سینٹ آف پاکستان کے انتخابات کا عمل جاری ہے اور چند روز میں سینٹ کا نیا ایوان اپنا کام شروع کر دے گا۔ پنجاب سے سینٹ کے بارہ ارکان حسب سابق متفقہ طور پر منتخب ہوئے ہیں جو ایک خوش آئند روایت اور سیاست میں افہام و تفہیم کی علامت ہے۔ مگر میرے لیے اس میں سب سے زیادہ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگ دوست حمزہ صاحب بھی اس انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر پارلیمنٹ کے ایوان میں آگئے ہیں اور ایوان میں ان کی کھری کھری باتیں ایک بار پھر گونجا کریں گی۔ حمزہ صاحب کا نام سب سے پہلے صدر محمد ایوب خان مرحوم اور نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان مرحوم کے دور میں مغربی پاکستان اسمبلی کے حوالے سے سامنے آیا۔ ابھی ون یونٹ قائم تھا اور مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے نام سے ملک کے دو ہی صوبے ہوتے تھے۔ مغربی پاکستان موجودہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی حدود پر مشتمل تھا اور مشرقی پاکستان نے بعد میں بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ریاست کا روپ اختیار کر لیا تھا۔ مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان مرحوم نواب آف کالا باغ تھے جن کے رعب و دبدبہ اور ہیبت کی مختلف کہانیاں زبان زد عوام رہتی تھیں۔
مغربی پاکستان اسمبلی میں حمزہ صاحب اپنے علاقہ گوجرہ سے منتخب ہو کر آئے تھے اور چند ہی دنوں میں انہوں نے ایک بے باک حق گو اور جرأت مند پارلیمنٹیرین کے طور پر تعارف حاصل کر لیا تھا۔ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ محمد صفدر مرحوم تھے اور جن ارکان نے اس ایوان میں عوام کے جذبات و احساسات کی پوری جرأت کے ساتھ ترجمانی کی ان میں حمزہ صاحب، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، امیر حبیب اللہ خان سعدی، میر عبد الباقی بلوچ مرحوم کے نام سب سے نمایاں تھے۔ اپنے کاٹ دار، گرجدار اور بلند آہنگ لہجے کے باعث حمزہ صاحب ایک عام شہری اور سیاسی کارکن کے طور پر مجھے اچھے لگے، بعد میں یہ معلوم ہونے پر اس تعلق اور محبت میں مزید اضافہ ہوگیا کہ ان کا تعلق لدھیانہ سے ہے اور وہ علمائے لدھیانہ کے معروف خاندان کے ایک عالم دین کے فرزند ہیں۔ علمائے لدھیانہ کا برصغیر کی سیاسی و دینی جدوجہد میں ایک مستقل تعارف ہے۔ وہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہراول دستہ تھے، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کا شمار تحریک آزادی کے برصغیر کی سطح کے رہنماؤں میں ہوتا ہے اور تحریکِ آزادی اور دیگر قومی و دینی تحریکوں سے دلچسپی رکھنے والے ہر سیاسی و دینی کارکن کے دل میں اس خاندان کے ساتھ عقیدت و محبت کے جذبات موجود ہیں۔
پھر وقت آگے بڑھا تو حمزہ صاحب کے ساتھ سیاسی و تحریکی رفاقت بھی حاصل ہوئی۔ ہم نے کئی سال تک ایک پلیٹ فارم پر سیاسی اور تحریک جدوجہد میں حصہ لیا۔ ۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا اور ۹ سیاسی جماعتوں کے اس متحدہ محاذ نے نظامِ مصطفٰیؐ کے نفاذ کے عنوان سے انتخابی منشور دے کر اکٹھے الیکشن میں حصہ لیا تو قومی سطح پر پاکستان قومی اتحاد کی قیادت میں مولانا مفتی محمودؒ اور نوابزادہ نصر اللہ خانؒ دو بڑے نام تھے۔ حمزہ صاحب کا تعلق نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کی پاکستان جمہوری پارٹی سے تھا اور میں مولانا مفتی محمودؒ کی جمعیۃ علماء اسلام کا کارکن تھا۔ پنجاب کی سطح پر پاکستان قومی اتحاد کا صوبائی ڈھانچہ تشکیل پایا تو اس میں حمزہ صاحب کو صدر منتخب کیا گیا اور جماعت اسلامی کے پیر محمد اشرف مرحوم سیکرٹری جنرل چنے گئے۔ لیکن بعد میں جب پاکستان قومی اتحاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوہ مرحوم کو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات کی پاداش میں سیکرٹری جنرل کے منصب سے الگ ہونا پڑا تو اس معاملہ میں ان کے شریک کار ہونے کی وجہ سے پیر محمد اشرف مرحوم بھی صوبائی سیکرٹری جنرل کے منصب سے سبکدوش ہوگئے اور ان کی جگہ مجھے قومی اتحاد کا پنجاب سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا گیا۔
