مطالعۂ مذاہب کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے اس بات کو دیکھنا ہے کہ ہم جس ماحول اور تناظر میں بات کر رہے ہیں اس میں مذہب اور دین کے بارے میں کیا سمجھا جا رہا ہے اور اس کے حوالہ سے لوگوں کے نظریات و افکار کیا ہیں؟ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کا اولین خطاب چونکہ عرب سوسائٹی سے تھا اور ان مذاہب و ادیان کے ساتھ ان کا مکالمہ تھا جس سے اسے سابقہ درپیش تھا اس لیے قرآن کریم نے عام طور پر یہود و نصاریٰ، مشرکین اور صابئین وغیرہ کو سامنے رکھ کر عقائد میں مجادلہ کیا ہے۔ اور اگرچہ اصولی طور پر پوری نسل انسانیت کے دائرہ میں قرآن کریم نے عقائد بیان کیے ہیں لیکن مناظرہ و مجادلہ انہی مذاہب کے ساتھ رہا ہے جو اس وقت مسلمانوں کے سامنے تھے۔
لیکن آج کا تناظر اس سے مختلف ہے اور اصولی طور پر دنیا بھر کے مذاہب سے خطاب کے ساتھ ساتھ ابلاغ کے متنوع اور وسیع ذرائع نے عملی طور پر بھی پوری نسل انسانی کو ہمارا یکساں مخاطب بنا دیا ہے۔ چنانچہ دنیا کے کسی ایک حصے میں کہی جانے والی بات چند لمحوں میں دنیا کے دوسرے کنارے تک پہنچ جاتی ہے اور کوئی داعی دنیا کے مجموعی ماحول کو سامنے رکھے بغیر اپنی بات صحیح طور پر نہیں کہہ سکتا۔ اس لیے ہمیں مذاہب و ادیان کا مطالعہ کرتے ہوئے یا ان کے بارے میں بحث و تمحیص کرتے ہوئے کم و بیش سات ارب انسانوں پر مشتمل انسانی سوسائٹی کے مجموعی تناظر کو سامنے رکھنا ہوگا اور دین و مذہب کے بارے میں ان تمام افکار و مذاہب کے بارے میں معلوم کرنا ہوگا جن کے پیروکار اس وقت معاصر دنیا میں ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں۔
- آج کی گلوبل انسانی سوسائٹی کو سامنے رکھ کر آپ دین و مذہب کی بات کریں گے تو آپ کو سب سے پہلے انسانوں کی ایک بہت بڑی آبادی سے سابقہ درپیش ہوگا جو سرے سے مذہب کے قائل نہیں ہیں اور خدا اور آخرت پر ان کا یقین نہیں ہے۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دنیا ہی سب کچھ ہے، اس سے آگے پیچھے اور کوئی جہان نہیں ہے، موت کے بعد انسان فنا کے گھاٹ اتر کر معدوم ہو جاتا ہے جس کے بعد نہ کوئی زندگی ہے اور نہ کوئی سزا و جزا کا نظام موجود ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کم تعداد میں نہیں ہیں بلکہ آج کی گلوبل انسانی سوسائٹی میں ایسے افراد کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور وہ اپنے عقیدہ کو چھپانے کی بجائے اس کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں بلکہ خدا اور آخرت پر یقین رکھنے والوں کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔
- دین و مذہب کے بارے میں دوسرا نقطۂ نظر آپ کو یہ ملے گا کہ انسانی سوسائٹی کے لیے مذہب کی افادیت سے انکار نہیں ہے بلکہ یہ انسانی اخلاق و عادات کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس کا وجود خارجی نہیں ہے کہ انسان کو باہر سے کوئی ہدایات ملی ہوں یا غیب سے اس کی کوئی رہنمائی ہو رہی ہو بلکہ مذہب انسان کا خود اپنا پیدا کردہ ہے کہ ہر دور میں کچھ اربابِ فکر و دانش نے اس دور کی نفسیات و رجحانات کو سامنے رکھ کر چند عقائد، عبادات اور اخلاقیات کا ایک نظام تخلیق کیا تاکہ اس کو سامنے رکھ کر لوگ اپنی عادات و عبادات اور اخلاقیات و سماجیات کو ایک دائرے میں محدود رکھ سکیں۔ اس طرح انسانی نفسیات کے اتار چڑھاؤ اور تنوع کو دیکھ کر بعض مفکرین اور ریفارمرز نے مذاہب تخلیق کیے اور رفتہ رفتہ انہوں نے باقاعدہ مذاہب کی حیثیت اختیار کر لی۔ اس مکتب فکر کا کہنا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام دراصل مصلحین اور ریفارمرز تھے جنہوں نے اپنے دور کی ضروریات سامنے رکھ کر کچھ اصول وضع کیے اور انہیں مذہب کی حیثیت دے دی، انہوں نے اپنی بات منوانے اور انسانوں کو متاثر کرنے کے لیے یہ تاثر دیا کہ یہ تعلیمات و ہدایات ان کی اپنی نہیں ہیں بلکہ غیب سے انہیں یہ ہدایات ملی ہیں تاکہ وہ نسلِ انسانی کی راہنمائی کر سکیں۔ اس مکتب فکر کے نزدیک سزا و جزا اور جنت و جہنم کے بارے میں حضرات انبیاء کرامؑ کے ارشادات کا درجہ بھی یہی ہے کہ انسانوں کو اچھے اعمال کی طرف راغب کرنے اور برے اعمال سے روکنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے، جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو بات مان لینے پر مٹھائی کا لالچ دیتی ہے اور بات نہ ماننے پر کسی انجانی بلا سے ڈراتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرات انبیاء کرامؑ نے بھی (نعوذ باللہ) انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے سزا و جزا کی باتیں بیان فرمائی ہیں، اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ظاہر بات ہے کہ جب مذہب کی حیثیت محض ایک نفسیاتی حربے کی ہوگی اور اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوگا تو یہ ہر زمانے اور ہر ماحول کے لیے مختلف ہوگا اور وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کے دائرے بھی بدلتے جائیں گے۔ اسی وجہ سے یہ طبقہ مذہب کے کسی متعینہ دائرے میں پابند ہونے یا کچھ طے شدہ قواعد و اصول پر جم جانے کو درست نہیں سمجھتا اور مسلسل تبدیلیوں پر زور دیتا ہے۔
- دین و مذہب کے بارے میں انسانی سوسائٹی میں آپ کو تیسرا نقطۂ نظر یہ ملے گا کہ مذہب کوئی نفسیاتی حربہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی راہنمائی کے لیے آنے والی ہدایات کا نام ہے جو حضرات انبیاء کرامؑ کے ذریعے نازل ہوئیں اور آسمانی وحی اور کتابوں کی صورت میں انسانی سوسائٹی کی راہنمائی کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن اس کا ایک وقت محدود تھا جب اس کی ضرورت تھی، جس طرح ایک بچے کو بلوغت تک ماں باپ کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہدایات اور راہنمائی کا محتاج ہوتا ہے لیکن جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس ضرورت سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور عاقل و بالغ ہونے کے بعد اپنے فیصلے خود کرنے لگ جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی سوسائٹی کو ایک وقت تک وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی ضرورت تھی اور وہ خارجی راہنمائی کی محتاج تھی لیکن اب جبکہ انسانی سوسائٹی بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھلا خود سمجھنے لگی ہے تو اسے بیرونی ہدایات کی ضرورت نہیں رہی اور وہ اس حیثیت میں ہے کہ اپنے فیصلے خود کرے اور اپنے نفع و نقصان کا خود جائزہ لے۔
- جبکہ دین و مذہب کے بارے میں چوتھا نقطۂ نظر وہ ہے جو اکثر اہلِ مذاہب کا ہے اور خود ہمارا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے نسلِ انسانی کی راہنمائی کے لیے ہدایات بھجوائی ہیں، اس دنیا کے بعد اگلی زندگی میں سزا و جزا کے نظام سے آگاہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اس میں جو اعمال ہوں گے اس کے مطابق اگلی زندگی کا فیصلہ ہوگا۔ حضرات انبیاء کرامؑ کی یہ تعلیمات خودساختہ نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہیں اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ منسوخ نہیں ہوئیں بلکہ آج بھی واجب العمل ہیں اور قیامت تک واجب العمل رہیں گی۔
یہ چند چیدہ چیدہ رجحانات ہیں جو آج کی گلوبل انسانی سوسائٹی میں دین و مذہب کے حوالہ سے پائے جاتے ہیں اور مذہبی مباحثات و مکالمات کا دائرہ ان کے گرد گھومتا ہے۔ آج جب ہم مذہب کے حوالہ سے بات کریں گے تو ان رجحانات کو سامنے رکھنا ہوگا اور وسیع تناظر میں بات کرنا ہوگی۔ جبکہ ہمارے ہاں مذہب کے بارے میں بات چیت کا دائرہ بہت محدود ہے اور عقائد کے مباحثات اسی محدود دائرے میں ہوتے ہیں۔ ہمارے مدارس میں علم الکلام اور عقائد کے شعبہ میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اور جو بحثیں ہوتی ہیں ان کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں ہے اور وہ بہت ضروری ہیں، خاص طور پر قرونِ اولیٰ میں اہل السنۃ والجماعۃ کے ساتھ گمراہ فرقوں کے اعتقادی مباحث کی نوعیت اور اسی تناظر میں اہل سنت کے عقائد و تعبیرات کو اس کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ عقیدہ و تعبیر کی بحث اور جدل و کلام کا یہ دائرہ آج کے دور کے لیے کافی نہیں ہے اور ہمیں آج کے تقاضوں کو علم الکلام کے نصاب اور اعتقادات کے مباحث میں شامل کرنا ہوگا، اس کے بغیر اس شعبہ میں ہم اپنی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے۔