افغانستان میں جہادی تربیت کے عسکری کیمپوں کے بارے میں ایک کالم میں ہم نے گزارش کی تھی کہ ان کی بندش کا مطالبہ درست نہیں ہے کیونکہ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، کوسوو، چیچنیا، مورو، اراکان اور دیگر علاقوں میں مسلمان مجاہدین آزادی اور اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے جو جنگ لڑ رہے ہیں اس جنگ کا تربیتی سرچشمہ یہی کیمپ ہیں اور ان کیمپوں کے بند ہونے کا براہ راست نقصان ان جہادی تحریکات کو ہوگا اس لیے امریکہ ان کیمپوں کی بندش کا مطالبہ کر رہا ہے لہٰذا ان کیمپوں کی بندش کا مطلب دنیا بھر کی جہادی تحریکات کو ایک بہت بڑے سہارے سے محروم کر دینا ہوگا۔ ہم نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ ہو سکتا ہے ان کیمپوں سے تربیت حاصل کرنے والے کچھ افراد نے پاکستان میں اس تربیت کا غلط استعمال بھی کیا ہو جس سے ملک میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور لاقانونیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن ایسے افراد کا تناسب بہت کم ہے اس لیے ان کی روک تھام کے لیے کوئی اور بندوبست ہونا چاہیے اور چند فیصد لوگوں کے غلط کردار کی وجہ سے سرے سے ان کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کر کے امریکی ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔
اس پر تحریک جعفریہ پاکستان کے مولانا اظہار بخاری صاحب کا درج ذیل خط موصول ہوا ہے:
’’محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب۔
السلام علیکم، مزاج گرامی!
گزشتہ دنوں (۲۸ فروری ۲۰۰۰ء) روزنامہ اوصاف میں آپ کا کالم ’’وزیر داخلہ سے دو اہم گزارشات‘‘ کے عنوان سے پڑھا جس میں آپ نے اسلحہ کی نمائش پر پابندی اور افغانستان میں موجود دہشت گردی کے کیمپوں کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ اول الذکر مسئلہ پر آپ کی تجاویز سے ہم کافی حد تک اتفاق کرتے ہیں لیکن آخر الذکر مسئلہ کے ضمن میں نہ صرف اختلاف رکھتے ہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں اس کی وضاحت بھی آپ کو ارسال کر رہے ہیں تاکہ آپ سمیت ہر انصاف پسند اور باشعور شہری حقیقت حال سے آگاہ ہو سکے۔
وطن عزیز میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا آغاز ایک مخصوص شدت پسند گروہ کی فتویٰ سازی اور غلیظ نعرہ بازی کی وجہ سے ہوا جس میں ان ملاؤں نے ایک خاص ایجنڈے کے تحت سادہ لوح اور جذباتی نوجوانوں کو شیعہ عوام کے قتل عام پر اکسایا جس کا انجام ’’لشکر جھنگوی‘‘ کی تشکیل تک پہنچا، آج یہی گروہ دہشت و وحشت کا سرخیل ہے۔
اسلامی جہاد پر عالم اسلام کے تمام مکاتب فکر نہ صرف متحد و متفق ہیں بلکہ اسے اصول دین میں شمار کرتے ہیں۔ مسلک اہل بیت میں جہاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج پوری دنیا میں تمام مکاتب و مسالک کے پیروکار اپنے دائرہ میں جہاد کے ذریعے امریکہ، روس، اسرائیل، ہندوستان اور دیگر استعماری طاقتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اور حیدر کرار کی جرأت و بہادری سے الہام حاصل کرتے ہوئے دشمنان اسلام پر اسلام کا سکہ جما رہے ہیں۔
گزشتہ دہائی میں نام نہاد سپر پاور روس کے خلاف افغانستان کے محاذ پر مختلف جہادی قوتیں نمودار ہوئیں اور پھر متحد ہونے کے بعد منتشر ہوئیں۔ یہاں ہم جہادی قوتوں کے باہمی اختلافات سے قطع نظر جہاد کے اس طریقہ کے نقصانات پر بات کریں گے جس کی وجہ سے امت مسلمہ باہمی نزاع کی کیفیت سے دوچار ہوئی۔ افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد جہادی قوتیں کشمیر کی طرف متوجہ ہوئیں۔ تقریباً اسی دور میں یا پھر تھوڑے ہی عرصے بعد پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات کا آغاز ہوا۔ ان واقعات کے ملزمان اور مجرمان گرفتار ہوتے رہے اور انہوں نے فرقہ وارانہ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والوں، فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وجوہات، اسباب فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مراکز، سرکاری سرپرستی اور ایجنسیوں کے کردار کے بارے میں حیران کن اور ہوشربا انکشافات کیے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم سے لے کر ایک تھانے کے ایس ایچ او تک تمام نے وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ دہشت گردی کے اسباب و مضمرات اور حقائق کو بے نقاب کیا۔
انہی حقائق میں سے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ افغانستان میں موجود جہادی تربیتی کیمپوں میں پاکستان کے شیعہ سنی عوام کو قتل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور مخصوص نظریات کے حامل افراد نوجوانوں کے ذہن زہر آلود کر کے انہیں جنونی بنا کر لوگوں کے قتل کے لیے تیار کرتے ہیں اور یہ نوجوان گروہوں، لشکروں اور گینگز کی شکل میں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور منظم منصوبہ بندی کے تحت فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات کرتے ہیں۔ دو تین ماہ قبل معروف اشتہاری دہشت گرد راحیل نے گرفتاری کے بعد جو انکشافات کیے تھے وہ دیگر اخبارات کی طرح آپ کے اخبار اوصاف میں بھی جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئے جس میں اس نے کھلے عام کہا کہ ہم ایک فرقہ کے پیروکار کو قتل کرنا واجب سمجھتے ہیں اور ہمارے مراکز افغانستان میں موجود ہیں نیز ہمارے تربیتی کیمپ لشکر جھنگوی کے کمانڈر اب بھی چلا رہے ہیں۔
گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم نواز شریف، وزیرداخلہ چوہدری شجاعت حسین اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے واضح بیانات اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے دورہ افغانستان نے ہماری طرف سے کئی سالوں سے پیش کیے جانے والے موقف کی تائید کر دی جس میں ہم نے کہا کہ دہشت گردی کے سرچشمے افغانستان میں موجود ہیں۔ آج بھی جنرل پرویز مشرف اور وزیرداخلہ جنرل معین الدین حیدر نے ان کیمپوں کے بارے میں تشویش ظاہر کر کے نہ صرف ہمارے موقف پر مہر تصدیق ثبت کی ہے بلکہ وطن عزیز کی خیر خواہی کرتے ہوئے اور امن و امان کے قیام کے لیے ان کیمپوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے یہ مقصد لینا کہ حکومت یا تحریک جعفریہ جہاد کی حامی نہیں قطعاً درست نہیں ہے۔
جہاد کی حمایت پاک فوج اور اس کے ادارے سے بڑھ کر کس نے کی ہے؟ یہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی مخلص و محب وطن پاکستانی اور مسلمان جہاد کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ البتہ جہاد کی آڑ میں عبادت گاہوں تک میں مسلمانوں کے قتل عام اور باہمی کشت و خون کرنے والے فرقہ پرست جنونیوں کی کارروائیوں سے ہر مسلمان پریشان ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت و بربریت کی علامت سمجھا جانے والا شخص اور دہشت گردوں کا سرغنہ ریاض بسرا اور اس کے ساتھی کابل کے نواح میں موجود ہیں اور بقول عوامی اخبارات اور دہشت گردوں کے انکشافات کے وہ دہشت گردوں کے کیمپ بھی چلا رہا ہے اور امارت اسلامی افغانستان اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی بلکہ حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کے مطالبے پر پس و پیش اختیار کر رہی ہے۔
آپ جیسے بالغ نظر اور وسیع القلب شخص کی طرف سے اس طرح کا موقف تعجب خیز ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ارض وطن پر مسلمانوں کی وحدت و یکجہتی کے فروغ، فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ناسوروں کے خاتمے، امن و امان کے قیام، اسلامی مسالک و مکاتب کے اتحاد کی خاطر اپنے نقطۂ نظر میں اصلاح کریں گے اور ہمارے نقطۂ نظر کو اپنے کالم میں جگہ دے کر اس طرح کے سنگین مسائل کے حوالے سے عوام میں پائی جانے والی تشویش کا خاتمہ کریں گے۔ ہم آپ کے عملی اور تحریری تعاون (بذریعہ اوصاف) کے منتظر ہیں۔
نیک خواہشات کے ساتھوالسلام، سید اظہار بخاری
انچارج میڈیا سیل تحریک جعفریہ پاکستان‘‘
