے دیا کہ یہ آنحضرت کا حکم نہیں تھا بلکہ مختلف آپشنز میں سے ایک آپشن تھا۔ بعض صورتوں میں اجازت دی تھی کہ اگر یہ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ موجودہ حالات میں یہ موافق نہیں ہے اس لیے ہم تبادلہ والا آپشن اپنا لیتے ہیں۔ اور پڑھاتے اس لیے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں ہوا، قرآن میں اس کے احکام موجود ہیں اور احادیث میں موجود ہیں تو اسے کون منسوخ کر سکتا ہے؟ تاکہ کل اگر پھر خدانخواستہ وہ حالات بن جائیں اس لیے پڑھانا بھی ضروری ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہم نے غلامی کے احکام نہ منسوخ کیے ہیں اور نہ ہم منسوخ کر سکتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے حکم، اور ایک ہوتا ہے حکم کا محل۔ وہ حکم جس ماحول کے لیے تھا اگر وہ ماحول دوبارہ آگیا تو وہ حکم بھی قائم ہے، ماحول بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے۔
اس پر ایک مثال دوں گا، قرآن کریم نے صلٰوۃ الخوف کی جو تفصیل بیان کی ہے ’’واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلٰوۃ‘‘ (سورہ النساء ۱۷۶)۔ یہ قرآن کریم کا حکم اور جناب نبی کریمؐ کا عمل ہے لیکن آج کے دور میں میدان جنگ میں صلٰوۃ الخوف اس کیفیت میں نہیں پڑھیں گے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے۔ آج اگر فوج کو مورچوں سے نکال کر اجتماعی صلٰوۃ الخوف کے لیے اکٹھا کریں گے تو یہ اجتماعی خودکشی ہو گی۔ اب جنگ کا ماحول بدل گیا ہے۔ اس زمانے میں صف بندی کی جنگ ہوتی تھی، اس میں نماز کی یہی ترتیب تھی۔ لیکن آج کل جنگ صف بندی میں نہیں مورچوں میں ہوتی ہے بلکہ اب تو مورچوں کی بھی نہیں رہی اب تو سنٹر میں بیٹھ کر جنگ ہوتی ہے اور کمپیوٹر کے ذریعے لڑائی کنٹرول کی جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کا حکم منسوخ ہو گیا ہے، حکم موجود ہے، حکم کا محل نہیں رہا۔ کل اگر دوبارہ صف بندی کی جنگ کا ماحول آگیا تو صلٰوۃ الخوف کی وہی ترتیب ہو گی جو قرآن کریم نے بیان کی ہے۔ اسی طرح غلامی کا مسئلہ بھی ہے کہ ماحول بدلنے سے اس کی کیفیت بدل گئی ہے، کل اگر یہ معاہدات ختم ہو جاتے ہیں اور باقی سارے آپشنز ختم ہو جاتے ہیں تو وہی حکم اپنا محل واپس آنے پر ویسے کا ویسا رہے گا اور غلام اور باندیاں بنائے جائیں گے، اس لیے ہم نے یہ پڑھنا پڑھانا ترک نہیں کیا۔