مغرب میں قبولِ اسلام کا بڑھتا ہوا رجحان

   
تاریخ : 
ستمبر ۲۰۰۹ء

بی بی سی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لارڈ برٹ کے بیٹے جوناتھن برٹ نے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا تھا اور اب وہ یحییٰ برٹ کے نام سے اسلام کی دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف ہیں۔چند سال قبل لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے یحییٰ برٹ کے اعزاز میں ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں مولانا محمد عیسٰی منصوری اور دیگر حضرات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی شرکت کی، اس نشست میں یحییٰ برٹ نے اپنے قبولِ اسلام کا واقعہ اور اس کے بعد کے تاثرات بیان کیے جن میں سے ایک بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ یحییٰ برٹ نے کہا کہ مغرب میں اسلام کی دعوت کا وسیع میدان موجود ہے لیکن اس کے لیے آپ کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا اسلوب اختیار کرنا ہو گا کہ لوگوں کے ذہنوں کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں تک بھی رسائی حاصل کی جائے، یعنی عقل و حکمت کے ذریعے اسلام کا تعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اصلاح نفس اور دل کی صفائی کا ذوق بھی بیدار کیا جائے۔

برسوں پہلے کی یہ بات مجھے ہفت روزہ ایشیا ٹربیون نیویارک کے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے شمارے میں یحییٰ برٹ کی ایک رپورٹ کے حوالہ سے شائع ہونے والی خبر پڑھ کر یاد آئی ہے جس کے مطابق یحییٰ برٹ نے مغربی دنیا میں اسلام قبول کرنے والے حضرات کے اعداد و شمار جمع کیے ہیں اور بتایا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد چودہ ہزار سے متجاوز ہے۔یحییٰ برٹ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے اور ایک تفصیلی مقالہ میں ایسے سرکردہ نو مسلم حضرات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے جن میں سابق برطانوی وزیر صحت فرینک ڈولپن کا بیٹا اور جنگ عظیم اول کے دوران کے برطانوی وزیر اعظم ہربرٹ ایسکوتھ کی بیٹی بھی شامل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی تنظیموں کی طرف سے اسلام کی دعوت غیر مسلموں کو زیادہ متوجہ نہیں کرتی بلکہ اسلام کی متوازن تعلیمات اور روحانیت نے زیادہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشہور پاکستانی راہنما عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان نے، جو پہلے کرسٹیان بیکر کہلاتی تھیں، عمران خان کی محبت میں اسلام قبول کیا تھا، لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کا فیصلہ جذباتی تھا لیکن عمران خان سے علیحدگی کے بعد وہ صحیح طور پر مسلمان ہو گئی ہیں، پہلے وہ کھل کر اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرنے سے احتراز کرتی تھیں لیکن اب ایسی بات نہیں ہے۔ وہ صوفیاء کرام کی تعلیمات سے زیادہ متاثر ہیں اور کہتی ہیں کہ اسلام کا بیج ان کے دل میں عمران خان نے بویا تھا لیکن عمران خان سے الگ ہو کر یہ بیج پھلا پھولا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب ملکہ برطانیہ نے بھی اپنے عملہ میں شامل مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کے لیے وقفہ دینے کی منظوری دے دی ہے جس سے فائدہ اٹھانے والوں میں بکنگھم پیلس (شاہی محل) میں وزارت مالیات کے ایک مسلمان افسر بھی شامل ہیں۔

مغربی دنیا میں اسلام قبول کرنے والوں کے بارے میں یحییٰ برٹ کی یہ رپورٹ خاصی دلچسپی کی حامل ہے لیکن اس سے ہٹ کر میرے کچھ ذاتی مشاہدات و تاثرات بھی ہیں جن میں ایک بات بطور خاص قابل توجہ ہے کہ ان میں سے غالب اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو قرآن کریم سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے ہیں۔ بعض نو مسلم شخصیات مثلاً لندن کے یوسف اسلام، اسکاٹ لینڈ کے مورس عبد اللہ، برمنگھم کے محمد یوسف اور کیلیفورنیا امریکہ کی نومسلم خاتون ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن سے ذاتی طور پر مجھے ملنے اور انٹرویو کرنے کا موقع ملا ہے اور ان کے علاوہ بہت سے نو مسلموں کے قبول اسلام کی رپورٹیں میں نے پڑھی ہیں، ان سب میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ انہیں قرآنی تعلیمات نے اسلام کی طرف متوجہ کیا ہے اور وہ قرآن کریم سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال انہی دنوں میں نیویارک اسٹیٹ پولیس کے دو افسران نے اسلام قبول کیا اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا کہ وہ اس بات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے ہیں کہ انسانی زندگی کے روز مرہ عملی مسائل کے بارے میں جس طرح فطری انداز میں قرآن کریم بات کرتا ہے اور کوئی کتاب نہیں کرتی۔

اس لیے اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسی رپورٹوں کا مطالعہ کریں اور ان کی روشنی میں دعوتی ضروریات اور تقاضوں کا جائزہ لے کر اپنے طریق کار، اسلوب اور ترجیحات کا تعین کریں تاکہ دعوتِ اسلام کے کام کو زیادہ مؤثر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے۔ اسی طرح دینی مدارس اور علمی مراکز کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس طرح قرآن و سنت کی تعلیم و تدریس کا اسلوب طے کرتے وقت مسلم امہ کی داخلی ضروریات اور مسلکی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت و پیغام پہنچانے، نو مسلموں کی تعلیم و تربیت اور انہیں سنبھالنے کی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھیں اور اس کے لیے رجالِ کار کی تیاری کو اپنے نصاب و نظام میں شامل کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter