دعوتِ اسلام کے حوالے سے میں تین پہلوؤں پر بات کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ اسلام کی دعوت کی بنیادی حیثیت و نوعیت کیا ہے۔ دوسری بات اس الزام کی حقیقت کو واضح کرنا کہ رسول اللہؐ نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا تھا اور یہ کہ اسلام دنیا میں طاقت کے بل پر پھیلا ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ اسلام کی دعوت اور دوسروں کو اسلام کی طرف بلانے کے حوالے سے رسول اللہؐ کا طریقہ کار کیا تھا۔
دعوتِ اسلام کی بنیادی حیثیت و نوعیت
جناب رسالت مآب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم الصلواۃ والتسلیمات بھی دنیا میں آئے ان کی نبوت علاقہ، قوم اور وقت کے لحاظ سے محدود تھی۔ بنی اِسرائیل میں حضرت یعقوب علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تقریباً تین ہزار پیغمبر آئے، ان سب پیغمبروں کی نبوت بنی اسرائیل کے خاندان اور قوم کے لیے مخصوص تھی۔ حضرت لوطؑ ، حضرت صالحؑ ، حضرت شعیبؑ اور جن دیگر انبیاء کا ذکر آتا ہے یہ اپنے اپنے علاقے اور قوم کے لیے نبی ہوئے ہیں۔ مثلاً حضرت یونسؑ ایک شہر نینوا کے پیغمبر ہوئے۔ اسی طرح علاقہ کے لحاظ سے بھی پیغمبر آئے ہیں کہ ایک ہی وقت میں کئی کئی پیغمبر مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف مبعوث ہوئے۔ حضرت موسٰیؑ اور حضرت شعیبؑ دونوں بیک وقت اپنی قوم کے پیغمبر تھے، دونوں خسر داماد بھی تھے کہ حضرت موسٰیؑ کی شادی حضرت شعیبؑ کی بیٹی سے ہوئی۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوطؑ بھی بیک وقت پیغمبر تھے، حضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے تھے، دونوں کی نبوت کے دائرے الگ الگ تھے۔ چنانچہ حضورؐ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرامؑ کی نبوتیں علاقے کے لحاظ سے بھی محدود تھیں، نسلی اعتبار سے بھی محدود تھیں اور وقت کے اعتبار سے بھی محدود تھیں۔ جناب رسول اللہؐ کی نبوت علاقے، نسل اور وقت کسی لحاظ سے بھی محدود نہیں ہے۔ آنحضرتؐ کی نبوت دنیا کے تمام علاقوں کے لیے ہے، تمام اقوام کے لیے ہے اور قیامت تک کے وقت کے لیے ہے۔
یہ عمومی رسالت اللہ تعالیٰ نے صرف جناب نبی کریمؐ کو عطا فرمائی اور اسے آپؐ نے اپنی خصوصیات میں ذکر فرمایا ’’أعطیت بست لم یعط أحد قبلی ۔۔۔ أرسلت الی الخلق کافۃ‘‘ یعنی مجھے چھ باتیں ایسی ملی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں۔ ان میں سے ایک بات یہ فرمائی کہ مجھے تمام نسل انسانی کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دنیا میں مختلف مذاہب رائج چلے آرہے ہیں جن میں بڑے مذاہب آسمانی کتابوں کے حوالے سے ہیں۔ دنیا کے بیشتر بڑے مذاہب دعوت کے مذاہب نہیں ہیں، جیسے یہودی مذہب ایک نسلی مذہب ہے کہ وہ اپنے مخصوص خاندان اور اولاد سے باہر کسی کو اپنے مذہب کی دعوت نہیں دیتے، یہودیوں کا دنیا میں کہیں بھی عمومی دعوتی مرکز نہیں ہے۔ اسی طرح ہندو وطنی مذہب ہے، وہ دوسرے علاقوں کے لوگوں کو ہندو بننے کی دعوت نہیں دیتے بلکہ ان کے ہاں تو صدیوں سے بہت سے طبقات چلے آرہے ہیں جن کی بنیاد معاشرتی امتیازات پر ہے۔ عام ہندو کے لیے ان کی مذہبی کتاب وید کو چھونا تک منع ہے۔ ہندوؤں کا مذہب بھی دعوتی مذہب نہیں ہے یہ وطن کی بنیاد پر چلے آرہے ہیں۔ اسی طرح مجوسی جو کہ دنیا میں بہت کم تعداد میں موجود ہیں وہ بھی کسی غیر مجوسی کو مجوسی بننے کی دعوت نہیں دیتے۔
البتہ عیسائی دنیا بھر میں حضرت عیسٰیؑ کی تعلیمات کے حوالے سے دعوت دیتے ہیں، حالانکہ آج کے دور کی تحریف شدہ اور تبدیل شدہ بائبل میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واضح ہدایات موجود ہیں کہ میں صرف بنی اسرائیل کے پاس بھیجا گیا ہوں، بنی اسرائیل کے سوا میری دعوت کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ حتیٰ کہ متی میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عیسٰیؑ تشریف فرما تھے کہ ایک خاتون آئی اور اس نے کوئی مسئلہ پوچھا، حضرت عیسٰیؑ نے جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر پوچھا کہ آپ نیک آدمی ہیں میں آپ سے مسئلہ پوچھنا چاہتی ہوں، حضرت عیسٰیؑ نے پھر جواب نہیں دیا۔ اس نے جب تیسری بار پوچھا تو فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس بھیجا گیا ہوں اس کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ وہ خاتون بنی اسرائیل کی نہیں تھی بلکہ کسی اور خاندان کی تھی۔ انجیل کی بہت سی آیات ہیں جن میں حضرت عیسٰیؑ کی واضح ہدایات ہیں کہ ہمارا مذہب بنی اسرائیل تک محدود ہے۔ چنانچہ عیسائی جو آج دنیا میں عیسائیت کی دعوت دیتے ہیں تو وہ حضرت عیسٰیؑ کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
اسلام ایک عالمگیر دعوتی مذہب
اسلام آسمانی مذاہب میں سے واحد مذہب ہے جس کی دعوت پوری نسل انسانی کے لیے، دنیا کے تمام علاقوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔ جناب نبی کریمؐ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا‘‘ (سورۃ الاعراف ۱۵۸) (اے پیغمبر) کہہ دیجیے کہ اے لوگو ! میں تمام انسانوں کے لیے اللہ کا رسول ہوں۔ نسل انسانی کی طرف جناب نبی کریمؐ کی نبوت عام ہے اس لیے اسلام کی دعوت کسی خاص علاقے، نسل اور وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کی دعوت کی بنیادی حیثیت ہے۔
