بعد الحمد والصلوٰۃ۔ انسانی حقوق آج کی دنیا کا ایک بڑا موضوع ہے۔ یہی تمام بین الاقوامی تنازعات اور معاملات میں ایک معیار کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور اسی کے حوالے سے فیصلے ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی موقف کا میں نے گذشتہ نشست میں ذکر کیا تھا۔ آج میں آپ کو انسانی حقوق کے چارٹر کے حوالے سے اور کچھ بین الاقوامی معاہدات سے متعارف کروانا چاہوں گا۔ لیکن پہلے یہ بات آپ ذہن میں رکھیں کہ اس وقت دنیا میں جن معاہدات کے حوالے سے بات ہوتی ہے وہ ستائیس معاہدات کنونشنز کہلاتے ہیں اور دنیا کے تمام ممالک سے مطالبہ ہے کہ ان معاہدات کی پابندی کی جائے۔
ہمارے ہاں یورپی یونین کے سفیر اسلام آباد تشریف لائے تھے اور انہوں نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو تمام انسانی عالمی کنونشنز کو لاگو کرنا ہو گا، اس کے بغیر پاکستان کو یورپی یونین کی طرف سے تجارتی اور دوسری نوعیت کی مراعات نہیں ملیں گی۔ یورپی یونین کے اس مطالبے کے بعد ہمارے وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ میں انسانی حقوق کا الگ دفتر بنانے کا حکم دے دیا تھا۔ دفتر قائم ہو گیا ہے، انسانی قانون کی باقاعدہ وزارت ہے اور یہ ذمہ داری قبول کی گئی ہے کہ ہم پاکستان میں ان ستائیس کنونشنز کی پابندی کریں گے۔
ان ستائیس معاہدات میں سے اس وقت میرے ہاتھ میں تین معاہدے ہیں۔ میں جو دینی حلقوں میں بین الاقوامی معاہدات سے باخبر سمجھا جاتا ہوں، میں پچیس سال سے انسانی معاہدات کے بارے میں بات کر رہا ہوں، وضاحت بھی کر رہا ہوں، جوابات بھی دے رہا ہوں، اس پر میرے بیسیوں مضامین شائع ہوئے ہیں اور بیسیوں سیمینارز سے میں نے خطاب بھی کیا ہے، لیکن جہاں تک میری رسائی ہوئی ہے، اس کے بعد اب بھی میرے پاس ان ستائیس معاہدات میں سے تین معاہدات ہیں۔ باقی معاہدات تک رسائی کی کوشش کر رہا ہوں، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ زبان ہے کہ میں انگریزی نہیں جانتا اور پھر وسائل کہ ان بین الاقوامی معاہدات تک پہنچنا اور ان سے واقف ہونا میرے جیسے درویش آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ بہرحال کچھ تراجم اور ثانوی مآخذ کی مدد سے تین معاہدات میرے پاس موجود ہیں۔
ان میں سے ایک ہے ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ یہ معاہدہ ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ تیس دفعات پر مشتمل معاہدہ منظور کیا تھا، جس پر اس وقت کی تمام اقوام کے دستخط موجود ہیں اور اس کے بعد سے اب تک جو بھی اقوام متحدہ کا ممبر بنتا ہے اس کو اس بنیادی دستاویز پر دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ اس پر دستخط کیے بغیر اور اس کی پابندی قبول کیے بغیر کوئی ملک بھی اقوام متحدہ کا ممبر نہیں بن سکتا اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت جب قائم ہوئی تو ملا محمد عمر مجاہدؒ کے نمائندے ملا عبد الحکیم نیویارک تشریف لے گئے تھے۔ اتفاق سے میں بھی اس وقت نیویارک میں تھا۔ ملا عبد الحکیم اقوام متحدہ کی صفوں میں جگہ بنانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن ان کی طرف سے شرط تھی کہ اس معاہدے کو من و عن منظور کیا جائے اور طالبان حکومت اس معاہدے کو من و عن قبول کرنے کو تیار نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ سفارتی مہم کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ کیونکہ اقوام متحدہ کی رکنیت کی بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ اس معاہدے اور دیگر تمام معاہدات کو تسلیم کیا جائے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے جتنے ارکان ہیں وہ اس معاہدے کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اس کی تکمیل کا وعدہ بھی کرتے ہیں اور اس کے بارے میں سوالات کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ یہ پہلا معاہدہ ہے جو ہیومن رائٹس چارٹر (انسانی حقوق کا عالمی منشور) کہلاتا ہے۔
دوسرا معاہدہ جو میرے پاس ہے، عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمے کا معاہدہ، یہ انسانی حقوق کا مستقل عنوان ہے کہ عورتوں کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی امتیازی قانون کسی بھی ملک میں نہیں ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ نے سب سے زیادہ جنگ مرد و عورت کی مساوات کے لیے اور مرد و عورت کے امتیاز کو ختم کرنے کے لیے اب تک لڑی ہے۔ یہ تفصیلی معاہدہ ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۹ء کو منظور کیا تھا، پھر ۱۹۸۹ء کو اس کی پابندی پر ایک نیا معاہدہ لیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ بھی عورتوں کے حقوق کا معاہدہ اور مردوں اور عورتوں کے درمیان مکمل مساوات قائم کرنے کا معاہدہ کہلاتا ہے۔ اس کی بھی تیس دفعات ہیں اور اس کا عنوان ہے کہ مردوں عورتوں میں کوئی کسی قسم کا امتیازی قانون، حکم یا رویہ کسی ملک میں نہیں ہو گا۔
تیسرا معاہدہ جو میرے پاس موجود ہے یہ بچوں کے حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ بچوں کی پرورش، ان کے حقوق، ان کی ذہن سازی، ان کے معاملات بالغ ہونے تک والدین کے ذمے ہیں۔ والدین کن کن باتوں کے ذمہ دار ہیں اور دنیا کی حکومتیں بچوں کے حوالے سے کون کون معاملات کی پابند ہیں۔ یہ بھی ۱۹۸۹ء کو منظور کیا گیا تھا اور ۲ ستمبر ۱۹۹۰ء سے نافذ العمل ہے۔ اس کی بنیاد پر حکومتوں اور ملکوں کی چھان بین کی جاتی ہے، سوالات کیے جاتے ہیں، قوانین پر اعتراضات ہوتے ہیں، قوانین کی تبدیلی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ یہ تفصیلی معاہدہ ہے جس کی ۵۴ دفعات ہیں۔
ان معاہدات کے تراجم جو میرے پاس ہیں یہ بھی اقوام متحدہ کے اپنے تراجم ہیں، یعنی سرکاری طور پر منظور شدہ ترجمے ہیں۔ ان ستائیس معاہدات کے بارے میں یورپی یونین، اقوام متحدہ، امریکہ ہم سے باقاعدہ ہر سال مطالبہ دہراتے ہیں اور ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ان قوانین کی خلاف ورزی کے جو اقدامات، جو قوانین و ضوبط ہمارے ملک میں ہیں ان کو یکسر ختم کیا جائے۔ اپنے بڑے علمی اداروں سے میں نے کئی دفعہ درخواست کی ہے لیکن کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں ہو رہی کہ بڑے اداروں کو چاہیے کہ وہ ان معاہدات کو حاصل کریں، ان کے اردو تراجم مہیا کریں، اس پر علماء کی کمیٹیاں بیٹھیں، ان کا جائزہ لیں اور جائزہ لے کر ہمیں بتائیں کہ کون سی بات ہمارے لیے قابل قبول ہے اور کون سی نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ہم ستائیس کے ستائیس معاہدات کی ہر بات کو نہ یکسر مسترد کر سکتے ہیں کہ ان میں بہت سی اچھی باتیں بھی ہیں اور نہ ہی سب کے سب کو قبول کر سکتے ہیں کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جو بالکل غلط ہیں اور کسی درجے میں بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں کوئی ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بڑے علمی اداروں کا کام ہے اور اس معیار کے علمی ادارے کراچی میں ہیں، باقی ملک کے ادارے نہ تو وسائل مہیا کر سکتے ہیں، نہ مواقع میسر آتے ہیں۔
بہرحال یہ ہماری دینی علمی ضرورت ہے کہ ان ستائیس معاہدات کو حاصل کیا جائے، ان پر ریسرچ کی جائے اور ان کے مالہ وماعلیہ کو دیکھا جائے۔ صحیح، غلط بات کا فرق کیا جائے، جو قابل قبول نہیں ہیں صاف کہہ دیا جائے کہ یہ قابل قبول نہیں ہیں اور جو قابل قبول ہیں صاف کہا جائے یہ قابل قبول ہیں۔ جن میں گفتگو کی ضرورت ہو ان کے بارے میں کہا جائے کہ ان پر مذاکرہ و مکالمہ ہو گا، کوئی ایڈجسٹمنٹ ہو گی۔ لیکن ہمارا ایک موقف طے ہونا چاہیے۔ اس پر ہمارے ہاں شخصی طور پر کچھ میرے جیسے افراد کام کر رہے ہیں، لیکن ایک ادارے اور فورم کے طور پر اس پر ابھی تک کوئی کام ہمارے حلقوں میں نہیں ہوا۔ ممکن ہے عربوں میں ہوا ہو، عربوں میں کچھ ادارے اس پر کام کرتے ہیں۔
پہلی بات میں نے آپ سے یہ کہی ہے کہ اس وقت دنیا پر حکومت بین الاقوامی معاہدات کر رہے ہیں، جو ساری دنیا پر نافذ ہیں۔ اس وقت دنیا پر حکومت حکومتوں کی نہیں ہے، بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی ہے جن کی باگ ڈور طاقتور ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ پھر جو قانون کا حشر مختلف ملکوں میں ہوتا ہے کہ طاقتور بچ جاتا ہے، عام آدمی پھنس جاتا ہے اور درمیانہ آدمی راستے تلاش کرتا ہے کہ کبھی عمل کر لیتا ہے، کبھی نہیں۔ ہر ملک کے اپنے قوانین کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے، بین الاقوامی برادری میں بھی ان معاہدات کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے کہ پیسے اور طاقت والے ملک بچ جاتے ہیں، غریب ممالک پابند ہیں، اور درمیانے ممالک کبھی مان لیتے ہیں کبھی انکار کر دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے معاہدات اتنا بڑا ہتھیار ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ جو بین الاقوامی کارروائی ہوئی ہے وہ بھی اسی عنوان پر ان بین الاقوامی معاہدات کو قبول نہ کرنے اور خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ہوئی ہے۔ نیٹو کی فوجوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ عراق کا حشر نشر کر دیا۔ اس پر بھی الزام یہ تھا کہ انہوں نے کچھ ایسے ہتھیار رکھے ہوئے تھے جو بین الاقوامی قوانین کے تحت ممنوع تھے۔ یہ الزام بھی جھوٹ ثابت ہوا۔ انہوں نے خود جھوٹ کا اعتراف کیا ہے، لیکن عراق کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اب شام کی جو صورتحال ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ یہ بین الاقوامی معاہدات کا اثر ہے اور بین الاقوامی معاہدات ایک ہتھیار ہیں، جن کی آڑ میں طاقتور ممالک جس ملک کے خلاف چاہیں پہلے خلاف ورزی کا ماحول پیدا کرتے ہیں، پھر خلاف ورزی ہوتی ہے، پھر الزام لگاتے ہیں، پھر خود ہی تحقیق کرتے اور خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں اور اس ملک کا نظام تہس نہس کر دیتے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام اور سوڈان میں یہی کچھ ہوا ہے۔ مڈل کلاس کے ملکوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ ان معاہدات کی پابندی کرتے رہیں۔
جب آپ ان معاہدات کے بارے میں بات کریں گے تو یہ بات ذہن میں رکھ کر کریں گے کہ ان معاہدات کی پابندی ہم نے اور دنیا کے سبھی ممالک نے قبول کر رکھی ہے اور ہم ان معاہدات کے حوالے سے جواب دہ اور مسئول ہیں اور عملاً دنیا کا نظام ان بین الاقوامی معاہدات کے دائرے میں چل رہا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھ کر اگلی بات کریں گے تو ہمیں اگلی صحیح صورتحال سمجھ میں آئے گی کہ کیا ہو رہا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
اب انسانی حقوق کے چارٹر کی طرف آتے ہیں۔ انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعات میں آپ کے سامنے پڑھوں گا اور ان پر دفعہ وار تبصرہ بھی کروں گا۔ لیکن پہلے تین اصول ذہن نشین کر لیں۔ کیونکہ اس چارٹر کی بنیاد تین بنیادی اصولوں پر ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ مرد و عورت میں قانونی طور پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے قوانین میں مرد و عورت کے احکام و قوانین میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اس کو امتیازی قانون کہا جاتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے اور اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ بھی کہتا ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ مطالبہ اقوام متحدہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں میں مکمل مساوات ہونی چاہیے۔ اس کی بیسیوں مثالوں میں سے ایک مثال عرض کرتا ہوں۔
خاندانی نظام میں اسلام کے ہاں طلاق کا حق مرد کو ہے عورت کو نہیں ہے۔ عورت مطالبہ طلاق کا حق رکھتی ہے، براہ راست طلاق کا حق نہیں رکھتی۔ قرآن مجید میں ہے: ”بیدہ عقدۃ النکاح“ بین الاقوامی قانون کا مطالبہ ہے کہ نہیں جس طرح مرد کو براہ راست طلاق دینے کا حق ہے عورت کو بھی براہ راست مساوی طلاق دینے کا حق قانوناً ہونا چاہیے۔ یہ فرق کہ مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت صرف مطالبہ طلاق کر سکتی ہے یہ امتیازی قانون ہے اس کو ختم کیا جائے۔ دنیا بھر کے مسلمان ممالک سے مطالبہ ہے، ہم سے بھی مطالبہ ہے۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ چونکہ اسلام میں عورت کو طلاق کا حق تفویض کیا جا سکتا ہے، مرد اگر طلاق کا حق عورت کو تفویض کر دے تو یہ درست ہے اور اس تفویض کے ساتھ عورت اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے تو ہم نے قدوری، ہدایہ اور کنز الدقائق فقہ کی کتابوں سے یہ مسئلہ اٹھایا اور نکاح کے فارم میں اسے ڈال دیا۔ ۱۹۶۲ء میں نکاح کا ایک فارم طے کیا جس میں نکاح کی تفصیلات درج ہوں گی۔ اس فارم میں ایک خانہ تفویضِ طلاق کا ہے کہ کیا خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟ ۱۹۶۲ء میں ہم نے نکاح فارم میں یہ خانہ شامل کر کے بین الاقوامی اداروں کو رپورٹ دی تھی کہ ہم نے نکاح فارم میں ہی عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے۔ نکاح ہوتے ہی عورت کو حق مل جاتا ہے۔
