اذان ویب ٹی وی کے عدیل عارف کا انٹرویو

   
اذان ویب ٹی وی
۱۷ اگست ۲۰۱۱ء

سوال: کیا توہینِ رسالت کی سزا موت قرآن سے ثابت کی جا سکتی ہے؟

جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم میرے خیال میں جو بات کامن سینس کی ہو اس کے لیے دلیلیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک عام آدمی کی توہین بھی جرم ہے۔ ہر ملک میں تحفظِ عزت کے قوانین موجود ہیں اور جو انسان کی حیثیتِ عرفی ہے اس کے ازالے پر قوانین موجود ہیں۔ دنیا اس پہ متفق ہے، یہ مسلمات میں سے ہے کہ ایک عام آدمی کی توہین بھی جرم ہے۔ جب ایک عام آدمی کی توہین بھی جرم ہے اور اس پر سزا موجود ہے اور عدالتی کاروائی کے مواقع موجود ہیں تو اس کے لیے بطور خاص قرآن سے دلیل پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

انبیاء کرامؑ کی توہین بذاتِ خود جرم ہے۔ قرآن پاک میں بھی جرم ہے اور بائبل میں بھی جرم ہے۔ ہمارے جو دوست قرآن پاک کے حوالے سے حوالہ تلاش کرتے ہیں، غامدی صاحب، ان کا اپنا نقطہ نظر یہ ہے کہ بائبل بھی اسی طرح حجت ہے جس طرح قرآن پاک حجت ہے۔ اور بائبل میں دسیوں آیات ہیں جن میں توہین رسالت پر سنگسار کرنے کی سزا کا ذکر ہے۔ اس لیے میرے خیال میں بائبل کے بعد اور کامن سینس کے بعد کسی دلیل کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔

اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی اسی طرح حجت اور اتھارٹی ہے، جس طرح قرآن پاک اتھارٹی ہے۔ حضورؐ کے فیصلے واضح ہیں اور اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ قرآن پاک میں ہے یا نہیں۔ قرآن پاک سے دلیل مانگنے کی شرط کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو اور حضورؐ کو اتھارٹی تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ جب حضورؐ ایک مستقل اتھارٹی ہیں تو میں اس سوال کو درست نہیں سمجھتا کہ ہر بات کو قرآن پاک سے تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔

سوال: قانون ۲۹۵سی کے بننے کے بعد توہین رسالت کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے، کیا آپ اس سے اتفاق کریں گے؟

جواب: گزارش یہ ہے کہ غازی علم الدینؒ کے بعد بہت سے واقعات ہوئے ہیں، غازی عبد القیومؒ کا ہوا ہے، دوسرے واقعے ہوئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس وقت ان واقعات کو مغربی میڈیا نے ہدف نہیں بنایا تھا۔ ضیاء الحق کے دور میں جو قوانین بنے ،یہ ضیاء الحق کا قانون نہیں ہے، یہ وفاقی شرعی عدالت نے قانون بنایا تھا اور پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ اس کے بعد مغربی میڈیا نے اس کو ہدف بنایا ہے اس لیے یہ نظر آرہے ہیں۔ ورنہ تاریخ میں، ریکارڈ میں بہت سے واقعات موجود ہیں جو ہوئے اور ان پر عوامی رد عمل کا اظہار ہوا یا قانونی پراسس میں گئے، اگر تفصیل پڑھنی ہو تو اسماعیل قریشی صاحب کی کتاب ’’توہین رسالت‘‘ میں واقعات موجود ہیں جو غازی علم الدین کے بعد کے ہیں۔

سوال: قانون ۲۹۵سی کے بننے کے بعد آج تک کسی ملزم کو عملی طور پر سزا نہیں ہوئی یعنی دوسرے لفظوں میں جرم ثابت نہیں ہوا۔ تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ قانون غلط استعمال ہو رہا ہے؟

