جیو ٹی وی کے بلال قطب کا انٹرویو

   
جیو ٹی وی
۲۰۱۲ء

(جیو ٹی وی کے پینل پروگرام ’’عالم آن لائن‘‘ سے ماخوذ)

بلال قطب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اللہم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد۔ خواتین و حضرات! میں بلال قطب، مولانا زاہد الراشدی! السلام علیکم، سر! خیریت سے ہیں آپ؟ علامہ صاحب! میں آپ کی توجہ اس طرف دلواؤں کہ جو صاحبِ کرم کا ایک لقب ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا، پہلے تو یہ فرما دیجئے کہ اللہ کریم ہے، پھر صاحبِ کرم کا جو لقب آپؐ کو ملا اس کی تشریح کیا ہوگی؟

جواب: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کرم کے حوالے سے ایک بات تو حضرت پیر علامہ صاحب نے فرمائی ہے جود و کرم کے وسیع تر معنی میں۔ لیکن اس کے معنی میں ایک بات ابتسام بھائی نے کہی ہے کہ اس کا ایک معنی احسان بھی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی خود اس کائنات پر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور سب سے بڑا احسان ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات نسل انسانی پر اور کائنات پر اتنے زیادہ ہیں جو شمار نہیں کیے جا سکتے، حضورؐ خود بھی سراپا احسان ہیں، اور سوسائٹی کے پسے ہوئے طبقات پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات تاریخ جب گنتی ہے تو آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ ایک شخصیت نے دنیا کے نظام کو کیسے بدل دیا۔

میں بیسیوں حوالوں میں سے ایک حوالہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جب بچی، بیٹی زندہ درگور کی جاتی تھی اور عورت کو زندگی کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد صورتحال کیا تھی؟ ہمارے عربی ادب کا مشہور دیوان ہے ’’دیوانِ حماسہ‘‘ اس میں ایک واقعہ ہے کہ ایک سردار کے پاس کوئی شخص رشتہ مانگنے کے لیے گیا تو اس نے جواب دیا کہ بھئی! دیکھو مجھ سے رشتہ مانگنے کیوں آئے ہو، اب تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں ’’غدا الناس مذقام النبی الجواریا‘‘ جب سے یہ پیغمبر آیا ہے اب دنیا میں عورتیں ہی عورتیں ہیں، لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں، مجھ سے رشتہ مانگنے کیوں آئے ہو؟ تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو زندگی بخشی، حضورؐ نے غلام کو عزت بخشی، کمزور طبقات کو حضورؐ نے معاشرے کے مقابل لا کر کھڑا کیا۔

دیکھیے، ایک بات پر آپ غور فرمائیے کہ حضورؐ کا سب سے بڑا احسان پسے ہوئے طبقات پر مظلوم طبقات پر کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غرباء بیٹھے تھے، عمار بن یاسرؓ تھے، عبداللہ بن مسعود ؓ تھے، بلالؓ تھے اور حضرت صہیبؓ تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تو قریش کے سرداروں کا ایک گروپ آیا اور کہا جناب! ان کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے، آپ ان کو اٹھائیں گے (تو ہم بیٹھیں گے)۔ اللہ پاک نے فرما دیا کہ نہیں جناب! یہ آپ کے ساتھ رہیں گے اور ان کو آپ نہیں اٹھائیں گے، اور بتایا کہ وہ آتے ہیں تو ان کی مرضی، نہیں آتے تو ان کی مرضی، آپ ان کو سلام کہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ساری کائنات پر ہے لیکن سب سے زیادہ سوسائٹی کے پسے ہوئے طبقات پر کہ انہوں نے معاشرے میں انہیں دوسروں کے برابر کھڑا کیا اور بتایا کہ یہ بھی انسان ہیں اور ان کے بھی حقوق ہیں۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جود و سخا اور آپ کا لطف و کرم اور آپ کے احسانات کے بیسیوں پہلو ہیں۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ایک جود و سخا کا پہلو وہ ہے جو افراد کے ساتھ تھا ، اپنے معاشرے کے ساتھ تھا ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو د و سخا کا ایک پہلو وہ ہے جو انسانیت پر تھا، جو اجتماعیت کے ساتھ تھا اور جو سوسائٹی کے ساتھ تھا۔ قرآن پاک نے اس کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے ’’ویضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم‘‘۔ حضورؐ جب تشریف لائے ہیں تو آپ کے بعثت کے مقاصد میں یہ ہے کہ انسانیت کے سروں سے بوجھ کو اتاریں اور زنجیروں کو توڑیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے معاشرے پر جو صدیوں سے بوجھ چلے آ رہے تھے وہ بوجھ ہٹائے اور غلامی اور جبر کی زنجیریں توڑیں۔ اس کا ایک پہلو عرض کرنا چاہوں گا فتح مکہ کے حوالے سے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا حکم دیا تو مکہ میں کہرام مچ گیا کہ ایک غلام شخص ہے، غلامی سے آزاد ہوا ہے اور اس کو مکہ مکرمہ ( خانہ کعبہ) کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دینے کی بات کہی جا رہی ہے۔ اس پر ایک قریشی سردار نے جو یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس منظر کی تاب نہیں لا سکا ، اس نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور اپنے باپ کو یاد کر کے کہتا ہے کہ میرے باپ! تو بڑا خوش نصیب ہے کہ یہ منظر دیکھنے کے لیے زندہ نہیں ہے اور ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑ رہا ہے۔

اسی فتح مکہ کے موقع پر حضرت وحشی بن حربؓ جب آئے ہیں جناب نبی کریم کے سامنے، یا رسول اللہ! میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ فرمایا قبول ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ! میں حمزہ کا قاتل ہوں۔ فرمایا قبول ہے۔ کہا یا رسول اللہ! …… فرمایا ٹھیک ہے ’’الاسلام یھدم ما کان قبلھا‘‘ اسلام پہلے کے سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ صرف ایک بات کہی حضورؐ نے، وہ طبعی بات تھی کہ وحشی! تجھے دیکھ کر مجھے وہ چچا کی یاد آتی ہے، وہ منظر یاد آتا ہے، تو وحشیؓ نے بھی پھر (کہا) یا رسول اللہ! آج کے بعد آپ میرے چہرے پر نظر نہیں ڈالیں گے، آج کے بعد میں آپ کو نظر نہیں آؤں گا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اتنے جو سراسر دشمن تھے، جنہوں نے راستے میں کانٹے بچھائے تھے……

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بخاری شریف کی روایت ہے کہ جب مکہ میں تھے تو ہم عورت کی رائے کو، اس کی پوزیشن کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔ جب مدینہ منورہ پہنچے، انصار کے ساتھ ملے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمارے سامنے آئیں تو ہمیں پتہ چلا کہ عورت کے بھی کوئی حقوق ہیں، اس کی بھی کوئی رائے ہے، اس کی بھی کوئی حیثیت ہے۔ تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی کو عورت کے مقام سے، عورت کے حقوق سے اور عورت کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ حضرت عمرؓ یہ اعتراف فرماتے ہیں کہ ہمیں اسلام کے آنے سے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے اور مدینہ منورہ کی زندگی میں ہمیں معلوم ہوا کہ عورت کے بھی حقوق ہیں اور اس کی بھی رائے کا حق ہے۔

2016ء سے
Flag Counter