ہمیں واقعتاً اس سے قبل یہ معلوم نہیں تھا کہ افغانستان میں عسکری تربیت کے مراکز کی بندش کے سلسلہ میں امریکہ کے ساتھ تحریک جعفریہ پاکستان بھی شریک ہے اور ہمارا خیال تھا کہ تحریک جعفریہ شاید ہماری طرح اس عسکری تربیت کے غلط استعمال کی روک تھام پر زور دے رہی ہے۔ مگر اس خط سے واضح ہوا ہے کہ تحریک جعفریہ ان کیمپوں کی مکمل بندش چاہتی ہے اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ان کیمپوں کو بند کرانے کے لیے جنرل ضیاء الدین بٹ نے آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے افغانستان کا جو دورہ کیا تھا اسے تحریک جعفریہ کی حمایت حاصل تھی۔
خط قارئین نے پڑھ لیا ہے، ہم اس پر کوئی تفصیلی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان کالموں میں ہم اس مسئلہ پر وضاحت کے ساتھ اظہار خیال کر چکے ہیں۔ البتہ بطور یاد دہانی دو امور کا اعادہ اس خط سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں:
- ایک یہ کہ واقعات کی ترتیب یہ نہیں ہے جو اس مکتوب میں ظاہر کی گئی ہے بلکہ اصل ترتیب یہ ہے کہ ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد پاکستان میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے انقلاب ایران کی نمائندگی کے دعوے کے ساتھ پاکستان میں فقہ جعفریہ کے متوازی نفاذ کا مطالبہ کیا اور اس مقصد کے لیے اسلام آباد کے سول سیکرٹریٹ کا محاصرہ کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے ردعمل کے طور پر سپاہ صحابہؓ وجود میں آئی اور اس نے تشدد کے جواب میں تشدد کی پالیسی اختیار کی اور دونوں طرف کے تشدد میں روز بروز اضافہ کی وجہ سے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم نے ان کالموں میں تشدد اور جواب تشدد دونوں کو ہمیشہ غلط قرار دیا ہے اور آج بھی دونوں کو غلط کہتے ہیں۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ سید اظہار بخاری صاحب نے اپنے مکتوب میں شیعہ رہنماؤں اور کارکنوں کے قتل عام کا ذکر کیا ہے جو بلاشبہ اور افسوسناک اور انتہائی افسوسناک ہے لیکن وہ دوسری طرف کا ذکر اس طرح گول کر گئے ہیں جیسے ان کے مخالف کیمپ میں سرے سے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ حالانکہ اس دوران اہل سنت کے مذہبی رہنماؤں اور کارکنوں کے قتل کا تناسب بھی کچھ کم نہیں ہے۔ چونکہ دونوں طرف ہونے والے واقعات قارئین کے سامنے ہیں اس لیے اس کے ذکر کو مزید بڑھا کر ہم تلخ یادوں کو پھر سے تازہ نہیں کرنا چاہتے مگر ایک سادہ سا سوال ہے کہ اگر شیعہ رہنماؤں اور کارکنوں کو قتل کرنے والے ’’دہشت گردوں‘‘ نے افغانستان کے کیمپوں میں ٹریننگ حاصل کی ہے تو سنی رہنماؤں اور کارکنوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کرنے والے ’’دہشت گردوں‘‘ کے تربیتی مراکز کہاں ہیں؟ اور اگر ان کیمپوں کا سراغ مل جائے تو کیا تحریک جعفریہ پاکستان ان کی بندش کا مطالبہ کرنے میں بھی اسی مستعدی اور سرگرمی کا مظاہرہ کرے گی؟
ہمارے خیال میں اس قسم کی یکطرفہ سوچ نے معاملات کو یہاں تک پہنچایا ہے ورنہ اگر دونوں فریق معروضی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے انصاف کے مسلمہ تقاضوں کو نظرانداز نہ کریں تو صورتحال اب بھی قابو میں آسکتی ہے۔ ہم ملک کے سنجیدہ حلقوں کی اس خواہش کے ساتھ متفق اور اس کے مؤید ہیں کہ جہادی تربیت کے مراکز میں ٹریننگ حاصل کرنے والوں کو ملک کے داخلی معاملات بالخصوص فرقہ وارانہ کشیدگی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور اس کے سدباب اور روک تھام کے لیے پاکستان، افغانستان اور ایران کی حکومتوں کے درمیان باضابطہ طور پر جو معقول سسٹم طے کیا جا سکتا ہے ہم اس کا خیرمقدم کریں گے بشرطیکہ یہ نظام یکطرفہ نہ ہو بلکہ دونوں طرف کے ’’دہشت گردوں‘‘ کا راستہ روکنے والا ہو۔ لیکن اپنے اس موقف پر ہم آج بھی قائم ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر سرے سے ان کیمپوں کی بندش کا مطالبہ خالصتاً امریکی ایجنڈا ہے اور ہم دنیا بھر کی جہادی تحریکات سے بے وفائی کرتے ہوئے اس امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والی کسی کارروائی یا تجویز کی حمایت نہیں کر سکتے۔