جواب: کل ہی اخبارات میں خبر چھپی ہے کہ ایک مولوی صاحب کو توہینِ رسالت کے قانون کے تحت عمر قید کی سزا دی گئی ہے، غلط یا صحیح وہ الگ مسئلہ ہے ،لیکن یہ کل کی خبر ہے کہ ایک مولوی صاحب کو سزا دی گئی ہے۔ اور اس سے پہلے گوجرانوالہ میں جو سلامت مسیح کا کیس تھا جن کو جرمنی بھجوا دیا گیا تھا، ان کو بھی عدالت نے سزا دی تھی۔ اور بہت سی عدالتوں میں سزا ہوئی ہے۔ اس کو مغرب نے ہائی جیک کیا ہے اور مغربی سفارت کاروں نے ہائی جیک کر کے ان مجرموں کو وہاں پہنچایا ہے۔ یہ بات کہنا درست نہیں ہے کہ کسی کو سزا نہیں ہوئی، بہت سی سزائیں ہوئی ہیں، میں نے کل کا حوالہ دیا، کل کے اخبارات میں پڑھ لیجیے کہ ایک مسلمان کو اور ایک مولوی صاحب کو سزا ہوئی ہے اور عمر قید کی سزا اس قانون کے تحت دی گئی ہے۔

سوال: دیگر مسلم ممالک میں توہین رسالت کی سزا موت کیوں نہیں ہے؟

جواب: اس لیے کہ پاکستان ایک تو اسلام کے نام پر بنا ہے اور پاکستان کے دستور نے گارنٹی دے رکھی ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے قوانین نافذ ہوں گے اور خلافِ اسلام کوئی قانون نافذ نہیں ہوگا ،اس لیے یہ پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ سعودی عرب میں شریعت کا قانون ہے وہاں بھی موت کی سزا ہے اس پر، وہاں بھی گستاخئ رسول پر موت کی سزا ہے۔ اور جو مسلمان ممالک شریعت کی پابندی، شریعت کے نفاذ کا وعدہ نہیں کر رہے، غلط کر رہے ہیں، لیکن ان کے ہاں تو شریعت کے نفاذ کی بات ہی نہیں ہے، تو ہم کیا شریعت نافذ نہیں کریں گے؟ یہ تو پاکستان کی ذمہ داری ہے، پاکستان بنا ہی اس لیے ہے اور پاکستان کا دستور گارنٹی دیتا ہے کہ قرآن و سنت کے قوانین نافذ کریں گے اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں ہوگا۔ دستوری طور پر پاکستان پابند ہے اس بات کا۔

سوال: قانون ۲۹۵سی میں جو لوگ ترمیم کی بات کرتے ہیں ان کا کیا موقف ہے؟

جواب: دو طبقے ہیں ملک میں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اس بنیاد پر بات کر رہا ہے کہ پاکستان کے کسی قانون میں مذہب کا حوالہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کھل کر بات کرتے ہیں کہ پاکستان کے قوانین میں مذہب کا حوالہ ہم ختم کرنے کے درپے ہیں، اس لیے وہ نفسِ قانون کے ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جن کو اس کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ جن کے تحفظات استعمال پر ہیں اور اس کے طریقہ کار میں یا پراسس میں کوئی تبدیلی چاہتے ہیں، ہم نے ان کی بات سنی ہے، ان سے بات کرتے ہیں۔

ابھی دو ہفتے پہلے ہماری پاکستان کے چار بڑے پادری صاحبان سے براہ راست گفتگو ہوئی ہے لاہور میں۔ میں بھی گفتگو میں شریک تھا، اس میں بشپ الیگزینڈر جان ملک ہیں، بشپ منور ہیں، اور دوسرے بشپ صاحبان سے ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ ہم نے ان سے یہ بات دوٹوک کہی ہے کہ توہین رسالت جرم ہے اور اس جرم کی سزا موت ہے، اس پر قرآن اور بائبل متفق ہیں اور شریعت بھی متفق ہے، اس کے جرم ہونے سے کسی کو انکار نہیں، تو آپ کا مطالبہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہم قانون کی حمایت میں ہیں، ہم بھی اس کی سزا موت سمجھتے ہیں۔ ہمارے تحفظات استعمال پر ہیں کہ استعمال میں ہمارے نزدیک کوئی گڑبڑ ہوتی ہے۔ ہم نے کہا کہ اس پر ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔

اس لیے یہ اصل میں بات خلط ملط ہو جاتی ہے۔ جو لوگ پراسس میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں، ان کے لیے میں عرض کرتا ہوں کہ پراسس میں تبدیلی تو ہو چکی ہے۔ اس قانون کے تحت ایف آئی ار آج بھی ایس ایچ او درج نہیں کرتا۔ ایس ایچ او کے ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے ایس پی لیول کا افسر انکوائری کرتا ہے۔ آسیہ مسیح کیس بھی ایس ایچ او نے براہ راست درج نہیں کیا۔ اس میں پہلے گاؤں کی پنچایت نے انکوائری کی ہے، پھر ایس ایس پی شیخوپورہ نے انکوائری کی ہے، ان دو انکوائریز کے بعد ان کی رپورٹ پر یہ کیس درج کیا گیا ہے۔ پراسس میں یہ تبدیلی کہ کوئی ایس ایچ او براہ راست کیس درج نہ کرے اور اس سے پہلے انکوائری ہو جائے، یہ تبدیلی تو ہو چکی، پریکٹیکلی ملک میں ہے۔ اور کس تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں؟ اس کے بعد بھی اگر کوئی پراسس میں تبدیلی ایسی ……

ہماری شرط یہ ہے: ایک تبدیلی وہ ہے جس کے ساتھ یہ قانون غیر مؤثر ہو جائے، وہ تبدیلی تو ہم قبول نہیں کرتے۔ قانون موجود رہے، مؤثر رہے، اس کے مبینہ غلط استعمال کو روکنے کے لیے اگر کوئی ترمیم جائز ہے تو ہم اس کی حمایت کریں گے اور ہم حمایت کر رہے ہیں، لیکن اس عنوان سے قانون کو ختم کرنا، یا قانون کو غیر مؤثر بنانا، یا موت کی سزا کو درمیان سے نکالنا، اس کی حمایت ہم نہیں کرتے۔

سوال: چند حضرات کا یہ اعتراض ہے کہ توہین رسالت کے کیس میں گواہوں کا جو معیار اسلام نے بیان کیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جاتا؟

جواب: یہاں بھی میں یہی عرض کروں گا کہ قتل کی سزا موت ہے۔ اور ہمارے یہ سارے سیکولر حلقے اب اس بات کی کمپین کریں گے کہ سلمان تاثیر کے قاتل کو موت کی سزا دی جائے، یہ خود مطالبہ کریں گے اس پہ کمپین کریں گے۔ پاکستان میں منشیات کے فروغ کی آخری سزا موت ہے، کیا وہاں بھی گواہوں کے معیار میں فرق کا یہ مطالبہ کر رہے ہیں؟ موت کی سزا جس جس قانون میں ہے وہاں جو گواہوں کا معیار ہے یہاں بھی وہی گواہوں کا معیار ہوگا۔ یا اُس کے لیے الگ ہو گا، اِس کے لیے الگ ہو گا؟ کیوں؟ معیار ایک ہے، اگر باقی مقدمات میں گواہ پیش ہو سکتے ہیں وہ، یہاں کیوں نہیں پیش ہو سکتے؟ یہ الگ سے اس قانون کو ٹارگٹ کرنے کی کیا وجہ ہے؟

سوال: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو معاف بھی کیا جنہوں نے آپؐ کی شان میں گستاخیاں کیں، اور ایسے افراد کو قتل بھی کیا۔ اس فرق کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

جواب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، ان کا معاف کرنے کا اختیار تھا، حضور ؐ کے اختیارات ہمیں منتقل نہیں ہو گئے۔ عام سنت ہمیں منتقل ہوئی ہے، لیکن ان کے خاص اختیارات ہمیں منتقل نہیں ہوئے۔ وہ حضورؐ کا اختیار تھا کہ کسی کو معاف کرنا چاہیں تو کر دیں مگر ہمارے لیے قانون وہی ہے جو عمومی قانون تھا ۔

سوال: عیسائیوں کے سب سے بڑے پوپ اور امریکہ اس قانون کو ختم کرنے میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں؟