جبکہ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ کبھی یہ خانہ پر کرتے ہوئے نکاح خوان خاوند سے نہیں پوچھتا کہ آپ نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے یا نہیں؟ چونکہ میں اس پس منظر سے واقف ہوں تو جب کہیں نکاح پڑھاتا ہوں تو نکاح رجسٹرار کو دیکھتا ہوں کہ کیا کرتا ہے۔ ایک دفعہ لطیفہ یہ ہوا کہ یہیں گوجرانوالہ کے ایک شادی ہال میں ایک نکاح تھا۔ میں نکاح خوان تھا۔ نکاح رجسٹرار مولوی صاحب فارم پر کرتے ہوئے جب تفویض طلاق کے خانے پر آئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا کہ یہ کیا کرنے لگے ہو؟ کہنے لگے کہ کراس لگانے لگا ہوں۔ میں نے کہا طلاق کا حق تفویض کرنا ہے یا نہیں کرنا یہ اختیار تمہیں ہے؟ کہنے لگے نہیں! یہ اختیار تو خاوند کو ہے۔ میں نے کہا کہ خاوند سے پوچھا ہے؟ کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا: پھر تم کیسے یہاں کراس لگانے لگے ہو، تم ہاں کرو یا نہ دونوں غلط ہیں کہ یہ تم سے تو پوچھا ہی نہیں گیا۔ خاوند سے پوچھو کہ وہ اختیار دیتا ہے یا نہیں دیتا۔ کہنے لگے کہ ہم نے تو کبھی نہیں پوچھا۔ یعنی عمومی صورتحال یہ ہے کہ نہ نکاح خوان کو پتہ ہوتا ہے، نہ خاوند کو اور نہ ہی بیوی کو پتہ ہوتا ہے اور ہم کراس لگاتے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے یہ بین الاقوامی اداروں کو مطمئن کرنے کے لیے کیا تھا کہ ہم نے عورت کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے اور شرعی اصطلاح کے ساتھ کر دیا ہے۔ بین الاقوامی مطالبہ پورا کرنے کے لیے ہمیں یہ کرنا پڑا۔
کافی عرصے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ہم نے داؤ کھیلا ہے۔ صدر فاروق لغاری صاحب کے دور میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں غالباً جنیوا میں انہیں بلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ یہ آپ نے دھوکا کیا ہے، عورت کو واضح لفظوں میں براہ راست طلاق کا حق قانوناً دو۔ صدر صاحب وہاں وعدہ کر آئے کہ ٹھیک ہے ہم کریں گے۔ اس کے بعد ہم نے پینترا بدلا کہ عورت کو طلاق کا حق نہیں ہے، لیکن خلع کا حق تو شرعاً ہے اور خلع مطالبہ طلاق ہے۔
ایک مسئلہ درمیان میں اور سمجھ لیں کہ عورت کو طلاق کا حق نہیں ہے مرد کو ہے۔ اس کو یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ عورت مرد کے رحم و کرم پر ہے، یہ یک طرفہ اختیار ہے، اسلام میں بھی اور پاکستان کے قانون میں بھی عورت قیدی ہے، گویا مرد کی غلام ہے، اس کے لیے مرد سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ اس کی تعبیرات کی جاتی ہیں۔ اس کا جواز پیش کرنے کے لیے کہ عورت کے لیے باوقار راستہ یہ ہے کہ اس کو بھی براہ راست طلاق کا حق ہو، تب مساوات قائم ہو گی ورنہ عورت پابند ہے اور مرد حاکم ہے۔ یہ اس ساری بحث و فلسفے کا پس منظر ہے۔