دعوتِ اسلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ جناب رسول اللہؐ صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ جِنّوں کے لیے بھی نبی تھے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ’’تبارک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہٖ لیکون للعالمین نذیرًا‘‘ (سورۃ الفرقان ۱) کہ برکت والی ہے وہ ذات جس نے قرآن کریم اپنے بندے پر اتارا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے خبردینے والا ہو۔ عالمین سے مراد انسان اور جن ہیں۔ جن ایک علیحدہ اور مستقل مخلوق ہے، جن اور انسان دونوں مکلف مخلوق ہیں۔ جس طرح نبی کریمؐ انسانوں کے لیے نبی ہیں اسی طرح آپؐ جنوں کے لیے بھی نبی ہیں۔ جن بھی جناب نبی کریمؐ کے امتی ہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے ’’قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قراٰنًا عجبًا۔ یھدی الی الرشد فاٰمنا بہ ولن نشرک بربنا احدًا‘‘ (سورۃ الجن ۱۔۲) آپ (ان لوگوں سے) کہیے کہ میرے پاس اس بات کی وحی آئی ہے کہ جنات میں سے ایک جماعت نے قرآن سنا، پھر (اپنی قوم میں واپس جا کر) انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست بتلاتا ہے سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے اور ہم (اب) اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔ یہ آیات اس واقعہ کے متعلق نازل ہوئیں کہ ایک دفعہ نبی کریمؐ چند صحابہؓ کے ہمراہ مکہ کے باہر ایک کھلی جگہ پر فجر کی نماز ادا فرما رہے تھے صبح کا پُر سکون اور پرُ نور وقت تھا، جناب نبی کریمؐ کی زبان مبارک پر اللہ کا کلام تھا، آپؐ قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اسی اثناء میں جنوں کا ایک گروہ وہاں سے گزرا تو آپؐ کو تلاوت کرتا دیکھ کر رک گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنوں کا وہ گروہ ہم نے وہاں بھیجا تھا ’’واذ صرفنآ الیک نفرًا من الجن یستمعون القراٰن فلما حضروہ قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الٰی قومھم منذرین‘‘ (سورۃ الاحقاف ۲۹) اور جبکہ ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف لے آئے جو قرآن سننے لگے تھے، غرض جب وہ لوگ قرآن کے پاس آپہنچے تو کہنے لگے کہ خاموش رہو، پھر جب قرآن پڑھا جا چکا تو وہ لوگ اپنی قوم کے پاس خبر پہنچانے کے واسطے واپس گئے۔ اس سے اگلی آیات میں اس بات کا ذکر ہے کہ انہوں نے جا کر اپنی قوم سے کہا کہ ہم وہ کتاب سن کر آئے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے، پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اللہ کے اس پیغمبر کا کہنا مانو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ۔ چنانچہ جناب نبی کریمؐ کی نبوت عالمین کے لیے یعنی جنوں اور انسانوں کے لیے ہے، یہی دونوں مخلوقیں مکلف ہیں باقی مخلوقات مکلف نہیں ہیں۔
رسول اللہؐ کی نبوت اور دعوت پوری نسل انسانی کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے، چنانچہ جس طرح حضورؐ کے باقی فرائض امت کو منتقل ہوئے ہیں اسی طرح دعوت کا فرض بھی امت کو منتقل ہوا ہے۔ آپؐ کے پیروکار بحیثیت امت اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ قرآن کریم اور سنتِ رسول کی شکل میں اللہ تعالیٰ کا پیغام نسل انسانی تک پہنچائیں۔ اگر امت میں دعوت کا یہ عمل جاری رہے گا تو امت بری الذمہ ہوگی لیکن اگر کسی دور میں امت میں دعوت کا یہ عمل رک جائے گا یعنی نسل انسانی تک اسلام کا پیغام پہنچنے کا عمل معدوم ہو جائے گا تو نتیجے میں بحیثیت امت پوری امت مسلمہ گناہگار ٹھہرے گی۔ یہ دعوت اسلام کی اصولی حیثیت ہے۔
رسول اللہؐ ، تاریخ انسانی کی کامیاب ترین شخصیت
مؤرخین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ نسل انسانی میں کوئی شخصیت ایسی نہیں گزری کہ جس نے اتنے مختصر عرصے میں اپنی جدوجہد کے نتائج حاصل کیے ہوں، ایسی شخصیت جس نے صرف ۲۳ سال کے عرصے میں اپنے مشن کو اعلان کے مرحلے سے لے کر کامیابی کے مرحلے تک پہنچایا ہو۔ رسول اللہؐ نے نبوت ملنے سے کچھ عرصہ بعد صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر سرعام دعوت دی تھی، گویا یہ آپؐ کے مشن کا اعلان تھا ’’یا ایھا الناس، قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا‘‘ کہ اے لوگو! کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔ اور پھر اس کے تقریباً ۲۲ سال بعد صفا کے قریب منیٰ میں کھڑے ہو کر حضورؐ نے اعلان فرمایا ’’فزت و رب کعبہ‘‘ رب کعبہ کی قسم میں اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ رسول اللہؐ نے یہ اعلان کیا کہ میں نے جس مشن کا آغاز کیا تھا آج اس کے نتائج حاصل کر لیے ہیں۔ پھر آپؐ نے اپنی کامیابی پر لوگوں کو بھی گواہ بنایا ’’وانتم تسألون عنی فما انتم قائلون؟ قالوا نشہد انک قد بلغت وادیت ونصحت فقال باصعبہ السبایہ یرفعہا الی السماء وینکتہا الی الناس اللّٰھم اشھد اللّٰھم اشھد اللّٰھم اشھد ثلاث مرات‘‘ (مسلم ۲۱۳۷) کہ تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، پس تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا اور پوری خیر خواہی کے ساتھ ذمہ داری ادا کر دی۔ رسول اللہؐ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اس کے ساتھ لوگوں لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہا اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔
جناب رسول اللہؐ تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کے اجتماع سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں کہ کل قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ہم نے اپنا پیغمبر بھیجا تھا اس نے تم تک میری بات پہنچائی یا نہیں۔ صحابہؓ نے اس پر گواہی دی کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سونپی گئی یہ ذمہ داری نبھا دی ہے۔ چنانچہ اکیس بائیس سال کے مختصر عرصے میں رسول اللہؐ نے ایک مشن شروع کیا اور اپنی زندگی میں ہی اس مشن کی کامیابی کا اعلان فرمایا۔ اور یہ کامیابی ایسی نہیں تھی کہ ایک آدمی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں بلکہ تاریخ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ ایک عظیم کامیابی تھی۔ ایک مغربی مصنف نے کتاب لکھی ہے ’’دنیا کے سو بڑے آدمی‘‘۔ اس کتاب میں اس نے پہلے نمبر پر جناب نبی کریمؐ کا تذکرہ کیا ہے، پھر مصنف نے دیباچے میں لکھا ہے کہ لوگ مجھ سے یہ بات پوچھیں گے کہ تم نے عیسائی ہو کر محمدؐ کو پہلے نمبر کی شخصیت کیوں قرار دیا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اس کے سوا چارہ ہی نہیں ہے اس لیے کہ خود میرے طے کردہ میرٹ پر تاریخ میں اور کوئی شخصیت پہلے نمبر پر نہیں ہے۔
اسلام پر دنیا میں بزور طاقت پھیلنے کا الزام
دنیا اس بات کا اقرار تو کرتی ہے کہ اتنے مختصر عرصے میں اتنی وسیع تر کامیابی حضورؐ کے علاوہ اور کسی شخصیت کو نہیں ملی لیکن اس سے اگلی بات کہ یہ کامیابی رسول اللہؐ نے کیسے حاصل کی، اس میں بیشتر غیر مسلم مصنفین دیانت داری کا مظاہرہ نہیں کرتے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک وقت آگیا تھا جب محمدؐ کے ساتھ تلوار والے اور طاقتور لوگ اکٹھے ہوگئے تھے، چنانچہ یہ لوگ جدھر جاتے تھے مار دھاڑ کرتے تھے جس کے نتیجے میں لوگ ان کے ڈر سے اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔ یورپ کے مؤرخین نے حضورؐ کی کامیابی کی یہ توجیہ کی ہے کہ محمدؐاور صحابہؓ کے دور میں اسلام کی کامیابی تلوار اورطاقت کا کرشمہ ہے لیکن یہ دعویٰ خلاف واقعہ ہے اور حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ جو لوگ حضورؐ کی دعوت کے دور سے واقف ہیں وہ یہ بات جانتے ہیں کہ اس دور میں تلوار حضورؐ کے ہاتھ میں نہیں تھی بلکہ ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں تھی۔ حضورؐ کی دعوت کا دور مکہ کا تیرہ سالہ دور ہے۔ کوئی ان مؤرخین سے پوچھے کہ کیا جناب نبی کریمؐ کے اولین اور سب سے پختہ ساتھیوں نے تلوار کے زور پر اسلام قبول کیا؟ اسلام اگر تلوار کے زور سے پھیلا ہے تو وہ لوگ جنہوں نے حضورؐ کے اس تیرہ سالہ مکی زندگی میں اسلام قبول کیا، ان کے قبولِ اسلام کے بارے میں ان مؤرخین کے پاس کیا توجیہ ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جناب نبی کریمؐ اور ان کے ساتھیوں نے پہلے تو کئی سال تک اپنے دفاع کے لیے بھی تلوار نہیں اٹھائی، وہ مکہ کے ظالموں کو اپنے صبر و حوصلہ کے ساتھ شکست دینے میں کامیاب ہوئے، اس کے بعد مدینہ منورہ میں انہوں نے ظلم اور نا انصافی کی سرکوبی کا سلسلہ عرب و عجم تک پھیلایا۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کا قبول اسلام
یہ وقت تو وہ تھا کہ رسول اللہؐ کا تین سال تک شعب ابی طالب میں محاصرہ رہا۔ تمام قبائل کی طرف سے حضورؐ کا سوشل بائیکاٹ تھا، انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ بنو ہاشم سے یعنی حضورؐ اور ان کے خاندان سے لین دین نہیں کریں گے، نہ رشتہ دیں گے، نہ رشتہ لیں گے، نہ خوشی غمی میں شریک ہوں گے اور نہ ساتھ اٹھیں بیٹھیں گے۔ جناب نبی کریمؐ نے تین سال اس کیفیت میں گزارے، اس دور میں بھی لوگ مسلمان ہوئے۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ اپنے اسلام قبول کرنے کا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں، وہ اپنے دور میں عرب کے بڑے دلیر خاندان کے فرد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس خاندان کے قریب سے گزرنے والا کوئی قافلہ صحیح سلامت بچ کے نہیں نکلتا تھا۔ حضورؐ کے اعلان نبوت سے پہلے حضرت ابوذر غفاریؓ موحد تھے اور بت پرستی سے نفرت تھی، فرماتے ہیں کہ میں اپنے ذوق کے مطابق اللہ کی عبادت بھی کرتا تھا، کبھی رکوع کر لیتا، کبھی سجدہ کر لیتا۔ جب مجھے پتہ چلا کہ مکے میں ایک آدمی ہے جو بت پرستی سے نفرت کرتا ہے اور اس نے نبوت کا اعلان کر رکھا ہے، میں نے اپنے بھائی کو بھیجا کہ جا کر حالات معلوم کر کے آؤ۔ مکہ مکرمہ سے شام جاتے ہوئے راستے میں بنو غفار کا قبیلہ پڑتا ہے، بھائی مکہ گیا اور حالات معلوم کر کے آیا۔ اس نے بتایا کہ ان صاحب کا نام یہ ہے، ان کے والد کا نام یہ ہے اور اس طرح نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ کہ مکہ کے مقامی لوگوں نے ان کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ میری تشفی نہ ہوئی، میں نے مکہ مکرمہ خود جانے کا فیصلہ کیا۔ میں مکہ پہنچ کر حرم میں بطور مسافر جا کر بیٹھ گیا جیسا کہ عام رواج تھا۔ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب (حضرت علیؓ) آئے اور پوچھا کہ اے مسافر کہاں سے آیا ہے؟ حضرت علیؓ کا ذوق یہ تھا کہ وہ شام کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کے لیے مسافر ڈھونڈا کرتے تھے۔ حضرت علیؓ انہیں ساتھ لے گئے اور لے جا کر کھانا کھلایا۔ ابو ذر غفاریؓ واپس آکر حرم میں سو گئے۔ دوسرے دن حضرت علیؓ پھر دیکھنے گئے کہ کوئی مسافر ہو کھانا کھانے والا، دیکھا کہ وہی مسافر پھر بیٹھا ہے۔ پوچھا کہ کیا مسافر کو اپنی منزل کا ابھی پتہ نہیں چلا؟ ابوذرؓ کہنے لگے کہ ابھی پتہ نہیں چلا۔ حضرت علیؓ نے کہا آؤ میرے ساتھ۔ کھانا کھایا اور واپس آکر پھر سو گئے۔ بعض روایات میں دوسری رات اور بعض روایات کے مطابق تیسری رات پھر یہی ہوا کہ حضرت علیؓ کسی مسافر کی تلاش میں آئے تو دیکھا کہ وہی شخص بیٹھا ہوا ہے۔ پوچھا کہ اللہ کے بندے تم نے کہیں جانا نہیں؟ کہا کہ نہیں۔ حضرت علیؓ پھر ساتھ لے گئے اور پوچھا کہ اصل بات کیا ہے، کیوں مسلسل یہاں بیٹھے ہو۔ ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ یہاں مکہ میں حضورؐ کا مخالف کون ہے اور حمایتی کون ہے، میں حضرت علیؓ کو بھی نہیں جانتا تھا۔ میں نے میزبان سے کہا کہ اگر تم اعتماد کرو اور رازداری کا وعدہ کرو تو میں تم سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں ایمانداری کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان راز رہے گا۔ اس پر حضرت ابو ذر غفاریؓ نے بتایا کہ میں اس شخص کی تلاش میں آیا ہوں جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بھئی تم صحیح آدمی کے پاس پہنچے ہو۔
رسول اللہؐ اپنے ٹھکانے پر شعب ابی طالب میں محصور تھے، حضرت علیؓ نے کہا کہ تمہیں حضورؐ سے ملانے کے لیے تھوڑی منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔ میں صبح آکر تمہیں لے جاؤں گا، تم میرے پیچھے پیچھے چلنا، اگر راستے میں مجھے کوئی خطرہ محسوس ہوا کہ کسی کو ہم پر شک ہوگیا ہے تو میں جوتا صحیح کرنے کے بہانے بیٹھ جاؤں گا، تم سیدھا نکل جانا تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ ہم دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ خیر دونوں رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش ہوئے۔ ابو ذر غفاریؓ نے بتایا کہ میں آپ ہی کی طرح موحد ہوں، ایک اللہ کو مانتا ہوں اور بت پرستی سے نفرت کرتا ہوں، مجھے آپ کے متعلق معلوم ہوا ہے تو میں آپ کی دعوت کے متعلق دریافت کرنے آیا ہوں۔ حضورؐ نے اپنی دعوت بتائی، اس پر حضرت ابو ذر غفاریؓ نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے۔ پھر حضورؐ سے پوچھا کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ بہتر یہ ہے کہ تم اپنی قوم میں چلے جاؤ اور جا کرلوگوں کو دین کی بات بتاؤ، جب کوئی نئی بات ہوگی تو میں تمہیں اطلاع کروں گا۔ کہنے لگے کہ یا رسول اللہؐ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنے اسلام کا اعلان نہ کر کے جاؤں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تمہاری مرضی پر ہے لیکن میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اپنی قوم میں جاؤ۔
حرمِ مکہ میں لوگ اکٹھے ہوتے تھے، حضرت ابو ذر غفاریؓ نے وہاں جا کر اعلان کیا کہ اے لوگو! میرایہ نام ہے اور فلاں قبیلے سے آیا ہوں تاکہ تم مجھے پہچان لو۔ میں نے محمد رسول اللہؐ کا کلمہ پڑھ لیاہے اور اس پر میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں۔ لوگوں نے یہ سنا تو انہیں پکڑ کر مارنا شروع کر دیا، کوئی گھونسہ مار رہا ہے، کوئی لات مار رہا ہے اور کوئی ڈنڈا مار رہا ہے۔ حضرت ابو ذر غفارؓ مار کھاتے جا رہے ہیں اور کہتے جا رہے ہیں کہ میں نے کلمہ پڑھ لیا ہے لا الہ الا اللّٰہ۔ حضرت عباسؓ نے یہ معاملہ دیکھ لیا، وہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے لیکن صاحبِ بصیرت آدمی تھے اور معاملات کو سمجھتے تھے۔ لوگوں سے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو، یہ بنو غفار کا آدمی ہے، اگر اسے کچھ ہوگیا تو تمہارا تجارت کا راستہ بند ہو جائے گا۔ حضرت عباسؓ نے حضرت ابو ذر غفاریؓ کو ان لوگوں سے چھڑوایا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے آکر حضورؐ کی خدمت میں بتایا کہ یہ معاملہ ہوا ہے۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ اس دور میں مسلمان ہوئے جب رسول اللہؐ کا سوشل بائیکاٹ تھا۔سوال یہ ہے کہ اگر اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے تو حضرت ابو ذرغفاریؓ کو کس تلوار نے مسلمان کیا؟ یہ نہ مکہ کے رہنے والے تھے، نہ حضورؐ کے رشتہ دار تھے اور حضورؐ کے ساتھ کوئی تعلق داری بھی نہیں تھی۔ کسی کے بتانے پر کہ فلاں شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، باہر سے آئے اور آکر اپنی تسلی اور اعتماد کے بعد اسلام قبول کیا۔
یمنی قبیلے کے سردار طفیلؓ بن عمرو دَوسی کا قبول اسلام
حضورؐ کی مکی زندگی میں دعوت اسلام کے اس دور میں ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا جنہیں حضورؐ سے ملنے سے بھی روکا جاتا تھا۔ یمن کا ایک قبیلہ تھا بنو دوس، اس کے سردار تھے طفیل بن عمرو دوسیؓ، اپنے وقت کے بڑے شاعر تھے۔ مکہ مکرمہ میں حج یا عمرہ کے لیے آئے، مکہ کے لوگوں کو معلوم ہواکہ یمن کا ایک سردار آیا ہے تو ازراہِ ہمدردی ابو جہل نے کہا کہ طفیل! تم آئے ہو تو تمہیں خبردار کردوں کہ ہمارے ہاں ایک جادوگر ہے، وہ بڑی عجیب عجیب باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے دین سے برگشتہ کر دیتا ہے۔ تمہیں ہماری نصیحت یہ ہے کہ ایسی صورت اختیار کرو کہ اس کی بات تمہارے کان میں نہ پڑے۔ طفیلؓ کہتے ہیں کہ مجھے لوگوں نے اتنا ڈرایا کہ میں نے اپنی کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ جب میں مکہ کی گلیوں میں گھومتا تھا تو کانوں میں روئی ٹھونس لیتا تھاکہ کہیں اس جادوگر کی کوئی آواز میرے کان میں نہ پڑ جائے۔ لیکن جو آواز مقدر میں تھی، اسے کون روک سکتا تھا۔ ایک دن حرم میں جا رہے تھے، جناب نبی کریمؐ نماز میں یا ویسے ہی قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے۔ طفیلؓ کے کان میں آواز پڑی تو سوچا کیا فرق پڑتا ہے تھوڑی دیر سن ہی لیتے ہیں، دیکھیں تو سہی کہ یہ کلام کیا کہتا ہے۔ کانوں سے روئی نکالی اور کھڑے ہوگئے، چند آیات سنیں تو کہنے لگے کہ نہ تو یہ شعر ہیں، اس لیے کہ میں خود شاعر ہوں اور جانتا ہوں کہ شعر کسے کہتے ہیں، اور نہ یہ جادو ہے ایسا کلام تو میں نے زندگی میں کبھی سنا ہی نہیں۔ حضورؐ فارغ ہوئے تو یہ حضورؐ کے پاس پہنچ گئے اور پوچھا کہ کیا آپ ہی محمدؐ ہیں، مجھے تو لوگوں نے بہت ڈرایا تھا۔ آپؐ مجھے اپنے کلام میں سے مزید کچھ سنائیں، حضورؐ نے چند آیات مزید تلاوت کر دیں، طفیلؓ نے فوراً کہا کہ مجھے کلمہ پڑھائیے۔ یہ بے انصاف مؤرخین بتلائیں کہ طفیل بن عمرو دوسیؓ کو کس تلوار نے مسلمان کیا؟
اور حضرت عمر بن الخطابؓ تو اسلام کو مٹانے کے لیے گھر سے نکلے تھے اور تلوار ان کے ہاتھ میں تھی۔ جناب نبی کریمؐ نے مکہ کے تیرہ سالہ دور میں اسلام کی دعوت دی، یہ مظلومیت کا دور تھا۔ حضرت خبابؓ جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مظالم حد سے بڑھ گئے ہیں۔ فرمایا صبر کرو۔ کہا یا رسول اللہ! کہاں تک صبر کریں۔ حضرت خبابؓ کا مالک انہیں جلے ہوئے کوئلوں پر لٹا کر اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتا تھا، ان کی چربی پگھل کر کوئلوں میں گھل جاتی تھی۔ حضورؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمایا صبر کرو۔ یہ صبر اور مظلومیت کا دور تھا۔ حضرت زبیر بن العوامؓ کا چچا انہیں چٹائی میں باندھ کر چھت کے ساتھ الٹا لٹکا دیتا تھا اور پورے محلے کی گندگی نیچے اکٹھی کر کے اس کو آگ لگا دیتا تھا۔ حضرت بلالؓ کو مکہ کے بچے گلیوں میں پتھروں اور ریت میں گھسیٹتے پھرتے تھے اور وہ ’’احد احد احد‘‘ پکارتے جاتے تھے۔ رسول اللہؐ کی دعوت کو اگر قبولِ عام حاصل ہوا تو وہ اسلام کی سچائی کی بنا پر ہوا۔ نبی کریمؐ کا کردار، آپؐ کااخلاق اور قرآن کریم کی عظمت، یہ اسلام کی دعوت کاباعث ہوئے۔ ورنہ پہلے تیرہ سالہ دور میں تلوار تو دوسری طرف کے لوگوں کے پاس تھی۔چنانچہ یہ الزام کے جناب نبی کریمؐ کی دعوت تلوار کے زور سے پھیلی ہے، غلط بات ہے۔
امریکہ کی ایک پروفیسر کا قبولِ اسلام
قرآن کریم آج بھی معجزہ ہے۔ امریکہ میں ایک محترم نومسلم خاتون ہیں ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن، انہوں نے اسلام قبول کیا۔ سین ڈیویگو یونیورسٹی میں فلسفے کی استاد تھیں، انہوں نے عربی ، اردو، فارسی اور گورومکھی، چار زبانیں سیکھیں۔ شاہ ولی اللہ ؒ پر پی ایچ ڈی کی۔ پاکستان کے ایک پروفیسر صاحب کے ساتھ ان کی شادی ہوئی۔ میرے چچا محترم صوفی عبد الحمید سواتی ؒ کا بھی حضرت شاہ ولی اللہؒ پر خاصا کام ہے، ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن کو صوفی صاحب کی کتابوں سے استفادہ کا موقع ملا۔ وہ ایک دفعہ اپنے خاوند کے ساتھ پاکستان آئیں تو گوجرانوالہ میں صوفی صاحب سے ملاقات کے لیے بھی آئیں۔ میں بھی ملاقات میں تھا۔ خاتون نے اپنی گفتگو میں صوفی صاحب سے بہت سے سوالات پوچھے اور مسائل کے متعلق دریافت کیا۔ صوفی صاحب نے بھی ان خاتون سے ایک سوال کیا کہ اللہ کی بندی تم خود کفیل ہو، عقل مند خاتون ہو کہ فلسفے کی پروفیسر ہو اور ہم مسلمانوں میں بھی آج کے دور میں کشش کی ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جسے دیکھ کر تم مسلمان ہوئی ہو، تم کیسے مسلمان ہوگئی؟ خاتون نے جواب دیا کہ مجھے کسی مسلمان نے مسلمان نہیں کیا اور میں کسی مسلمان کو دیکھ کر مسلمان نہیں ہوئی۔
خاتون نے کہا کہ مجھے تو قرآن کریم نے مسلمان کیا ہے، پھر انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا واقعہ سنایا۔ بتایا کہ میں نے فلسفے میں ایم اے کیا تھا اور مجھے ذہنی طور پر سکون نہیں تھا۔ میں کبھی کسی یونیورسٹی میں کسی کورس کے لیے چلی جاتی اور کبھی کسی دوسری یونیورسٹی میں کسی دوسرے کورس کے لیے چلی جاتی، کہیں سکون نہیں ملتا تھا۔ میں نے اسی کیفیت میں اسپین کی یونیورسٹی میں ایک کورس کر رہی تھی، ایک دن ہاسٹل میں ریڈیو سن رہی تھی کہ ایک اسٹیشن پر عجیب سی آواز آئی، زبان اجنبی تھی لیکن مجھے آواز میں کشش محسوس ہوئی۔ میں نے اگلے دن پھر اسی اسٹیشن پر یہی آواز سنی، اسی طرح دو چار دن سنتی رہی، آواز سننے کو جی چاہتا تھا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے اور زبان کونسی ہے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ یہ مراکش کا ریڈیو ہے اور مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کریم جو کہ عربی میں ہے، اس کی تلاوت ہو رہی ہے۔ کہتی ہیں کہ میں نے قرآن مجید کا انگلش ترجمہ منگوا کر پڑھا۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ پہلے عربی زبان سیکھوں گی، پھر قرآن کریم کو اس کی اصل زبان میں پڑھوں گی اور پھر فیصلہ کروں گی۔ چنانچہ میں نے قاہرہ یونیورسٹی میں دو سال تک عربی زبان سیکھی، پھر قرآن کریم کا مطالعہ کیا، اس طرح قرآن کریم نے مجھے مسلمان کیا ہے۔