جواب: پاپائے روم سے تو میں گزارش کروں گا کہ وہ مذہب کی نمائندگی نہیں کر رہے، سیکولر حلقوں کے ہاتھ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ وہ بائبل کی نمائندگی نہیں کر رہے، بائبل اور کچھ کہہ رہی ہے۔ وہ یہ بات کہہ کر کہ پاکستان میں قانون کو ختم کیا جائے، عالمی سیکولر استعمار کی نمائندگی کر رہے ہیں، اپنے مذہب کی نمائندگی نہیں کر رہے، بائبل بہت صاف بات کرتی ہے۔ لیکن جہاں تک مبینہ غلط استعمال کا تعلق ہے، ہم پاکستان کے بڑے پادری صاحبان سے بھی بات کر چکے ہیں اور ہم پوپ صاحب سے بھی یہی کہیں گے کہ مبینہ غلط استعمال کو روکنے کی بات اگر آپ کرتے ہیں تو اس میں ہم میز پر بیٹھ کر اس کا تعین کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اگر آپ نفس ِقانون کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تو پاپائے روم! آپ اپنے مذہب سے بھی انحراف کر رہے ہیں اور آپ بائبل کی نمائندگی نہیں کر رہے۔

سوال: سلمان تاثیر نے اس قانون کو کالا قانون کہا، تو اگر یہ توہین رسالت کا جرم تھا تو مذہبی جماعتوں نے سلمان تاثیر کے خلاف کیس کیوں نہیں کیا؟

جواب: پہلی بات، سلمان تاثیر آسیہ مسیح کیس (کے سلسلہ) میں جیل میں گئے، اس کو ملنے کے لیے۔ انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا، جو ان کا نہ آئینی اختیار تھا، نہ قانونی اختیار تھا۔ میں ایک بات تو یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سلمان تاثیر نے قانون کو ہاتھ میں لے کر اور پورے قانونی عدالتی پراسس کو کراس کر کے جو کارروائی کی، اگر اس وقت قانون کو ہاتھ میں لینے کے اس عمل کو روک دیا جاتا تو یہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا دوسرا واقعہ پیش نہ آتا۔

ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ سلمان تاثیر کا دو باتوں پر نوٹس لیا جائے :

ایک اس بات پر کہ انہوں نے اپنے آئینی منصب سے انحراف کیا ہے، قانونی پراسس کو کراس کیا ہے، سیشن کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔

دوسرا انہوں نے کہا تھا کہ یہ کالا قانون ہے۔ کالا قانون اگر تو پراسس کے حوالے سے ہو تو وہ بات الگ ہے لیکن ان کا یہ کہنا نہیں تھا، ان کا کہنا تھا میں قانون کو ختم کرواؤں گا۔ اور قانون کو ختم کرانے کا مطلب یہ ہے کہ توہین رسالت پر موت کی سزا کو وہ ظالمانہ قانون کہہ رہے تھے۔ اور اگر اس پس منظر میں یہ کہا جائے گا تو یہ توہین رسالت ہی ہوگی۔

سوال: اگر بالفرض یہ قانون نہ ہو تو اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟

جواب: قانون کے نفاذ کے حوالے سے تو اس وقت لوگوں کو (اشکال) ہے کہ بہت سے کیس درج ہوئے، گرفتار ہوئے، قتل ہونے سے بچ گئے، عوامی اشتعال کا شکار ہونے سے بچ گئے۔ اگر قانون نہیں ہوگا تو ہر جگہ فیصلہ لوگ خود کریں گے، اور وہ فیصلہ پھر آپ کو معلوم ہے کیا ہوگا اور افراتفری مچے گی اس سے۔

سوال: اسلامی تاریخ میں توہین رسالت کے مجرموں کو جو سزائیں دی گئیں ان میں سے کچھ واقعات ذکر کریں۔

جواب: فتح مکہ کے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو گستاخئ رسول پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان میں ایک ابن خطل ہے، وہ بیت اللہ کے غلاف کے پیچھے جا کر چھپ گیا تھا۔ لوگوں نے آ کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رپورٹ کیا کہ یارسول اللہ! وہ تو غلاف کعبہ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ فرمایا، وہاں اس کو قتل کرو۔ حالانکہ حرم میں کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن حضورؐ نے فرمایا کہ اسے وہاں بھی قتل کرو ۔ اس کو وہاں سے نکال کر گھسیٹ کر زم زم کے کنویں کے پاس قتل کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اور حضورؐ کے حکم سے۔

2016ء سے
Flag Counter