اس کی وضاحت کے لیے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ خلع مطالبہ طلاق ہے، طلاق نہیں ہے اور یہ طلاق کا مطالبہ خاوند سے ہے اور طلاق بھی اسی نے دینی ہے۔ لیکن اس کا منظور کرنا یا نہ کرنا صرف خاوند پر موقوف نہیں ہے، بلکہ خاوند کے علاوہ بھی ایسی اتھارٹی موجود ہے کہ اگر عورت کی شکایات شرعی دائرے میں درست ہوں تو اس مطالبے کو منظور کر سکتی ہے اور خاوند کے نہ چاہتے ہوئے بھی تفریق کروا سکتی ہے اور اس کا فیصلہ نافذ بھی ہوتا ہے۔ وہ اتھارٹی دو درجوں میں ہے۔ پہلا درجہ تحکیم کا ہے: ”فابعثوا حکماً من اھلہ و حکماً من اھلھا“ حکمین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ اگر عورت کی شکایات درست ہیں، لیکن خاوند نہ شکایات دور کر رہا ہے، نہ طلاق دے رہا ہے تو حکمین تفریق کروا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ایک دائرہ قضاء شرعی کا بھی ہے۔ مسلمان قاضی کو بھی اختیار ہے کہ خاوند اگر ظلم و زیادتی کا مرتکب ہے، عورت کی شکایات درست ہیں اور شوہر طلاق نہیں دے رہا تو قاضی بھی تفریق کرا سکتا ہے۔
میں کہا کرتا ہوں کہ درست ہے کہ خلع مطالبہ طلاق کا حق ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صرف خاوند پر موقوف نہیں ہے، بلکہ خاوند کے علاوہ دو ادارے اتھارٹی کے طور پر موجود ہیں جو عورت کی شکایات درست ہونے کی شکل میں عورت کو رہائی دلا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اسلام میں عورت خاوند ہی کے رحم و کرم پر ہے درست نہیں ہے۔
میں جو بات کر رہا تھا وہ یہ ہے کہ پہلے تو تفویض طلاق کو دلیل بنا کر بین الاقوامی اداروں کو مطمئن کیے رکھا کہ عورت کو بھی طلاق کا حق ہے۔ تیس چالیس سال بعد انہیں خیال آیا کہ یہ تو انہوں نے دھوکا کیا ہے، دوبارہ ان کا مطالبہ ہوا تو ہم نے نئی پالیسی اختیار کی۔ ہمارے ملکی نظام کے دائرے میں یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور ہمارے ارباب اقتدار بہت ہوشیار لوگ ہیں۔ ان کا طریقہ واردات آپ کو بتاتا ہوں۔ ایک شرعی قانون کے بارے میں عوام کا دباؤ ہوتا ہے، دینی حلقوں کا تقاضا ہوتا ہے تو اسے نافذ کرنا پڑتا ہے۔ نافذ کر دیتے ہیں اور ترمیم بھی نہیں کر سکتے، لیکن طریقہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ عوام کے مطالبے پر نافذ بھی کر دو، ترمیم سے بھی بچو کہ لوگ رکاوٹ ہیں، لیکن پراسس ایسا اختیار کرو کہ اس پر عمل نہ ہو۔ مثلاً حدود آرڈیننس ہمارے ہاں نافذ تھیں، مگر کسی پر عمل نہیں ہوا۔ توہین رسالت کے قانون کے مطابق آج تک کسی ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ جتنے بھی شرعی قوانین نافذ ہیں کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ اسی طرح قصاصاً قتل کا معاملہ ہے۔ ہم نے بین الاقوامی طور پر معاہدہ کر رکھا ہے کہ ہمارے ملک میں قتل کی سزا نہیں دی جائے گی۔ ابھی آج سے بیس دن پہلے ۲۹ جولائی ۲۰۱۷ء دوبارہ ہم سے اقوام متحدہ کی طرف سے مطالبہ ہوا ہے کہ پاکستان دیت، قصاص اور سزائے موت کے قوانین ختم کرے۔ موت کی سزا کسی جرم میں بھی نہیں دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں ہے ہم سزا منسوخ نہیں کر رہے، لیکن سزا دے بھی نہیں رہے۔ سوائے دہشت گردی کے عنوان سے جو چند لوگوں کو سزائے موت دی ہے، باقی ہزاروں سزائے موت کے قیدی جیلوں میں بند ہیں۔
بیوروکریسی نے حکمت عملی یہ اختیار کی ہوئی ہے کہ جو قوانین ختم نہیں کیے جا سکتے اور ان میں ترمیم بھی نہیں کی جا سکتی، ایسے قوانین کو بھی نہ چھیڑو، ان میں ترمیم بھی نہ کرو اور ان پر عمل بھی نہ کرو۔ خلع میں بھی ہم نے یہی کیا۔ ہم نے پالیسی کے طور پر یہ طے کر لیا کہ خلع کو عورت کا مساوی حق طلاق کہا جائے۔ سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ خلع عورت کا مساوی حق طلاق ہے۔ حالانکہ اسلام میں یہ فرق ہے کہ طلاق حق طلاق ہے اور خلع مطالبہ طلاق کا حق ہے، مساوی حق طلاق نہیں ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد پر ہم نے قانون میں ترمیم نہیں کی، پراسس بدل دیا ہے۔ اب دو تین سال سے صورت حال یہ ہے کہ کچھ دن پہلے میں نے ایک سول جج سے تفصیلی بات کی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہی ہو رہا ہے، ہدایات یہ ہیں کہ عورت خلع کی درخواست لے کر آئے تو اس کا طلاق کا نوٹس سمجھ کر نوے دن کے اندر اندر تفصیل معلوم کیے بغیر عورت کے حق میں فیصلہ کیا جائے۔ دو باتیں طے ہیں فیصلہ نوے دن کے اندر ہو گا اور ہر صورت میں عورت کے حق میں ہو گا اور اس وقت عملاً ایسے ہی ہو رہا ہے۔
میں تو کب سے اس پر واویلا کر رہا ہوں کہ یہ ہو رہا ہے، وہ ہو رہا ہے۔ لیکن ہمارے علماء کرام کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ کسی اور کی بات سننے کے روادار نہیں ہوتے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور ہائی کورٹ کے تین چار وکلاء اکٹھے ہوئے اور سوچا کہ یہ تو ٹھیک نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے اپنے مضامین بھجوائے کہ میں یہ لکھ چکا ہوں اور میں لکھ ہی سکتا ہوں اور کیا کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک فورم بناتے ہیں، آپ ہمیں بریف کریں۔ ہم اس پر عدالتی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ ہماری دو میٹنگیں ہو چکی ہیں، لاہور کے چند مفتیان کرام اور ہائی کورٹ کے چند وکلاء کی۔ تیسری میٹنگ عید کے بعد متوقع ہے۔
خلع کے مسئلے نے جو صورت اختیار کر لی ہے اتنی خوفناک ہوتی جا رہی ہے کہ خلع کی درخواست گئی اور نوے دن کے اندر عورت کو ڈگری مل گئی اور وہ جا کر کہیں اور نکاح کر لیتی ہے اور کوئی اپیل وغیرہ کا تصور بھی نہیں ہے۔ فیملی کورٹ مجاز ہے اور خلع کو مساوی حق طلاق کہہ کر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ ہم میٹنگیں تو کر رہے ہیں، نہ معلوم ہمارے احتجاج کی کوئی صورت بنتی ہے یا نہیں۔ ہم بات کو مؤثر طریقے سے کہہ پاتے ہیں یا نہیں، لیکن مسئلے کی موجودگی سے متعلق میں نے آپ کو بتایا اور اصولی بات یہ کی کہ انسانی حقوق کے چارٹر کا پہلا اصول یہ ہے کہ مرد اور عورت میں مکمل مساوات ہو گی۔ جہاں مرد و عورت کے قوانین میں فرق ہو گا، اس کو امتیازی قوانین کہیں گے اور ان قوانین کی تبدیلی کا مطالبہ ہو گا۔ جس پر میں نے ایک مثال طلاق کی دی۔
میں آپ کو دعوت دینا چاہوں گا کہ ذرا غور کریں کہ ہم کہاں کہاں مرد و عورت کے احکام میں فرق کرتے ہیں۔ ہم شرعی طور پر عورت کو حاکم ملک تصور نہیں کرتے یہ مساوات کے خلاف ہے اور امتیازی قانون ہے۔ معاشرتی زندگی میں مردوں عورتوں کو ملازمتوں میں بغیر کسی شرط کے مساوی حقوق نہیں دیے جاتے یہ بھی امتیازی قانون ہے، مساوات کے خلاف ہے۔ اسلام میں شرعاً عورت پابند ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت سے جائے، جبکہ مرد کو پابندی نہیں کہ وہ پوچھ کر جائے اگرچہ جاتے پوچھ کر ہی ہیں یہ بھی امتیازی قانون ہے۔ حجاب کے جو قوانین عورت کے لیے ہیں مرد کے لیے نہیں ہیں۔ عورت کو شرعاً خطیب اور امام بننے کی اجازت نہیں اور بہت سے معاملات میں مرد کو اجازت ہے عورت کو نہیں۔ میں نے دو چار ذکر کیے ہیں۔ آپ غور کریں کہ کہاں کہاں فرق نہیں ہے سیاسی حوالے سے، معاشرتی حوالے سے، قانونی حوالے سے، شرعی حوالے سے جہاں مرد و عورت کے قانون میں آپ فرق کریں گے تو وہ امتیازی قانون ہو گا اور یہ تیس دفعات کا معاہدہ ہے جس کا ٹائٹل ہی دیکھنے کے لیے کافی ہے: ”عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمے کا معاہدہ “
ایک لطیفے کی بات عرض کر دیتا ہوں۔ اس مسئلہ کی حساسیت یہ ہے کہ آج سے دس بارہ سال پہلے امریکہ کی سپریم کورٹ میں ایک رٹ چلتی رہی۔ بڑی دلچسپ رِٹ تھی کہ جب مرد اور عورت میں اصولاً کوئی فرق نہیں ہے، مکمل مساوات ہے تو پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے مذکر کا صیغہ کیوں بولا جاتا ہے، مؤنث کا کیوں نہیں بولا جاتا؟ اللہ کہتا ہے بولا جاتا ہے، کہتی ہے کیوں نہیں بولا جاتا۔ یہ امتیازی فرق ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ امریکی سپریم کورٹ کے ایک جج نے ریمارکس دیا کہ کوئی بات نہیں ہے، اللہ پاک کے لیے مذکر اور مؤنث دونوں صیغے بولے جا سکتے ہیں۔ یہ بولنے والے کی مرضی ہے کہ جو لفظ اللہ پاک کے لیے کہہ دے۔ یہ میں نے اس کی حساسیت ذکر کی ہے۔
آج میں نے آپ کو بتایا کہ مرد و عورت کی مساوات کا مطلب کیا ہے، اس کے دائرے کیا ہیں؟ اب آخری بات اس حوالے سے یہ کروں گا کہ اس پر ہمارا موقف کیا ہے؟ برطانیہ میں ایک سیمینار میں مجھ سے سوال ہوا کہ عورت اور مرد میں فرق جائز ہے؟ ان کے قوانین اور حقوق میں امتیاز ہونا چاہیے؟ کامن سینس کیا کہتی ہے؟ عقل کیا کہتی ہے؟ ان کا یہ سوال نہیں ہوتا کہ بائبل یا قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے اور وہاں جواب بھی اسی لہجے میں دینا پڑتا ہے کہ عقل یہ کہتی ہے، وہاں قرآن کا یا بائبل کا حوالہ کام نہیں کرتا۔ میں نے جواب میں کہا کہ یہ بتاؤ کہ مرد اور عورت میں فرق ہے یا نہیں ہے؟ تین حوالوں سے (۱) دونوں کی جسمانی ساخت ایک ہے یا فرق ہے؟ کہا، فرق ہے۔ (۲) مرد اور عورت کی نیچرل ڈیوٹیز (فطری فرائض) ایک ہیں؟ کہا، نہیں۔ (بچہ عورت نے پیدا کرنا ہے مرد نے نہیں۔ یا تو برابری کرو کہ ایک عورت پیدا کرے تو دوسرا مرد پیدا کرے۔ بچے کو دودھ بھی عورت نے ہی پلانا ہے مرد نہیں پلائے گا۔ عورت ہی بچے کی پرورش کرے گی۔ (۳) مرد اور عورت کی نفسیات ایک جیسی ہے؟ کہا، نہیں۔ میں نے کہا کہ جب عورت کی جسمانی ساخت الگ ہے، نیچرل ڈیوٹیز الگ ہیں، نفسیات الگ ہے تو احکام و قوانین میں فرق کیوں نہیں ہو گا؟ بچہ عورت نے جننا ہے تو زچگی کی چھٹیاں اس کو چاہئیں، مرد کو نہیں۔ دودھ عورت نے پلانا ہے تو دودھ پلانے کے لیے سہولیات عورت کو چاہئیں مرد کو نہیں۔ جب عورت اور مرد میں فرق ہے تو احکام و قوانین میں لازماً فرق ہو گا۔
انسانی حقوق کے چارٹر کی پہلی اصولی بنیاد یہ ہے کہ مرد اور عورت میں مکمل مساوات ہونی چاہیے، کسی قسم کا کوئی امتیازی قانون نہیں ہونا چاہیے۔ جہاں امتیازی فرق ہوگا، اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہا جائے گا اور اس کی تبدیلی کا مطالبہ ہو گا۔