فرانس میں ان دنوں اسکارف کا مسئلہ قومی مسائل میں سرفہرست حیثیت اختیار کر چکا ہے اور فرانس کے صدر اور وزیر اعظم کے اعلانات کے مطابق اس مقصد کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جا رہی ہے کہ فرانس میں مسلم خواتین کے لیے سر پر اسکارف لینے کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے۔ دوسری طرف سینکڑوں مسلم خواتین نے پیرس میں گزشتہ روز مظاہرہ کیا ہے جس میں اسکارف پر مجوزہ پابندی کے خلاف نعرے لگائے گئے ہیں اور مسلم خواتین نے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اسکارف پر پابندی کا قانون ان کی آزادی اور انسانی حقوق کے منافی ہوگا۔
فرانس میں مسلمان دوسری بڑی آبادی کی حیثیت رکھتے ہیں اور مسلم خواتین سکولوں اور دفاتر میں اسکارف کے ذریعے سر کو ڈھانپتی ہیں جو ان کے نزدیک شرعی پردے کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ وہ اس طرح ایک اسلامی حکم پر عمل کرتی ہیں۔ لیکن ان کے اس عمل کو مذہبی روایت کی نمائش قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فرانس چونکہ سیکولر ملک ہے جس میں مذہبی روایات و اقدار کی کھلے بندوں نمائش کی اجازت نہیں ہے اس لیے ایک اسلامی حکم کی نمائندگی کرنے والے اسکارف کی سرکاری اداروں میں اجازت نہیں ہونی چاہیے اور اسی مقصد کے لیے قانون سازی کے ذریعہ اس پر پابندی کی بات کی جا رہی ہے۔
فرانس اس مغربی فلسفہ اور تہذیب کا بانی ملک ہے جسے آزادی، عورت اور مرد کی مساوات، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا فلسفہ کہا جاتا ہے کیونکہ انقلاب فرانس سے اس فلسفہ و ثقافت اور نظام تہذیب نے اپنے عملی سفر کا آغاز کیا تھا۔ لیکن عورت کی آزادی کا سب سے پہلا نعرہ لگانے والے فرانس میں آج عورت کے اس حق کی نفی کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سر ڈھانپنا چاہے تو ڈھانپ لے اور عورت کے اس حق کو یہ عنوان دے کر چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کا سر ڈھانپنا ایک مذہبی روایت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اگر مذہب سے بغاوت کر کے اس سے آزادی حاصل کرنا چاہے تو مغرب کا فلسفہ اس کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے لیکن اگر عورت کسی مذہبی قدر اور روایت کی طرف واپس آنا چاہے تو مغرب کے نظام میں اس کے اس حق کو تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہمارے خیال میں یہ بات ان کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے جو مغرب کے فلسفہ و ثقافت کے بارے میں ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ نظام فی الواقع آزادی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور دنیا کے ہر انسان کو اس کے عقیدہ اور کلچر کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق دیتا ہے، کیونکہ فرانس میں اسکارف کے نام پر ہونے والی ثقافتی کشمکش نے ایک بار پھر اس حقیقت کو واشگاف کر دیا ہے کہ مغرب کا فلسفہ آزادی اور انسانی حقوق کی نہیں بلکہ آسمانی تعلیمات سے بغاوت اور بنیادی انسانی اقدار کی پامالی کا فلسفہ ہے۔ خدا کرے کہ اس حقیقت کو وہ دانشور بھی سمجھ سکیں جو مسلم معاشرہ اور سوسائٹی میں مغربی فلسفہ و نظام کی ترویج کے لیے اپنی صلاحیتیں، توانائیاں اور وقت برباد کرتے جا رہے ہیں۔