امریکہ کی اپیل کورٹ نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے چھ مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی کو ماتحت عدالت کی طرف سے معطل کرنے کا حکم بحال رکھا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن وغیرہ کے شہریوں کے امریکہ میں داخلہ پر نوے روز کے لیے پابندی کا آرڈر جاری کیا تھا جسے ریاست ہوائی کی طرف سے مقامی عدالت میں چیلنج کر دیا گیا اور مذکورہ عدالت نے صدر ٹرمپ کے حکم کو معطل کر دیا ۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر اپیل کورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ یہ بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ سفری پابندی میں شامل چھ ممالک کے افراد اور پناہ گزینوں کے داخلہ سے امریکی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
اس کے ساتھ ہی دو امریکی ریاستوں میری لینڈ اور واشنگٹن ڈی سی کے اٹارنی جنرلز نے صدر ٹرمپ پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا الزام یہ ہے کہ ٹرمپ بدعنوانی کی روک تھام کے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ ٹرمپ نے بطور صدر خود کو اپنے کاروباری اداروں سے الگ نہیں کیا حالانکہ صدر ٹرمپ نے جنوری میں اپنے کاروبار کی ذمہ داری اپنے بیٹوں کے سپرد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی کمپنیوں نے غیر ملکی حکومتوں سے لاکھوں ڈالر اور دیگر فوائد بھی وصول کیے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف تین امریکی ریاستوں کے جذبات اور اپیل کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی عوام بالخصوص وہاں کے سنجیدہ حلقوں کو وہ تبدیلیاں ہضم نہیں ہو رہیں جو امریکہ کے موجودہ عالمی کردار کے تسلسل کی وجہ سے سامنے آرہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ کی قیادت کرنے والے جنرل واشنگٹن نے آزادی کےبعد امریکہ کے صدر کی حیثیت سے امریکی حکومت کو تلقین کی تھی کہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرے اور خود کو امریکہ کے قومی معاملات تک محدود رکھے۔ امریکہ خاصے عرصہ تک اس پالیسی پر کاربند رہا ہے لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران صدر روز ویلٹ نے یہ کہہ کر عالمی سیاست میں کودنے کا اعلان کر دیا تھا کہ دوسرے ممالک اور قوموں کو فکر، عقیدہ اور رائے کی آزادی دلانا امریکہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ جبکہ امریکہ نے اپنے اس عالمی کردار کا عملی آغاز جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر کیا تھا۔
امریکہ دنیا کی عالمی چودھراہٹ کے اس میدان میں جوں جوں آگے بڑھتا رہا اس کی اپنی قدریں اور روایات فطری طور پر پسپا ہوتی رہیں اور جارج واشنگٹن کا امریکہ بتدریج پس منظر میں چلا گیا۔ حتیٰ کہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اکتوبر ۲۰۰۵ء کے دوران ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس صورتحال کا جائزہ لیا تھا اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ
- ہمارے تاریخی اوصاف یہ ہیں کہ ہم اپنے شہریوں کو درست معلومات مہیا کرتے ہیں اور اختلاف رائے اور اختلاف عقائد کو عزت و احترام کے ساتھ برداشت کرتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں یہ تاریخی اوصاف خطرات سے دوچار ہو چکے ہیں۔
- ہمارے سیاسی رہنماؤں نے یکطرفہ طور پر بین الاقوامی تنظیموں اور دیرینہ معاہدوں کی پابندیوں سے آزادی کا اعلان کر دیا ہے۔ ان میں وہ تمام معاہدے بھی شامل ہیں جو ایٹمی اسلحے اور جراثیمی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے ضمن میں طے ہوئے، یا جو عالمی نظام انصاف کے بارے میں تھے۔
- جب تک ہماری ملکی سلامتی کو (براہ راست) کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، امن ہماری قومی ترجیحات میں سرفہرست ہے لیکن ہم اپنی اس روایت کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ ہم نے ’’قبل از وقت‘‘ حملے کی پالیسی اپنا لی ہے۔ اگر کسی ناپسندیدہ حکومت کو بدلنا مقصود ہو یا کوئی اور مقصد پیش نظر ہو تو یکطرفہ اقدام کو ہم نے اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ ہم اسے ’’عالمی اچھوت‘‘ قرار دے کر اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیتے ہیں۔
- ہمارے چوٹی کے رہنماؤں کی شدید کوشش ہے کہ ساری دنیا پر امریکی سامراجیت مسلط کر دی جائے، انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ اس خواہش یا کوشش کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
- ایک طرف ہماری فوج مصروف جنگ ہے اور دوسری طرف ہمیں دہشت گردی کے خطرات لاحق ہیں، پھر بھی ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’یا تو ہمارا ساتھ دو یا ہم تمہیں اپنا مخالف سمجھیں گے‘‘۔ ہم نے کسی کے لیے تیسرا راستہ رہنے ہی نہیں دیا۔
- ممکنہ حد تک حقائق چھپائے جا رہے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ امریکی عوام کو مرنے والے امریکی فوجیوں کی اصل تعداد کا علم نہ ہو سکے۔
- بجائے اس کے کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار اور چیمپئن کا کردار ادا کرتے، قانون حب الوطنی (Patriot Act) کی بعض انتہا پسندانہ شقوں نے ہماری شہری آزادیوں اور نجی زندگی کے حقوق کو سلب کر لیا ہے۔
- امریکہ نے جنیوا سمجھوتوں پس پشت ڈال کر عراق، افغانستان اور گوانتاناموبے میں تشدد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مختلف ملکوں کی جو حکومتیں امریکہ کی حامی ہیں ان سے بھی ان کے عوام پر تشدد کرایا جا رہا ہے۔
- گزشتہ نصف صدی کے دوران تخفیف اسلحہ کے ضمن میں جتنے معاہدے طے پائے، ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بیک جنبش قلم منسوخ کر دیا جائے، یا ان کی صریحاً خلاف ورزی کی جائے۔ ہم اب عالمی سطح پر ایٹمی پھیلاؤ کے ’’بڑے مجرم‘‘ بن چکے ہیں۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا یہ تبصرہ ہمارے اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے کہ آج کا امریکہ جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن کا نہیں بلکہ جارج ڈبلیو بش اور ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ ہے جس سے اصول و دیانت اور عدل و انصاف جیسی کسی بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
حضرت مولانا پیر سیف اللہ خالد نقشبندی
گزشتہ روز ہمارے محترم اور بزرگ دوست حضرت مولانا پیر سیف اللہ خالد نقشبندی طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرما گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ لاہور کی ایک بڑی دینی درسگاہ جامعۃ المنظور الاسلامیہ کے بانی و مہتمم تھے، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کے شاگردوں میں سے تھے اور شیخ العلماء حضرت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک اسلام آباد میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کی رفاقت میں دینی خدمات سرانجام دیں اور پھر لاہور چھاؤنی میں جامعۃ المنظور الاسلامیہ قائم کر کے تعلیمی و دینی محنت میں مصروف رہے۔ جرأت مند اور صاف گو دینی راہنما تھے، دینی و مسلکی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور ساری زندگی انہی تعلیمی و تحریکی سرگرمیوں میں گزار دی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کریں اور ان کے خاندان، رفقاء اور تلامذہ کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