حدود آرڈیننس اور موجودہ عدالتی نظام

   
نومبر ۱۹۹۷ء

حکومتِ پاکستان کے قائم کردہ خواتین حقوق کمیشن کی سفارشات پر مدیر محترم کا تبصرہ آپ ’’نصرۃ العلوم‘‘ کے اسی شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ اس ضمن میں صرف ایک سفارش کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے جس میں مذکورہ کمیشن نے ’’حدود آرڈیننس‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ قوانین ملک میں جرائم کو ختم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اس لیے انہیں ختم کر دیا جائے۔

’’حدود‘‘ معاشرتی جرائم زنا، شراب نوشی، قذف، چوری، ڈکیتی وغیرہ کی ان متعین شرعی سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو قرآن کریم، سنتِ نبویؐ اور اجماعِ صحابہؓ سے ثابت ہیں۔ پاکستان میں ان سزاؤں کا نفاذ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ’’حدود آرڈیننس‘‘ کے نام سے ہوا تھا۔ اور ان کے بارے میں ’’خواتین حقوق کمیشن‘‘ کی مذکورہ سفارش کے اس پہلو سے ہم متفق ہیں کہ ان کے نفاذ کے بعد جرائم میں کمی نہیں آئی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ گزارش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس میں حدود کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شرعی سزاؤں کے نفاذ کے لیے انگریزی قانونی نظام کو وسیلہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے شرعی سزاؤں کا عملاً نفاذ ہی نہیں ہو سکا، ورنہ

  • انہی شرعی سزاوں کا نفاذ سعودی عرب میں موجود ہے اور وہاں جرائم کی شرح ترقی یافتہ ممالک کی بہ نسبت بہت کم ہے۔
  • اور انہی شرعی قوانین کے نفاذ کی وجہ سے افغانستان میں طالبان کو یہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے کہ خانہ جنگی اور غربت و افلاس کی انتہا کے باوجود ان علاقوں میں مکمل اور مثالی امن ہے جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔

اس لیے یہ کہنا قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے کہ پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ کا تجربہ ناکام ہو گیا ہے۔ اور سپریم کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں قائم ایک کمیشن نے یہ کہہ کر اسلامی قوانین اور اصولوں کی توہین کی ہے، کیونکہ یہ ناکامی عدالتی سسٹم کی ناکامی ہے جو خود کو شرعی قوانین کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر سکا، اور اب اپنی ناکامی کو شرعی قوانین کے سر تھوپ کر ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کا مصداق بن کر رہ گیا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter