قرآنِ کریم نے اپنا دوسرا نام ’’الفرقان‘‘ بتایا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ’’الفاروق‘‘ کے لقب سے معروف ہیں، دونوں کا معنٰی حق و باطل میں فرق کرنے والا بنتا ہے۔ جبکہ اس لفظی مناسبت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زندگی بھر کا طرز عمل بھی اس مشابہت و مماثلت کی گواہی دیتا ہے جس کی چند جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں۔
حضرت عمرؓ بن الخطاب گھر سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کے ارادے سے تلوار لے کر چلے تھے مگر راستہ میں بہن کے گھر قرآن کریم سننے کا موقع مل گیا اور اس سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔
حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت کے دور میں مختلف جنگوں میں حافظ قرآن کریم صحابہ کرامؓ کی کثرت کے ساتھ شہادت کی خبریں آنے لگیں تو حضرت عمرؓ کی تجویز بلکہ تحریک پر قرآن کریم کو کتابی شکل میں مرتب کر کے محفوظ کر لیا گیا۔
حضرت عمرؓ کی خلافت تک لوگ رمضان المبارک میں عشاء کے بعد مختلف ٹولیوں کی صورت میں اور اکیلے اکیلے نوافل میں قرآن کریم پڑھا کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے سب کو ایک امام کے پیچھے اکٹھے کر کے تراویح پڑھنے کا حکم دیا اور اس طرح مساجد میں باجماعت تراویح اور مکمل قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا بابرکت عمل شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
حضرت عمرؓ کی مختلف آرا کی تائید میں قرآن کریم کی متعدد آیات نازل ہوئیں جنہیں ’’موافقاتِ عمرؓ‘‘ کہا جاتا ہے اور جن کی تعداد امام سیوطیؒ نے ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں بائیس تک شمار کی ہے۔
حضرت عمرؓ نے مساجد میں قرآن کریم کی تعلیم کے لیے باقاعدہ مکاتب قائم کرنے کا حکم دیا اور مختلف علاقوں میں ان کا آغاز ہوا۔
حضرت عمرؓ نے صوبائی گورنروں کو قرآن کریم کے حفاظ شمار کرنے کا حکم دیا اور بیت المال سے ان کے وظیفے مقرر فرمائے جو ’’طبقات ابن سعدؓ‘‘ کی ایک روایت کے مطابق اڑھائی ہزار درہم سالانہ تک تھے۔
قرآن کریم کی تعلیم کے بارے میں امیر المومنین حضرت عمرؓ بن الخطاب نے اپنے گورنروں کو باقاعدہ احکامات جاری کیے اور تفصیلی خطوط لکھے جن میں سے بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسٰی اشعریؓ کے نام ان کا مکتوب گرامی ’’کنز العمال‘‘ جلد ۱ول میں اس طرح مذکور ہے۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے بندے عمر بن الخطابؓ کی طرف سے عبداللہ بن قیسؓ (ابو موسیٰ اشعری) اور حفاظِ قرآن کے نام۔السلام علیکم۔
واضح ہو کہ یہ قرآن کریم تمہارے لیے باعث اجر و ثواب ہونے والا ہے لہٰذا اس کی تعلیم پر عمل کرو اور اسے اپنے مقاصد کا آلۂ کار نہ بناؤ۔ جو قرآن کریم کو اپنا قائد و متبوع بنائے گا قرآن کریم اسے جنت کی سیر کرائے گا۔ قرآن کریم کو خدا کے حضور تمہارا سفارشی ہونا چاہئے نہ کہ تمہارے خلاف شکایت کرنے والا، کیونکہ قرآن جس کا سفارشی ہوگا وہ جنت میں جائے گا اور جس کے خلاف شکایت کرے گا وہ دوزخ میں جلے گا۔ جب خدا کا بندہ رات میں اٹھتا ہے اور مسواک کر کے وضو کرتا ہے، پھر تکبیر کہہ کر نماز پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کا منہ چومتا ہے اور کہتا ہے کہ پڑھو پڑھو، تم پاک و صاف ہو گئے، قرآن کریم پڑھ کر تمہیں لطف آئے گا۔ قرآن کریم ہدایت کا سرچشمہ، علم کا پھول اور رحمن کا تازہ کلام ہے۔ اگر رات میں اٹھنے والا بغیر مسواک کے وضو کرتا ہے تو فرشتہ اس کی نگرانی تو کرتا ہے لیکن منہ نہیں چومتا۔ نماز میں قرآن پڑھنا ایسا ہے جیسے کسی کو چھپا ہوا خزانہ مل جائے اور مخفی دولت حاصل ہو جائے۔ قرآن کریم پڑھا کرو، نماز نور ہے، زکوٰۃ برہان ہے، صبر روشنی ہے، روزہ ڈھال ہے اور قرآن تمہارے بارے میں ایک دلیل ہے۔ قرآن کریم کا احترام کرو اور اس سے بے اعتنائی نہ برتو کیونکہ خدا اس کی عزت کرتا ہے جو قرآن کریم کی عزت کرتا ہے اور اس کو بے آبرو کر دیتا ہے جو قرآن کریم کی بے حرمتی کرتا ہے۔ جو شخص قرآن کریم پڑھے، اس کو یاد کرے اور پھر اس کے مطابق عمل کرے، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے، دعا کرنے والا چاہے تو خدا دنیا میں اس کی دعا کو پورا کر دیتا ہے ورنہ اس کی مانگی ہوئی چیز آخرت کے لیے جمع ہو جاتی ہے۔ یاد رکھو خدا کا انعام بہترین اور ہمیشہ رہنے والا ہے اور یہ ان لوگوں کو نصیب ہوگا جو صاحب ایمان ہیں اور اپنے مالک پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘
فرقانِ حمید اور فاروقِ اعظمؓ کا یہ تعلق جہاں امیر المومنین حضرت عمرؓ کی فضیلت و عظمت کی شہادت ہے وہاں قیامت تک کے مسلمان حکمرانوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے کہ کسی مسلم ریاست کے حکمرانوں کا قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ کے حوالہ سے کیا کردار بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