(جمعۃ المبارک کے بیان میں تعزیتی کلمات)
ہمارے ایک بہت اچھے ساتھی، میرے تو نصف صدی سے ساتھی تھے، ملک کے اہم سیاسی علماء میں سے تھے، مولانا حافظ حسین احمد صاحب، کل ان کا انتقال ہو گیا ہے (انا للہ وانا الیہ راجعون) ہماری پچاس سال کی رفاقت، میں کوئٹہ ان کے پاس جایا کرتا تھا، وہ بھی میرے پاس آیا کرتے تھے۔ بلکہ ان کی یاد آ گئی ہے تو ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں (مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں سحری اور افطاری کے وقت) گولا چلتا ہے، اب چلتا ہے کہ نہیں؟ کسی زمانے میں بڑا خوفناک ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بڑے (بم) دھماکے وغیرہ ہوتے تھے تو حافظ صاحب آئے ہوئے تھے، سامنے کمرے میں، اب ان کو پتہ نہیں تھا کہ یہاں گولا چلتا ہے۔ شام کو ہم افطاری میں بیٹھے ہوئے ہیں، گولے کی ٹھاہ ہوئی تو حافظ صاحب اٹھ کر دوڑے، کیا ہوا؟ میں نے کہا کچھ نہیں ہوا، روزہ کھلا ہے۔ یہ سامنے کمرے میں۔
مجھے اب ان کی باتیں یاد آتی ہیں، بڑے ظریف الطبع آدمی تھے، بڑے اچھے بزرگ تھے، آخری عمر بڑی بیماری میں گزاری ہے، شوگر کے مریض تھے، ان کا کل انتقال ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں، سینٹ کے ممبر بھی رہے ہیں، حکومت کا حصہ بھی رہے ہیں، اپوزیشن میں بھی رہے ہیں، بڑے ظریف الطبع بزرگ تھے، بڑی ہلکی پھلکی بات کیا کرتے تھے مزاحیہ انداز میں، اور بڑا کام کا جملہ ہوتا تھا جو کہتے تھے۔
بہرحال مجھے ذاتی طور پر بھی صدمہ ہے کہ میرے بہت پرانے رفیق، ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اور ملک کے دینی حلقوں کے لیے بھی یہ بڑی صدمے کی بات ہے۔ سمجھدار عالم ہو، موقع محل سمجھتا ہو، اور موقع محل کے مطابق بات کہہ سکتا ہو، یہ اب بات بہت کم ہوتی جا رہی ہے۔ موقعے کو سمجھنا، موقعے کے مطابق بات کرنا، لوگوں کی راہنمائی کرنا، حافظ صاحبؒ اس مزاج کے بزرگ تھے، دعا کریں اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، ان کے درجات جنت بلند سے بلند تر فرمائیں، ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