روزنامہ جنگ لندن ۷ اکتوبر ۲۰۰۰ء کے مطابق ترکی پارلیمنٹ کی ۵ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی کانگریس نے آرمینیا میں خلافتِ عثمانیہ کے دور میں عیسائیوں کے قتلِ عام کی مذمت کی قرارداد منظور کی تو ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو جائے گی، اور ترکی اس معاہدہ پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائے گا جس کے تحت امریکہ عراق پر حملہ کے لیے ترکی کے فضائی اڈے استعمال کر سکتا ہے۔
آرمینیا میں خلافتِ عثمانیہ کے دور میں ۱۹۱۵ء میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان خوفناک خانہ جنگی ہوئی تھی جس میں دونوں طرف سے تین لاکھ کے لگ بھگ افراد مارے گئے تھے۔ یہ خانہ جنگی خلافتِ عثمانیہ کو بدنام کرنے اور اس کی ساکھ اور حکومت کو نقصان پہنچانے کے لیے منصوبہ کے تحت کرائی گئی تھی، لیکن مغربی ذرائع ابلاغ اسے عیسائیوں کا قتلِ عام قرار دے کر خلافتِ عثمانیہ کے خلاف کردار کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور امریکہ کے نمائندگان میں اس وقت ایک قرارداد زیربحث ہے جس میں اس خانہ جنگی کو عیسائیوں کا قتل عام قرار دے کر اس کی مذمت کی گئی ہے، اور اسی قرارداد کے خلاف ترک پارلیمنٹ کی پانچ سیاسی جماعتوں نے مذکورہ ردعمل کا اظہار کیا ہے، جسے اخباری رپورٹ کے مطابق ترک حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔
امریکی کانگریس کی اس مجوزہ قرارداد کا مقصد بظاہر اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ
- مشرقی یورپ کے اس خطہ میں گزشتہ سالوں میں سرب عیسائیوں نے بوسنیا اور کسووو کے مسلمانوں کا جو وحشیانہ قتلِ عام کیا ہے اسے بیلنس کیا جائے۔
- اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف مسیحی عصبیت کو مزید ابھارا جائے تاکہ اس خطہ میں مسلمانوں کے دینی تشخص کے احیا اور کسی مسلم ریاست کے قیام کے امکانات کو روکا جا سکے۔
بہرحال اس امریکی قرارداد پر ترک پارلیمنٹ کی سیاسی جماعتوں کا یہ ردعمل ہمارے لیے خوشی کا باعث ہے، اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ اور مصطفیٰ کمال اتاترک کے ثقافتی انقلاب سے گزرنے کے باوجود ترک قوم کا ذہنی رشتہ اپنے ماضی سے پوری طرح منقطع نہیں ہوا، اور وہ اپنے شاندار ماضی کے حوالے سے قومی حمیت کے تقاضوں سے بھی بے خبر نہیں ہوئی۔