پھر جب تک پاکستان قومی اتحاد قائم رہا حمزہ صاحب اس کے صوبائی صدر اور راقم الحروف سیکرٹری جنرل رہے اور کئی برس تک صوبائی سیاست میں ہم دونوں اس حیثیت سے سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔ ہمارے ساتھ صوبائی قیادت میں اقبال احمد خان مرحوم، رانا نذر الرحمان، ملک محمد اکبر ساقی مرحوم، جناب معین الدین مرحوم اور مولانا فتح محمد مرحوم بھی متحرک رہنماؤں کے طور پر شریک رہے۔ یہ تعلق دھیرے دھیرے ذاتی دوستی میں تبدیل ہوگیا اور اس کی گرم جوشی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حمزہ صاحب، رانا نذر الرحمان اور راقم الحروف کی تکون اس وقت بہت معروف ہوئی۔ ہم تینوں اس دور میں زیادہ تر اکٹھے دورے کرتے تھے اور مختلف مسائل اور امور پر ہماری انڈرسٹینڈنگ رہتی تھی۔ رانا نذر الرحمان صاحب نے اپنی یادداشتیں تحریر کی ہیں جو روزنامہ پاکستان کے ہفتہ وار میگزین ’’زندگی‘‘ میں تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں، ان میں اس دور کی بعض تفصیلات بھی موجود ہیں جو میں دلچسپی کے ساتھ پڑھ رہا ہوں اور پرانی یادیں تازہ کر رہا ہوں۔ البتہ رانا صاحب محترم کی یادداشتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر زیرلب یہ مصرع بھی گنگنانے لگتا ہوں کہ:
حمزہ صاحب سادہ منش، قناعت پسند اور اصول پرست رہنما ہیں۔ وہ گوجرہ سے لاہور دو تین روز کے لیے آتے اور دفتر میں رہنا ہوتا تو کبھی کبھی دو تین روز کے لیے گھر سے مولی والے پراٹھے اور بیسنی روٹیاں پکوا کر لاتے تھے اور بازار کی روٹی کھانے سے گریز کرتے تھے۔ ان کا قیام کئی بار رانا نذر الرحمان کے ہاں بھی ہوتا، ایک بار حمزہ صاحب گوجرہ سے آئے تو ان کے پاس تازہ پراٹھوں کا تھیلا موجود تھا۔ اقبال احمد خان مرحوم اور راقم الحروف کو شرارت سوجھی اور ہم دونوں نے مل کر حمزہ صاحب کی غیر موجودگی میں وہ پراٹھے قومی اتحاد کے اجلاس کے شرکا میں تقسیم کر دیے جو حمزہ صاحب کی مجلس میں واپسی تک نمٹائے جا چکے تھے۔ اس پر حمزہ صاحب کے غصے کا منظر دیدنی تھا اور ہم اسے انجوائے کر رہے تھے۔
انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک اس کے انتخابی منشور کی وجہ سے ’’تحریکِ نظامِ مصطفٰیؐ‘‘ کا عنوان اختیار کر گئی تھی۔ اس تحریک نے جب زور پکڑا تو لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا جسے بعد میں ہائیکورٹ نے غیر دستوری قرار دے کر ختم کر دیا۔ اس دوران پاکستان قومی اتحاد کی پوری مرکزی کونسل اجلاس کے دوران گرفتار ہوگئی جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ اور وہ بھی عجیب قصہ ہوا کہ حمزہ صاحب، رانا نذر الرحمان اور راقم الحروف ایک لمبے سفر سے واپس آرہے تھے، لاہور پہنچنے پر ہم ڈیوس روڈ پر قومی اتحاد کے مرکزی دفتر کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ ان دونوں نے یہ کہہ کر مجھے وہاں اتار دیا کہ تم اجلاس میں شریک ہو، ہم تھوڑی دیر میں آرہے ہیں۔ میں اندر پہنچا ہی تھا کہ پولیس نے دفتر کے گرد گھیرا ڈال کر وہاں موجود سب لوگوں کو گرفتار کر لیا اور ہمیں کیمپ جیل لے جا کر مارشل لاء احکام کی خلاف ورزی کے الزام میں ہم پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جس سے ہائیکورٹ کی مداخلت پر ایک ماہ بعد ہمیں رہائی ملی۔
گزشتہ روز اخبارات میں پنجاب سے سینٹ کے لیے بلامقابلہ منتخب ہونے والے بارہ ارکان کی فہرست میں ایم حمزہ کا نام پڑھ کر بہت سی پرانی یادیں ذہن میں تازہ ہونے لگیں تو یہ چند سطور نوکِ قلم پر آگئیں۔ اگرچہ اب ہماری قومی سیاست میں اصول پسند، بے باک اور دیانت دار سیاسی کارکنوں کا کردار ’’محض علامتی‘‘ رہ گیا ہے، پھر بھی اس طرز کے کسی رہنما کو منظر پر دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور حمزہ صاحب کو دوبارہ پارلیمنٹ میں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی کے ساتھ اپنی روایات کا تسلسل جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