دعوتِ اسلام اور حضورؐ کا اسوہ
اسلام کی مقبولیت کی وجہ قرآن کریم کا اعجاز اور جناب نبی کریمؐ کے سیرت و کردار کی اپنی قوت تھی۔ اسلام قرآن کی صداقت پر اور رسول اللہؐ کے کردار کی سچائی پر پھیلا ہے۔ جناب نبی کریمؐ کی اسلام کے لیے جو دعوت تھی، اس کے بارے میں رسول اللہؐ کا اصول کیا تھا اور آپؐ نے اس بارے میں کیا ہدایات دیں؟ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا ’’قال رب انی دعوت قومی لیلًا ونھارًا۔ فلم یزدھم دعآءی الّا فرارًا‘‘ (سورۃ نوح ۵۔۶) (آخر) نوحؑ نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو رات کو بھی اور دن کو بھی (دین حق کی طرف) بلایا۔ سو میرے بلانے پر (دین سے) اور زیادہ بھاگتے رہے۔
جناب نبی کریمؐ کی دعوت کی کیفیت بھی یہ تھی کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ’’لعلک باخع نفسک الّا یکونوا مؤمنین‘‘ (سورۃ الشعراء ۲) شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے پر (رنج کرتے کرتے) اپنی جان دے دیں گے۔ یعنی آپ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالیے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہوتے، یہ تو مقدر کی بات ہے، یعنی آپ لوگوں کو زبردستی مسلمان نہیں کر سکتے۔ آپ کا کام تو یہ ہے کہ اپنی طرف سے حق بات بیان فرما دیجئے، اب جس کا جی چاہے مسلمان ہو اور جس کا جی چاہے مسلمان نہ ہو۔ ’’وقل الحق من ربکم فمن شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر‘‘ (سورۃ الکہف ۲۹) اور آپ کہہ دیں سچی بات جو آپ کے رب کی طرف سے ہے، پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے۔ داعی کے دل میں انسانوں کے ایمان کے لیے تڑپ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں حضورؐ کو لوگوں کے ایمان کے بارے میں حریص قرار دیا۔ رسول اللہؐ کے دل میں یہ خواہش حرص کے درجے کی بات تھی کہ دنیا اسلام پر اور ہدایت پر آجائے، فرمایا ’’حریص علیکم‘‘ (سورۃ التوبہ ۱۲۸) کہ تمہاری بھلائی میں وہ حریص ہیں۔ حرص خواہش کا آخری درجہ ہوتا ہے جسے دنیاوی معاملات میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، دنیا کے معاملات میں حرص ہو تو یہ قابل تعریف چیز نہیں ہے۔ لیکن رسول اللہؐ دین کے معاملے میں، دعوت کے معاملے میں اور لوگوں کے ایمان قبول کرنے کے معاملے میں حریص تھے۔
حضورؐ خود فرماتے ہیں کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے جیسے نابینا لوگوں کا ایک گروہ بھاگے جا رہا ہو اور ان کے آگے ایک بہت بڑا گڑھا ہو جس میں آگ جل رہی ہو۔ ایک بینا یعنی دیکھنے والا آدمی یہ منظر دیکھتا ہے تو دوڑا ہوا آتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ کے بندو یہ کس طرف بھاگے جا رہے ہو، رک جاؤ، ورنہ آگ میں جل کر مر جاؤ گے۔ وہ بینا آدمی اس کوشش میں ہے کہ ان میں سے کوئی آگ کے گڑھے میں نہ گر جائے۔ فرمایا تم سب دوزخ کی آگ کی طرف بھاگے جا رہے ہو اور مجھے یہ منظر نظر آرہا ہے، تم جہنم کی یہ آگ دیکھ نہیں رہے ہو لیکن میں دیکھ رہا ہوں۔ تم اس کی طرف بھاگے جا رہے ہو اور میں تمہیں آوازیں دیتا جا رہا ہوں کہ خدا کے لیے اس طرف مت بھاگو، آگے آگ ہے۔ اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’حریص علیکم‘‘ کہ محمدؐ تمہارے ایمان کے معاملے میں حریص ہیں۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے لوگوں کے ایمان کی خواہش اس درجے میں کی۔ ایک مرتبہ آپؐ نے حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ اے علی! اگر ایک آدمی بھی تمہاری وجہ سے مسلمان ہو جائے تو تمہارے لیے سرخ اونٹوں کی دولت سے بھی بہتر ہے ’’لأن یھدی اللّٰہ بک رجلًا۔۔۔ خیر لک من حمر النعم او کما قال صلی اللّہ علیہ وسلم‘‘۔
رسول اللہؐ کی دعوت کا اسلوب یہ تھا کہ دعوت دینے والے کے اپنے دل میں تڑپ ہو کہ میں نے نسل انسانی کو آگ سے بچانا ہے۔ وہ تمام انسانوں کو اپنے بھائی سمجھے اور ہر ممکن کوشش کرے کہ وہ جہنم کی طرف جانے والے راستے سے ہٹ جائیں۔ یہ جناب نبی کریمؐ کا اسوہ ہے کہ پوری نسل انسانی کے لیے انسان کے دل میں تڑپ موجود ہو کہ نسل انسانی کو ہدایت کے راستے پر لانا اور آگ اور جہنم سے بچانا میری ذمہ داری ہے۔ داعی کا اندازِ گفتگو جناب نبی کریمؐ نے جس لب و لہجے میں اسلام کی دعوت دی، آپؐ کی زبان کی مٹھاس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا جو کہ خیر خواہی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اس لیے کہ خیرخواہی میٹھی زبان سے ہی ہوگی اور نرمی سے ہوگی۔ آپ کسی کو غلط راستے سے بچانا چاہتے ہیں اور اپنے راستے پر لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس شخص کو یہ اعتماد حاصل ہونا چاہیے کہ دعوت دینے والا میرا خیر خواہ ہے۔ لیکن اگر دعوت دینے والے کی گفتگو ایسی ہو کہ سننے والا اس سے شرمندگی یا ہتک محسوس کرے تو وہ دعوت قبول کرنے پر کیسے آمادہ ہوگا؟ دعوت کا پہلا اصول یہ ہے کہ دعوت خیر خواہی کے جذبے سے اور خیرخواہی کے انداز سے دی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ کو فرعون کے پاس بھیجا ’’اذھب الٰی فرعون انہ طغٰی‘‘ (سورۃ طہ ۴۲) جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ وہ فرعون جس نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا تھا اور وہ فرعون جو کہتا تھا ’’وقال فرعون یاھامان ابن لی صرحًا لعلی ابلغ الاسباب۔ اسباب السماوات فاطلع الٰی الٰہ موسٰی وانی لاظنہ کاذبًا‘‘ (سورۃ المؤمن ۳۶) اور فرعون نے کہا، اے ہامان میرے واسطے ایک بلند عمارت بنواؤ، شاید میں آسمان پر جانے کی راہوں تک پہنچ جاؤں۔ پھر (وہاں جا کر) موسٰیؑ کے خدا کو دیکھوں اور میں تو موسٰیؑ کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ ایک لمبی سی عمارت بناؤ جس پر چڑھ کر میں اس خدا کو دیکھوں جس کا موسیٰؑ دعویٰ کرتا ہے، مجھے تو یہ بات جھوٹی لگتی ہے۔ وہ فرعون جس کا دماغ یہاں تک پہنچ چکا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے پاس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کو یہ کہہ کر بھیجا ’’فقولا لہ قولًا لینًا لعلہ یتذکر او یخشٰی‘‘ (سورۃ طہ ۴۲) پھر اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید وہ (برغبت) نصیحت قبول کر لے یا (عذاب الٰہی سے) ڈر جائے۔ یعنی فرعون جیسا سرکش آدمی جس نے خدا ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا، اس کے پاس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا اور ہدایت کی کہ نرمی کے ساتھ بات کرنا۔ چنانچہ یہی دعوت کا اسلوب ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے یہ تعلیم دی کہ دعوت کی زبان خیر خواہی کی زبان ہونی چاہیے کہ سننے والا خیر خواہی کا جذبہ محسوس کرے۔
ایک مرتبہ حضرت حسنؓ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ وہ وضو تو کر رہا ہے لیکن ٹھیک طریقے سے نہیں کر رہا۔ ہمارا آج کل کا طریقہ یہ ہے کہ ہم سیدھا منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بھئی بوڑھے ہوگئے ہو ابھی تک وضو کرنا نہیں آیا۔ اگر ہم نرمی کا طریقہ بھی اختیار کرتے ہیں تو اتنا تو کہہ ہی دیتے ہیں کہ باباجی کسی سے وضو کرنا ہی سیکھ لیا ہوتا۔ حضرت حسنؓ نے بزرگ کو ان کی غلطی بتانے کا کیا خوبصورت طریقہ اختیار کیا، بزرگ سے کہا کہ باباجی میں بچہ ہوں، آپ ذرا میرا وضو دیکھیں کہ کہیں میرے وضو میں کوئی غلطی تو نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے سامنے بیٹھ کر وضو کیا، بزرگ کہنے لگے کہ بیٹا تمہارا وضو تو ٹھیک ہے میرے وضو میں گڑبڑ ہے۔
مخاطب کی ذہنی سطح اور نفسیات کا لحاظ جناب نبی کریمؐ نے تو ہر انداز سے دعوت دی ہے، مخاطب نے جس انداز میں بات سمجھنا چاہی حضورؐ نے اسی انداز میں بات سمجھائی۔ حضرت رکانہؓ جو ایک پہلوان تھے وہ کیسے مسلمان ہوئے؟ ہر آدمی اپنے فن کی زبان سمجھتا ہے، وہ حضورؐ کے پاس آئے اور کہا کہ میں تب آپ کو نبی مانوں گا جب آپ مجھے کشتی میں پچھاڑیں گے۔ حضورؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ نبوت کا کشتی سے کیا تعلق؟ حضورؐ کھڑے ہوئے، کشتی لڑی اور پچھاڑ دیا۔ رکانہؓ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ میں تو اتفاقاً ایسا ہو جاتا ہے، آپ میرے ساتھ دوبارہ کشتی لڑیں۔ حضورؐ نے دوسری بار بھی پچھاڑ دیا۔ رکانہؓ کہنے لگے کہ ایک بار اور لڑیں۔ چنانچہ تین بار کشتی لڑی اور حضورؐ نے تینوں بار کامیابی حاصل کی، اس پر رکانہؓ نے اسلام قبول کر لیا۔ رکانہؓ کو دلیل اور منطق کی زبان نہیں آتی تھی، وہ کشتی کی زبان ہی سمجھتے تھے۔ جناب نبی کریمؐ نے لوگوں کو ان کی زبان میں مخاطب کیا ہے اور ان کی نفسیات کے مطابق ان کے ساتھ ڈیل کیا۔ اسی حوالے سے ایک اور واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ایک دفعہ رسول اللہؐ مکہ مکرمہ میں اپنے چچا ابو طالب کے پاس بیٹھے تھے، عرب سرداروں کا ایک وفد آیا، بڑے بڑے سردار تھے جن میں ابو جہل بھی تھا۔ سب نے حضورؐ پر تنقید شروع کر دی اور شکایات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ابو جہل نے بالآخر حضورؐ سے پوچھا کہ بھتیجے! تم کہنا کیا چاہتے ہو، تمہارا مقصد کیا ہے؟ بات تو دعوت پر ہورہی تھی کہ حضورؐ لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور بت پرستی وغیرہ سے منع فرماتے ہیں۔ ابوجہل نے کہا کہ بھتیجے دو ٹوک بات کرو کہ تم جو باتیں کہہ رہے ہو، یہ باتیں اگر ہم مان لیں تو ان کا نتیجہ کیا ہوگا۔ رسول اللہؐ نے کیا جواب دیا؟ فرمایا کہ میں ایک کلمہ آپ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اگر یہ کلمہ آپ لوگ قبول کر لو تو عرب پر بھی تمہاری حکومت قائم ہوگی اور عجم بھی تمہارے قبضے میں ہوگا۔ یہ رسول اللہؐ نے قریش کے سرداروں کو جواب دیا۔ اب کلمے کے نتائج میں صرف یہی نتیجہ تو نہیں ہے کہ حکومت قائم ہو جائے، کلمے کا اصل نتیجہ تو جنت ہے۔ لیکن یہی بات جب مدینہ منورہ میں ثابت بن قیس انصاریؓ نے پوچھی تو انہیں حضورؐ نے کیا جواب دیا؟ ثابت بن قیسؓ نے حضورؐ سے فرمایا کہ ہم آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح ہم اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا ، جنت ملے گی۔ ثابتؓ نے کہا، ہم راضی ہیں۔ یعنی ابو جہل نے نتیجہ پوچھا تو جواب دیا کہ اس کے بدلے میں حکومت ملے گی، لیکن ثابت بن قیسؓ نے نتیجہ دریافت کیا تو فرمایا کہ جنت ملے گی۔ حضورؐ نے ہر مخاطب کی نفسیات کے مطابق اسے جواب دیا۔ ثابت بن قیسؓ کو ان کی نفسیات کے مطابق جواب دیا اور ابو جہل کو اس کی نفسیات کے مطابق جواب دیا۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ اسلام کی دعوت دیتے وقت مخاطب کی نفسیات اور ذہنی سطح دیکھتے تھے کہ یہ کونسی زبان اور کونسا اسلوب سمجھتا ہے۔
جس طرح رسول اللہؐ دوسرے علاقوں میں وفد بھیجتے تھے اسی طرح حضورؐ کے پاس بھی دوسرے علاقوں سے وفد آتے تھے۔ عرب کا مشہور قبیلہ ہے بنو تمیم، یہ بڑا چوہدری قسم کا قبیلہ تھا، ان کا وفد مدینہ منورہ میں رسول اللہؐ کے پاس آیا۔ اس زمانے کا اسلوب یہ تھا کہ جب کوئی وفد دوسرے قبیلے کے پاس جاتا تھا تو وہ اپنا شاعر اور اپنا خطیب ساتھ لے کرجاتا تھا۔ باقاعدہ مذاکرات سے پہلے خطیب اور شاعر کا مقابلہ ہوتا تھا، وفد کا خطیب اپنی قوم کے خصائل بیان کرتا تھا کہ ہم یہ ہیں، ہم وہ ہیں۔ اسی طرح شاعر اپنی شاعری میں اپنے آباؤ اجداد، اپنے بڑوں اور اپنے نامور افراد کے کارناموں کا ذکر کرتا تھا۔ جواب میں میزبان قبیلے کا خطیب اور شاعر اپنے قبیلے کی تعریف بیان کرتا تھا، اس کے بعد پھر باقاعدہ گفتگو شروع ہوتی تھی۔ بنو تمیم کا وفد بھی ایسا اَکھڑ تھا کہ آکر حجرہ مبارکہ کے باہر سے ہی آواز دی یا محمد أخرج الینا کہ اے محمدؐ باہر آکر ہماری بات سنیں۔ حضورؐ باہر تشریف لائے اور پھر ملاقات کے لیے بٹھایا۔ أقرع بن حابسؓؓ جو بنو تمیم کے وفد کی قیادت کر رہے تھے، ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے وفد کے خطیب سے کہا کہ اٹھو اور بات شروع کرو، اس نے اٹھ کر اپنی قوم کے فضائل و مناقب بیان کیے۔ نبی کریمؐ کے خطیب تھے ثابت بن قیسؓ ، حضورؐ نے خود ان کا لقب رکھا تھا خطیب الاسلام۔ حضورؐ نے ثابتؓ سے کہا کہ اٹھو اور جواب دو، ثابت بن قیسؓ اٹھے اور اسلام اور حضورؐ کے مناقب بیان کیے۔ اس کے بعد اقرع بن حابسؓ نے اپنے وفد کے شاعر سے کہا کہ اٹھ کر اپنا کلام کہو، اس نے اٹھ کر اپنے قبیلے کی بہادری اور کارناموں کو شاعری میں بیان کیا۔ حضورؐ نے جواب میں اپنے شاعر حسّان بن ثابتؓ سے کہا کہ اٹھو اور اپنا کلام کہو۔ حسّان بن ثابت اپنے دور کے چوٹی کے شاعر تھے اور حضورؐ کے ذاتی شاعر تھے، انہیں شاعر رسول اللّٰہ کا لقب حاصل تھا۔ چنانچہ وہ اٹھے اور اشعار میں اسلام کے مناقب اور حضورؐ کی مدح بیان کی۔ جب مذاکرات پورے ہوئے تو وفد کے سربراہ اقرع یہ کہہ کر اٹھے کہ بخدا محمدؐ کا خطیب بھی ہمارے خطیب سے بڑا ہے اور محمدؐ کا شاعر بھی ہمارے شاعر سے بڑا ہے۔ یہ میں نے اس لیے عرض کیا کہ رسول اللہؐ کی دعوت کا اسلوب یہ تھا کہ جو زبان مخاطب سمجھتا تھا ، اسی زبان میں آپؐ اس سے بات کرتے تھے، یہ دعوت کا بنیادی اسلوب ہے۔
آج کی گفتگو میں پہلی بات میں نے یہ عرض کی کہ جناب نبی کرمؐ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرامؑ کسی خاص علاقہ، قوم یا مخصوص عرصہ کے نبی تھے اور یوں ان کی نبوت کا دائرہ کار بھی علاقہ، قوم یا کسی خاص وقت محدود تھا۔ لیکن جناب رسول اللہؐ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تمام علاقوں ، تمام قوموں اور قیامت تک کے لیے نبوت عطا کی۔ یوں آپؐ کی شریعت قیامت تک آنے والے نسل انسانی کے تمام طبقات کے لیے ہے۔
دوسری بات میں نے یہ عرض کی کہ وہ غیر مسلم مؤرخین جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر اور طاقت کے بل پر دنیا میں پھیلا ہے، ان کا یہ دعویٰ انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ مکہ میں نبی کریمؐ کی دعوت کا پہلا تیرہ سالہ دور انتہائی مظلومیت کا اور دعوتِ اسلام کی راہ میں رکاوٹوں کا دور تھا، اس دور میں بھی بہت سے مقامی اور غیر مقامی لوگ قرآن کریم کی عظمت اور حضورؐ کے کردار سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے اور ان لوگوں نے بھی اپنی زندگیوں کو پیش مشکلات و خطرات کا سامنا اسی طرح کیا جس طرح خود جناب نبی کریمؐ نے اپنی ذات کے حوالے سے کیا۔ جبکہ تلوار کا استعمال حضورؐ اور ان کے اصحابؓ نے پہلے تو اپنے دفاع میں اور بعد میں انصاف پر مبنی حکومت قائم کرنے کے لیے استعمال کیا، ایسی حکومت جس کی بنیاد وحی الٰہی اور جناب نبی کریمؐ کے اعلیٰ اخلاق و کردار پر تھی۔ پھر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مشرق بعید انڈونیشیا، ملائیشیا وغیرہ کی طرف مسلمانوں کا کبھی کوئی لشکر جنگ کے لیے نہیں گیا لیکن وہاں کروڑوں مسلمان بستے ہیں جو عرب کے مسلمان تاجروں کے کردار اور اخلاق سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے تھے۔
تیسری بات میں نے یہ عرض کی کہ دعوتِ اسلام کے حوالے سے رسول اللہؐ کا طرزِ عمل کیا تھا۔ پہلا یہ کہ داعی کے دل میں نسل انسانی کے لیے ہمدردی ہو اور ان کو مسلمان بنانے کے لیے تڑپ ہو۔ دوسرا یہ کہ داعی کا لب و لہجہ نرم اور اندازِ گفتگو شفیقانہ ہو تا کہ جسے دعوت دی جارہی ہو ، وہ داعی کو اپنا خیرخواہ سمجھے۔ تیسرا یہ کہ جسے دعوت دی جا رہی ہے اس کی ذہنی سطح اور نفسیات کا لحاظ کیا جائے اور یہ تسلی کی جائے کہ مخاطب تک اصل بات پہنچ گئی ہے۔