قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اصل تنازع کیا ہے؟

   
۱۳ نومبر ۲۰۰۸ء

جنوبی افریقہ کے دورہ کے تاثرات و مشاہدات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے، مگر اس سے قبل کیپ ٹاؤن کی سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس اور اس کے بعد دارالعلوم جوہانسبرگ میں اساتذہ و طلبہ سے خطاب کے دوران قادیانیت اور قادیانیوں کے بارے میں جو معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔

ختم نبوت کانفرنس کی افتتاحی نشست میں جنوبی افریقہ کے صدر کے مشیر خاص جناب ابراہیم رسول نے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے مجھے اس سے مکمل اتفاق ہے اور میں بھی گزشتہ ربع صدی سے علماء کرام اور دینی حلقوں سے مسلسل یہ گزارش کر رہا ہوں کہ قادیانیت کا مسئلہ ہو یا دینی جدوجہد کا کوئی اور پہلو ہو، آج کی دنیا میں بات کرنے کے لیے ہمیں آج کے ماحول کو سامنے رکھنا ہو گا، آج کی زبان، اسلوب اور نفسیات کو سمجھنا ہو گا اور آج کی اصطلاحات اور طرز میں اپنا موقف پیش کرنا ہو گا۔ کیپ ٹاؤن کرکٹ کے بین الاقوامی مراکز میں سے ہے، اس لیے میں اس حوالہ سے اپنی بات یوں کہنا چاہوں گا کہ جب کوئی ٹیم کرکٹ کے میدان میں آتی ہے تو پہلے پچ دیکھتی ہے کہ وہ کیسی بنائی گئی ہے اور اس کی مد مقابل ٹیم اس سے کس پچ پر کھیل رہی ہے، کیونکہ یہ دیکھے بغیر کوئی ٹیم کرکٹ کے میدان میں مد مقابل ٹیم کا صحیح طور پر مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس لیے میں قادیانیوں کے مقابلہ میں کام کرنے والی جماعتوں سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ وہ دیکھیں کہ قادیانی کس ”پچ“ پر کھیل رہے ہیں اور ان کا مقابلہ اسی پچ پر کریں، جسے وہ اس کھیل میں استعمال کر رہے ہیں۔

آج کی دنیا میں قوموں اور گروہوں کے درمیان جو مباحثہ، مکالمہ، گفتگو یا کشمکش جاری ہے اس میں گلوبلائزیشن، انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور مذہبی حقوق کے حوالہ سے زیادہ بات ہوتی ہے۔ مغربی دنیا کے ساتھ مسلمانوں کا جو تنازع یا کشمکش ہے، اس میں بھی اسی عنوان سے گفتگو کی جاتی ہے کہ اسلام کے بہت سے احکام مغربی دانشوروں کے بقول گلوبلائزیشن میں حائل ہیں، مذاہب و اقوام کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، انسانی حقوق سے متصادم ہیں اور شہری آزادیوں اور مذہبی آزادیوں کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ عمومی طور پر بھی بیشتر شرعی احکام و قوانین کے بارے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ کہا جا رہا ہے اور خاص طور پر قادیانیوں کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ قادیانیوں کو ان کی مرضی کے خلاف غیر مسلم قرار دینا اور انہیں تبلیغ، مذہبی اجتماعات اور سرگرمیوں سے روکنا ان کے شہری حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ اسی کو لے کر قادیانی عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور انہیں بین الاقوامی حلقوں بالخصوص مغربی ممالک اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں کی طرف سے حمایت بھی حاصل ہو رہی ہے۔ لیکن ہم آج کے ان تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آج سے ایک صدی قبل کے ماحول اور تناظر میں اپنا موقف پیش کیے جا رہے ہیں، جس کی طرف جناب ابراہیم رسول نے اشارہ کیا ہے۔ ہمیں اپنی اس حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔ اسی طرح قادیانیوں نے اپنی دعوتی سرگرمیوں کے لیے تعلیمی اداروں، رفاہی کاموں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کو بطور ذریعہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ ان راستوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں اس کا خیال رکھنا ہو گا اور اپنی تگ و تاز کا دائرہ ان شعبوں تک بھی وسیع کرنا ہو گا۔

اسی پس منظر میں قادیانیوں کے اس دعوے کا مختصر جائزہ لینا چاہوں گا کہ پاکستان میں ان کے مذہبی حقوق پامال کر دیے گئے ہیں اور ان کی شہری آزادیوں کو غصب کر لیا گیا ہے، انہیں عبادت گاہیں بنانے سے روکا جا رہا ہے، انہیں مذہبی اجتماعات کی آزادی نہیں ہے اور مذہبی عبادت گاہیں بنانے سے ان کے خلاف مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے اور قادیانیوں کے مخصوص دجل و فریب کی عکاسی کرتی ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے بارے میں عوامی اور حکومتی سطح پر جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قادیانیوں کے مذہبی حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور پاکستان کے عوام اور مذہبی حلقے قادیانیوں کو ان کے جائز شہری حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی اور دوسری مذہبی اقلیتیں بھی تو اپنے اجتماعات منعقد کرتی ہیں، ان کی مذہبی سرگرمیاں کھلے بندوں جاری رہتی ہیں، لیکن اسلامی حلقوں نے ان میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی اور ان کے مذہبی حقوق سے کبھی انکار نہیں کیا۔ اگر ہمیں عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں اور پارسیوں کی مذہبی سرگرمیوں پر اعتراض نہیں ہے تو قادیانیوں کی جائز مذہبی سرگرمیوں پر ہم کیسے اعتراض کر سکتے ہیں؟ دراصل اسی نکتہ کو سمجھنے اور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

قادیانیوں کے ساتھ ہمارا تنازع اس نکتہ پر نہیں ہے کہ انہیں مذہبی اور شہری حقوق حاصل ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے جب انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا تو دوسری اقلیتوں کی طرح ان کے وجود اور حقوق کے تحفظ کی گارنٹی بھی دے دی تھی اور انہیں ووٹ کے حق کے ساتھ ساتھ آبادی کے تناسب سے اسمبلیوں میں نمائندگی کا حق بھی دے دیا تھا، لیکن قادیانیوں نے اس دستوری فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر رکھا ہے اور وہ اقلیتی حقوق کی بجائے اکثریتی حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لیے مسئلہ حقوق کو تسلیم کرنے اور ان کے احترام کا نہیں، بلکہ حقوق کے تعین اور ان کے ٹائٹل کا ہے۔ ہم ملک کی دوسری اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کے اقلیتی حقوق کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور انہیں وہ تمام حقوق دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن قادیانی گروہ اس بات پر بضد ہے کہ ان کا یہ موقف تسلیم کیا جائے کہ اصل مسلمان صرف وہی ہیں اور جو حقوق ملک کی غالب اکثریت کے لیے تسلیم شدہ ہیں وہ انہیں الاٹ کر دیے جائیں۔ جبکہ معروضی صورت حال اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت، بلکہ پوری دنیائے اسلام اور عالمِ اسلام کا کوئی بھی حلقہ، فورم یا گروہ کسی جگہ بھی قادیانیوں کو مسلمان سمجھنے اور ملتِ اسلامیہ کا حصہ قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے اس تناظر میں قادیانیوں کا موقف کسی صورت میں نہ تسلیم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی منصف مزاج شخص اسے جائز اور معقول قرار دے سکتا ہے۔

آج عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی حلقوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اصل تنازع کیا ہے اور اختلاف اور کشمکش کا بنیادی نکتہ کیا ہے؟ اس لیے کیپ ٹاؤن کی بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس کی وساطت سے میں عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی حلقوں اور اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مکار اقلیتی گروہ کی بے جا ضد اور ہٹ دھرمی کو سپورٹ کرنے کی بجائے ملک کے عوام کی غالب اکثریت کے عقائد و جذبات اور پوری دنیائے اسلام کے اجتماعی موقف کا بھی احترام کریں۔

قادیانی گروہ ۲۰۰۸ء کے سال کو صد سالہ جشن کے طور پر منا رہی ہے، اس مناسبت سے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کو سو سال مکمل ہو گئے ہیں اور قادیانیوں کا خیال ہے کہ ان کے مذہب پر سو سال کا عرصہ گزر جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حق پر ہیں اور ایک صدی تک ان کی سرگرمیوں کا جاری رہنا ان کی صداقت کا اظہار ہے، لیکن یہ دھوکا اور دجل پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ اگر کسی نئے مذہب پر یا کسی جھوٹی نبوت پر ایک صدی کا گزر جانا اس مذہب کی سچائی کی دلیل ہے تو ایران کے بہائیوں اور بلوچستان کے ذکریوں کی عمر قادیانیوں سے زیادہ ہے۔ ان دونوں مذہبوں کی بنیاد بھی مرزا بہاء اللہ شیرازی اور ملا نور محمد اٹکی کے دعویٰ نبوت پر ہے۔ بہائیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہوئے سوا سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ذکریوں کے مذہب کی عمر چار صدیوں کا احاطہ کرتی ہے، جبکہ ایک نئے الہامی مذہب کے دعویٰ کے ساتھ سکھ مذہب کی عمر پانچ صدیوں تک پھیلی ہے۔ اس لیے اگر سکھ مذہب کی پانچ صدیاں اور بہائی مذہب کے سوا سو سال ان مذاہب کی صداقت کی دلیل نہیں بن سکتے تو قادیانی مذہب کی ایک صدی کو بھی اس مذہب کی سچائی کا ثبوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

قادیانیوں کی طرف سے اپنے مذہب کے پھیلاؤ کے بارے میں اعداد و شمار کا گورکھ دھندا بھی تسلسل کے ساتھ سامنے لایا جا رہا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بے شمار لوگ اس مذہب کو قبول کرتے جا رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ مسلمانوں کی نئی نسل کی اکثریت اسلام اور قادیانیت کے درمیان فرق سے آگاہ نہیں ہے اور قادیانی حضرات اپنے نئے اور خود ساختہ مذہب کو اسلام کے نام پر اور اسلامی اصطلاحات کے ساتھ پیش کر رہے ہیں، اس لیے وہ بہت سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے پیش کردہ اعداد و شمار اور لاکھوں لوگوں کے قادیانی ہو جانے کا وہ تاثر بھی درست نہیں ہے، جو وہ پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیپ ٹاؤن کی ختم نبوت کانفرنس میں بھی ایک مسلمان راہ نما نے قادیانیوں کے پیش کردہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تعداد دنیا میں دس ملین (ایک کروڑ) کے لگ بھگ ہے۔ یہ قطعاً درست نہیں ہے اور اسی طرح کا مبالغہ ہے جس کا اظہار ان کے خود ساختہ نبی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی تصنیف ”براہینِ احمدیہ“ کے حوالہ سے اس طرح سے کیا تھا کہ مرزا قادیانی نے اسلام کی صداقت پر ”براہین احمدیہ“ کے نام سے پچاس جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھنے کا اعلان کیا اور اس کی اشاعت کے لیے ملک بھر کے لوگوں سے چندہ بھی وصول کر لیا، لیکن چار جلدوں کی اشاعت کے بعد ترکی ختم ہو گئی اور جب کافی عرصہ تک پانچویں جلد نہ آئی تو لوگوں نے تقاضا شروع کر دیا کہ وعدہ پچاس جلدوں کا تھا اور پیسے بھی پچاس جلدوں کے حساب سے وصول کیے گئے ہیں، لیکن چار جلدوں پر معاملہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس پر مرزا نے جواب دیا کہ چونکہ پانچ اور پچاس میں صرف ایک صفر کا فرق ہوتا ہے، جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، اس لیے انہوں نے پانچ جلد ہی لکھ کر پچاس کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اسی بنا پر مسلمان بھائیوں سے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ قادیانیوں کے اعداد و شمار کے چکر میں نہ آئیں کہ ان کے خود ساختہ پیغمبر کے پیش کردہ حساب و کتاب کے فارمولے میں صفر ہمیشہ زائد ہوتے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter