جیو ٹی وی کے حامد میر کا انٹرویو

   
جیو ٹی وی
۲۰۱۱ء

(جیو ٹی وی کے پینل پروگرام ’’کیپیٹل ٹاک‘‘ سے ماخوذ)

حامد میر: السلام علیکم۔ کیپیٹل ٹاک کے ساتھ حامد میر آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ پاکستان کے جید علماء نے ایک دفعہ پھر ایک فتویٰ دیا ہے اور اس فتوے میں کہا ہے کہ پاکستان کے اندر خود کش حملے ناجائز اور حرام ہیں۔ پاکستان کے جید علماء اس سے پہلے بھی اس قسم کے فتوے دے چکے ہیں، خود کش حملوں کو ناجائز اور حرام قرار دے چکے ہیں، لیکن تین چار سال سے خود کش حملوں کا سلسلہ پاکستان میں جاری ہے۔ علماء کے فتووں کے باوجود خود کش حملے کیوں نہیں رکے؟ یہ علماء کی ناکامی ہے یا حکومت کی ناکامی ہے؟ اس پر آج ہم نے بات کرنی ہے، ملک کے ہم نے انتہائی جید اور قابل احترام علماء کو اپنے اس پروگرام میں گفتگو کے لیے دعوت دی ہے۔ ہمارے ساتھ موجود ہیں جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب، جو کہ پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل ہیں   —   زاہد الراشدی صاحب! آپ بھی اس پریس کانفرنس میں موجود تھے، مفتی سرفراز نعیمی صاحب نے جس پریس کانفرنس میں لاہور میں یہ کہا تھا کہ خود کش حملے ناجائز ہیں۔ سوال ہمارا یہ ہے کہ یہ جو فتوے ہیں اس قسم کے، یہ پہلے مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے بھی دیا، مفتی رفیع عثمانی صاحب نے بھی دیا، اور بھی بہت سے علماء نے یہ فتویٰ پچھلے تین چار سال میں بار بار دیا۔ اور اب آپ نے ایک بڑے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کو اکٹھا کر کے یہ فتویٰ دیا ہے، سوال میرا آپ سے یہ ہے کہ یہ فتوے پہلے بھی دیے گئے، اب آپ نے ایک دفعہ پھر دیا ہے، لیکن خودکش حملے نہیں رک رہے، کیا یہ آپ لوگوں کی ناکامی نہیں ہے؟

جواب: میر صاحب! میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ دو باتیں اس میں توجہ طلب ہیں جن پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ ایک بات یہ ہے کہ خود کش حملہ ہے کیا؟ میں سمجھتا ہوں کہ خود کش حملہ ایک جنگی ہتھیار ہے جو مظلوم بے بس قومیں آخری مرحلے میں ایک آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا کرتی ہیں۔ جیسے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جاپانیوں نے استعمال کیا ہے، برٹش نے استعمال کیا ہے اور ہم نے چونڈا میں استعمال کیا ہے۔ یہ جنگی ہتھیار ہے، ہتھیار میدانِ جنگ میں استعمال ہو تو جائز ہوتا ہے اور اگر سول ماحول میں استعمال ہو تو جرم بن جاتا ہے۔ اس لیے بطور ہتھیار کے اس کی حیثیت اور ہے اور ملک کے اندر اس کے استعمال کی حیثیت اور ہے۔

ملک کے اندر اس کے استعمال کی حیثیت اور کیوں ہے؟ اس میں ایک بڑا اصولی سا سوال ہے جو ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر سسٹم کو چیلنج کر کے، ہتھیار اٹھا کر کسی چیز کا، دین کا یا شریعت کا مطالبہ کرنا، یہ درست ہے؟ اس کا مدار اس پر ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے یا نہیں ہے؟ ایک اصولی بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظریاتی طور پر پاکستان اسلامی ریاست ہے، دو حوالوں سے : اس حوالے سے کہ یہ اسلام کے لیے بنا ہے۔ دوسرے اس حوالے سے کہ پاکستان کا دستور قرارداد مقاصد کی بنیاد پر ہے اور پاکستان کے دستور میں اسلام کو ریاستی مذہب تسلیم کیا ہوا ہے۔ پاکستان کا دستور قرآن و سنت کے نفاذ کی گارنٹی دیتا ہے، پاکستان کا دستور قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کے بنانے سے پارلیمنٹ کو روکتا ہے۔ یہ نظری پوزیشن میں عرض کر رہا ہوں۔ جب تک پاکستان کے دستور میں قراردادِ مقاصد موجود ہے، اسلام ریاست کے سرکاری مذہب (کے طور پر) موجود ہے، جب تک قرآن و سنت کے نفاذ کی گارنٹی موجود ہے، جب تک قرآن و سنت کے (خلاف قانون کے) نفاذ سے پارلیمنٹ کی ممانعت موجود ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نظریاتی طور پر اسلامی ریاست ہے۔

عملی طور پر صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اصل میں تضاد کہاں پیدا ہوا ہے کہ ملک نظریاتی طور پر اسلامی ریاست ہے اور عملی طور پر ہماری اسٹیبلشمنٹ آج تک اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس تضاد نے یہ کنفیوژن جنم دیا ہے۔ جو لوگ ہتھیار اٹھا رہے ہیں وہ پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں سمجھ رہے، اس کی ذمہ داری بیوروکریسی پر ہے، اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔ لیکن اصولی پوزیشن یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اسلامی ریاست کے اندر اپنے مطالبات کے لیے جمہوری ذرائع، آئینی ذرائع اختیار کرنا درست ہے، لیکن ہتھیار اٹھانا درست نہیں ہے۔ کل بھی یہی موقف تھا ، آج بھی یہی موقف ہے، اور جب تک پاکستان کے دستور کی بنیاد اسلام پر ہے، ہمارا موقف یہی رہے گا۔

سوال: زاہد الراشدی صاحب! آپ یہ بتائیے کہ، گفتگو کو آگے بڑھانے سے پہلے،افغانستان کے طالبان اور یہ جو پاکستان میں لوگ طالبان کا نام استعمال کر رہے ہیں، ان میں کیا فرق ہے؟

جواب: میں نے پہلے بھی گزارش کی تھی پچھلے پروگرام میں کہ افغانستان کے طالبان اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ ایک جائز ان کا مقصد ہے اور اس کے لیے (جدوجہد کر رہے ہیں) ، لیکن پاکستان میں طالبان کا نام پاکستان کی ریاست کے سسٹم کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، جسے ہم درست نہیں سمجھتے۔ مطالبے کو درست سمجھتے ہیں ، ان کے تمام مطالبات کو درست سمجھتے ہیں، شریعت کے نفاذ کو، علاقے کے مسائل کو، لیکن طریقہ کار کو ہم درست نہیں سمجھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہاں کا تناظر اور ہے ، یہاں کا تناظر اور ہے اور یہی میرے نزدیک بنیادی فرق ہے۔

2016ء سے
Flag Counter