حدود آرڈیننس پر بحث و تمحیص کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ وفاقی وزیر جناب شیر افگن کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، پیر کو حقوق نسواں کے تحفظ کا بل جو دراصل حدود آرڈیننس میں ترمیمات کا بل ہے، بہرصورت منظور کر لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت اور متحدہ مجلس عمل نے باہمی اتفاق سے عملی سیاست سے تعلق نہ رکھنے والے چند علمائے کرام کو بھی مشاورت میں شریک کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کے ساتھ راقم الحروف کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ہم اس سلسلے میں سات ستمبر کو اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور بعض وفاقی وزراء کے ساتھ ایک اجلاس کر بھی چکے ہیں، اس حوالے سے ضروری تفصیلات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا ابھی موقع نہیں ہے، البتہ گزشتہ روز حدود آرڈیننس کے بارے میں جناب الطاف حسین نے جو کچھ کہا ہے، اس پر کچھ عرض کرنا مناسب خیال کر رہا ہوں۔
حکومتی اتحاد میں شامل اہم جماعت ایم کیو ایم کے سربراہ جناب الطاف حسین کا ایک طویل بیان آٹھ ستمبر کو ایک قومی اخبار میں شائع ہوا ہے، جس میں قرآن و سنت کے بہت سے حوالے دے کر حدود آرڈیننس کو غلط اور قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے حقوق نسواں تحفظ بل کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بیان پڑھ کر مجھے ایک بات کی خوشی ہوئی ہے اور ایک بات افسوس اور صدمے کا باعث بنی ہے۔
خوشی اس بات پر ہوئی ہے کہ محترم الطاف حسین نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم اور بخاری شریف سے استدلال کیا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ موصوف قرآن کریم کے ساتھ حدیث نبویؐ، خاص طور پر بخاری شریف کو بھی استدلال کی بنیاد تسلیم کرتے ہیں اور قرآن و سنت دونوں ان کے نزدیک حوالے اور سرچشمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ورنہ اس مباحثے میں شریک بہت سے دانش ور بخاری شریف سمیت حدیث کی کسی کتاب کو استدلال کا بنیادی ماخذ تسلیم نہیں کرتے اور قرآن فہمی کا معیار اور طریق کار خود اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اپنی جس بات کو چاہیں قرآن کریم کے کھاتے میں ڈال کر حتمی قرار دے سکیں۔ اس کے برعکس حدیث نبویؐ اور بخاری شریف کو استدلال کی بنیاد قرار دے کر ہم اس بات کے پابند ہو جاتے ہیں کہ قرآن کریم کا مفہوم طے کرنے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور عمل کو ہی معیار بنائیں اور اس طرح ہم قرآن فہمی کے حقیقی معیار اور اللہ تعالیٰ کی منشا کو حاصل کرنے سے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔
الطاف حسین کے قلم سے بخاری شریف کو بطور حوالہ دیکھ کر واقعتاً مجھے خوشی ہوئی ہے کہ ان کے ساتھ ایسے معاملات پر گفتگو کرنا آسان ہو گیا ہے، کیونکہ تعبیر و تشریح کے اصول و ضوابط طے ہوں اور طریق کار متعین ہو تو کسی بھی مسئلے پر دونوں طرف کے دلائل سامنے رکھ کر کسی متفقہ نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں رہتا، لیکن جو دوست قرآن فہمی اور قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح کے اصول و ضوابط بھی خود طے کرتے ہیں اور انہی خود ساختہ اصولوں پر قرآنی احکام کی تشریح و تعبیر کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں، ان کے ساتھ کسی مسئلے پر بات کرنا اور کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں ہوتا اور یہ ایک طرح کی ”فری سٹائل کشتی“ ہوتی ہے، جو دیکھنے والوں کو تفریح تو فراہم کرتی ہے، مگر فن اور طاقت کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچاتی۔
البتہ الطاف حسین صاحب کے بیان میں اس بات پر بہت دکھ ہوا کہ ان کی زبان مکالمے اور مباحثے کی نہیں ہے، دھونس اور جبر کی زبان ہے۔ عام طور پر یہ بات ”مولوی“ کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ وہ دھونس کی زبان استعمال کرتا ہے، ہر بات میں دھکا کرتا ہے اور دلیل سے زیادہ دھمکی سے کام لیتا ہے۔ قارئین سے میری گزارش ہے کہ وہ جناب الطاف حسین کے اس بیان کا متن پڑھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ کیا دھونس اور دھمکی کی زبان میں پاکستان کا کوئی بھی مولوی جناب الطاف حسین کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
الطاف حسین صاحب اس وقت پاکستان میں جاگیرداری کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہیں اور ان کی یہ بات بہت سے دیگر تحفظات کے باوجود مجھے اچھی لگتی ہے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جاگیر داروں اور اجارہ داروں کی مخالفت میں ان کا ذکر زبان پر بار بار آنے سے جناب الطاف حسین کی زبان نے ان کا اثر قبول کر لیا ہے اور لاشعوری طور پر وہ بھی انہی کی زبان اور لہجے میں بات کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اسلامی احکامات اور روایات کی تعبیر و تشریح میں قرآن و سنت کا معیار تسلیم کریں تو ان کے ساتھ ہر مسئلے پر بات ہو سکتی ہے اور ایسا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہ جاتا، جس میں ہم باہم مل بیٹھ کر افہام و تفہیم کے ساتھ کسی متفقہ نتیجے پر نہ پہنچ سکیں۔
اس اصولی گفتگو کے بعد جناب الطاف حسین کے اٹھائے ہوئے نکات میں سے صرف ایک نکتے پر مختصر گفتگو کرنا چاہوں گا کہ وہ رضا مندی کے زنا کی صورت میں بھی زانی اور زانیہ کو سزا دینے کی بات سے متفق نہیں ہیں، جبکہ حدود آرڈیننس میں ایسی صورت کو ”تعزیری زنا“ قرار دیا گیا ہے کہ کسی جوڑے پر زنا کا الزام تو ثابت نہیں ہو سکا، لیکن اس کے قرائن اور دواعی ریکارڈ پر آ گئے ہیں۔ حدود آرڈیننس کا منشا یہ ہے کہ زنا کی شرعی حد تو چار گواہوں کی صورت میں ہی دی جائے گی، لیکن اگر چار گواہ موجود نہیں ہیں یا ان کی گواہی قبولیت کے معیار پر پوری نہیں اترتی، مگر زنا سے کم درجے کے جرم کا ثبوت موجود ہے تو اس جوڑے کو بالکل معاف نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے تعزیر کی صورت میں کوئی نہ کوئی سزا ضرور دی جائے گی۔ اس پر ہمارے بہت سے اہل دانش معترض ہیں، جناب الطاف حسین کا منشا بھی یہی نظر آتا ہے کہ اگر زنا ثابت نہیں ہے تو پھر سزا کیسی؟ اور زنا کی کوئی تعزیری سزا قرآن پاک میں مذکور نہیں ہے۔ یہ ایک فنی اور ٹیکنیکل سی بحث ہے، جس سے بہت غلط نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر ایک جوڑا جو میاں بیوی نہیں ہیں اور آپس میں محرم بھی نہیں ہیں، کسی ہوٹل میں ایک کمرے میں رات گزارتے ہیں، یا کوئی جوڑا کسی جگہ بوس و کنار کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے اور وہ میاں بیوی نہیں ہیں، اب ظاہر ہے کہ اتنی بات ان کے زنا کا ثبوت نہیں ہو سکتی اور وہ شرعی حد کے سزاوار نہیں ہیں، لیکن غیر محرم جوڑے کا ہوٹل کے کمرے میں رات گزارنا یا غیر محرم جوڑے کا کسی جگہ بوس و کنار کرتے ہوئے دیکھا جانا، یہ بھی کوئی جرم ہے یا نہیں؟ حدود آرڈیننس نے صرف اتنا کیا ہے کہ اس کے لیے ”تعزیری زنا“ کی اصطلاح استعمال کر لی ہے، جس کو ٹیکنیکل بنیاد پر بعض دوست رد کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ یہ اعمال بجائے خود جرم ہیں یا نہیں؟ اور اگر معترضین کی نظر میں بھی یہ اعمال جرم ہیں تو وہ اس کے لیے کوئی سزا تجویز کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر ہمارے یہ مہربان دوست ان حرکات کو سرے سے جرم ہی تصور نہیں کرتے اور مغربی معاشرے کی طرح پاکستان میں مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط اور برسرعام بوس و کنار کا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے، ورنہ اگر یہ باتیں ان کے نزدیک بھی جرم ہیں، تو پھر نہ صرف یہ کہ شریعت ایسی حرکات کی اجازت نہیں دیتی، بلکہ اسلامی حکومت کو ایسی حرکات کو کنٹرول کرنے کا پابند بھی بناتی ہے۔ اس لیے صرف اتنی سی بات پر طوفان اٹھا دینا کوئی انصاف کی بات نہیں ہے کہ حدود آرڈیننس میں ایسی حرکات یا شرعی اصطلاح میں ”دواعی زنا“ یعنی وہ اعمال جو بدکاری اور زنا کا ذریعہ بنتے ہیں، کو ”تعزیری زنا“ کہہ دیا گیا ہے۔
چند سال ہوئے ایک کیس میں کسی جج صاحب نے ایک فیصلہ دیا، کیس کی نوعیت یہ تھی کہ ایک لڑکی گھر سے کسی دوست لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی، لڑکی کے والدین نے اغوا کا کیس درج کرا دیا۔ یہ لڑکا اور لڑکی دونوں ڈیڑھ دو ماہ تک ہوٹلوں میں گھومتے پھرتے رہے، پھر آپس میں نکاح کرایا اور عدالت میں نکاح نامہ پیش کر دیا، جو لڑکی کے گھر سے بھاگنے کے ڈیڑھ ماہ بعد کی تاریخ میں درج ہوا تھا۔ جج صاحب نے یہ فیصلہ دے کر والدین کو خالی ہاتھ واپس بھیج دیا کہ چونکہ لڑکی بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے نکاح کیا ہے، اس لیے ان کے نکاح کو تسلیم کیا جاتا ہے اور والدین نے اغوا کا جو کیس درج کرایا ہے، اسے خارج کیا جاتا ہے۔
میں نے اس پر ایک مضمون میں مذکورہ جج صاحب سے سوال کیا کہ اس بات کو میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ بالغ لڑکا اور لڑکی باہمی رضا مندی سے نکاح کر لیں تو شرعاً نکاح ہو جاتا ہے، لیکن اس کیس میں صرف اتنا نہیں ہوا، بلکہ اس نکاح سے پہلے لڑکی ایک غیر محرم لڑکے کے ساتھ بھاگی ہے اور نکاح فارم میں درج تاریخ سے پہلے تقریباً ڈیڑھ ماہ تک دونوں ہوٹلوں میں گھومتے رہے ہیں۔ میرا سوال یہ تھا کہ جج صاحب نے اس عمل کا کیا نوٹس لیا ہے اور کیا بالغ لڑکی کے نکاح کے اختیار نے اس سارے عمل کو بھی جواز فراہم کر دیا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے یہ دانش ور اس زنا کو تو جرم تصور کرتے ہیں، جس کا ثبوت چار عینی گواہوں کی صورت میں ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ رضا مندی کے زنا میں کوئی جوڑا ایسے کسی ثبوت کا کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیتا، مگر دواعی زنا (یعنی زنا کا ذریعہ بننے والی حرکات اور اعمال) ان دوستوں کے نزدیک جرم شمار نہیں ہوتے۔ ان کی اس سوچ کو قبول کرنے کا عملی نتیجہ کیا ہو گا، اس پر ایک نظر ڈال لیجئے کہ رضا مندی کے زنا کا تو کوئی ثبوت فراہم نہیں ہو سکتا اور زنا سے کم درجے کی حرکات کو تعزیرات کی فہرست سے بھی نکال دیا جائے گا تو عملاً زنا ہمارے معاشرے میں جرم ہی نہیں رہے گا اور مغربی معاشرے کی طرح پاکستان میں وہی مناظر دکھائی دینے لگیں گے جو ویسٹرن کلچر کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔
میں اس حوالے سے ایک اور مثال دینا چاہوں گا کہ چوری پر شرعی حد ہاتھ کاٹنا ہے، لیکن یہ اسی صورت میں ہو گی کہ عدالت میں کسی ملزم پر چوری کا الزام باضابطہ طور پر ثابت ہو جائے۔ اگر ثبوت مکمل نہیں ہے تو اسے چوری کی شرعی سزا نہیں دی جائے گی۔ ایک شخص کسی کے گھر میں خفیہ طور پر داخل ہوا ہے اور گھر کے اندر سے پکڑا گیا ہے، قرائن یہ بتاتے ہیں کہ وہ چوری کی نیت سے داخل ہوا ہے، لیکن چوری کا ثبوت فراہم نہیں ہو سکا۔ اس کو ہاتھ کاٹنے کی سزا تو یقیناً نہیں ملے گی، لیکن کسی کے گھر میں خفیہ طور پر داخل ہونے پر، جس کا ثبوت موجود ہے، اس کو کوئی سزا دی جائے گی یا نہیں؟ اور کیا چوری کا جرم ثابت نہ ہونے پر اس کا اس گھر میں خفیہ طور پر داخل ہونا اور وہاں موجود پایا جانا بھی جائز قرار پا جائے گا؟
محترم جناب الطاف حسین صاحب سے گزارش کروں گا کہ بات دھونس، جبر اور غصے کی نہیں ہے، ٹھنڈے دل سے سوچنے کی بات ہے۔ کسی بھی قانون کو اس کے مقاصد اور نتائج کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے۔ میں حدود آرڈیننس کا دفاع نہیں کر رہا، بلکہ اس میں شامل ”حدود اللہ “ کے سوا باقی ہر بات پر بحث و تمحیص اور نظر ثانی کی گنجائش تسلیم کرتا ہوں، لیکن ” تحفظ حقوق نسواں بل“ کو جس انداز سے مرتب کیا گیا ہے، اس کا عملی نتیجہ پاکستانی معاشرے میں ”زنا“ اور ”دواعی زنا“ کا دروازہ کھولنے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ اس لیے اس کی حمایت یا مخالفت میں تکنیکی پہلوؤں پر اس قدر زور دینے کی بجائے اس کے مقاصد اور نتائج کے حوالے سے بھی ضرور غور کرنا چاہیے اور جناب الطاف حسین جیسے رہنماؤں اور دانش وروں کو اس بارے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