حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی مرحوم کا مکان نذر آتش کر دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو واقعات ۱۲ ربیع الاول کے روز پیش آئے ہیں ان پر ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود یقین نہیں آ رہا کہ پاکستان میں اور پھر فیصل آباد میں ایسا بھی ہو سکتا ہے اور اس دن ہو سکتا ہے جو ایسا کرنے والوں کے خیال میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے حوالہ سے خوشی اور عید کے طور پر منایا جانا چاہیے اور وہ اپنے طور پر اس کی ہر ممکن کوشش بھی کرتے ہیں۔ خیر یہ ان کا مسئلہ ہے، لیکن کیا عید اس طرح بھی منائی جاتی ہے؟ یہ بات ذہن میں ابھی تک جگہ نہیں پکڑ رہی۔
قیامِ پاکستان کے موقع پر پنجاب کے مشرقی حصے میں اس طرح کے واقعات تاریخ میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان میں سے کئی واقعات میں پڑھا ہے کہ ایک شہر اور محلہ میں رہنے والوں نے جب ایک صبح کو اپنے ہی محلے اور گلی میں رہنے والوں کے تیور بدلتے دیکھے، آنکھوں میں خون اور ہاتھوں میں لہراتے ہوئے خنجر دیکھے تو وہ یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ آخر رات ہی رات میں کیا ہو گیا ہے؟ پڑوس دشمن میں اور شہر داری وحشی پن میں کیسے تبدیل ہو گئی ہے؟ مشرقی پنجاب میں اپنے ہی محلہ داروں اور پڑوسیوں کے جسموں کو خنجر اور گھروں کو آگ کی نذر کرنے والے تو اب اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہمیں مشترکہ دشمن نے استعمال کیا تھا اور ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئی تھیں، خدا جانے اس تاریخ کو دہرانے والوں کی آنکھوں سے بھی کبھی پٹیاں اتریں گی یا نہیں؟
ہمارے حکمران اور باخبر حضرات کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر رقوم تقسیم کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں کہ پنجاب میں بھی کسی نہ کسی طرح وہ فضا قائم کی جائے جس نے کراچی کے امن اور حسن کو گہنا دیا ہے، بلوچستان کے عوام کے باہمی بھائی چارے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے اور سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں بھائیوں کو ہتھیار بدست ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر رکھا ہے۔ کچھ لوگوں کو پریشانی ہے اور انتہائی اعلیٰ سطح پر پریشانی ہے کہ پنجاب میں ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کے لوگ امن سے کیوں رہ رہے ہیں، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں نہیں ہیں اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟ اس پریشانی نے بہت سے لوگوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور بہت سے اعلیٰ سطحی منصوبوں کا راستہ روک رکھا ہے۔
ایک عرصہ سے یہ منصوبہ بعض ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ پنجاب میں یہ فضا اس کے سوا قائم نہیں ہو سکتی کہ صوبے میں رہنے والے دو سب سے بڑے مذہبی گروہوں میں ہتھیار اور آگ لگانے والے کیمیکلز تھما کر دور کھڑے تماشا بھی دیکھا جائے اور اس آگ میں اپنی ہنڈیا بھی پکائی جائے۔ اس کے لیے ”شہ دماغوں“ کو ”صوفی اسلام“ اور ”ملا کا اسلام“ کا فرق ابھارنے کی سوجھی اور کسی نے ان کو سبق پڑھایا کہ اورنگزیب عالمگیر اور داراشکوہ میں جنگ کا میدان ایک بار پھر گرم کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے بعض شہ دماغوں کو اورنگزیب اور داراشکوہ کی یعنی دو بھائیوں کی جنگ کے قصے ازسرنو پڑھتے، ان پر سر دھنتے اور اس جنگ کا میدان ایک بار پھر گرم کرنے کے لیے مچلتے دیکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اورنگزیب کی کٹر مذہبیت کے سامنے اس کے بھائی داراشکوہ کے صلح کل تصوف کو صف آرا کر دیا جائے تو دین و مذہب کے معاشرتی کردار سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، چنانچہ پنجاب میں ”صوفی اسلام“ اور ”مولوی اسلام“ کو ایک دوسرے کے مقابل لڑنے کی منصوبہ بندی اسی پس منظر میں کی جا رہی ہے۔ لیکن خدا جانے ان شہ دماغوں کی نظر اس کھلی حقیقت سے کیسے چوک گئی ہے کہ وہ پنجاب میں جس ”صوفیت“ کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ داراشکوہ والی نہیں، بلکہ مجدد الف ثانیؒ والی صوفیت ہے۔ جس ”مجددی صوفیت“ نے اورنگزیب عالمگیر کے روپ میں اپنا عملی اظہار کیا تھا، تاریخ کے ایک باشعور طالب علم کے طور پر مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی ہے کہ پنجاب میں سوئی ہوئی صوفیت اگر جاگ گئی (اور خدا کرے کہ جاگ جائے) تو یہ داراشکوہ والی نہیں، بلکہ مجدد الف ثانیؒ والی صوفیت ہو گی اور داراشکوہ کی صلح کل اور شریعت بیزار صوفیت کے نام لیوا اگر کہیں موجود ہیں تو بھی وقت آنے پر دور دور تک ان کا کوئی نشان نظر نہیں آئے گا۔
اس لیے ”صوفی اسلام“ اور ”مولوی اسلام“ میں کشمکش ابھارنے اور شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی کے جذبے کو ”صوفی اسلام“ کے نام پر کارنر کرنے کی خواہش رکھنے والے شہ دماغوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ خواہ مخواہ اپنے وسائل، دولت اور دماغ خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس سے نفسیاتی تسکین اور ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“ جیسی اچھل کود کے سوا کچھ میسر نہیں آئے گا۔ پاکستان میں شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ اور احیاء تاریخ کا فیصلہ ہے، نوشتہ دیوار ہے اور اس ملک کے عوام کا مستقبل ہے۔ اسے اگر مغرب کی حیا باختہ ثقافت کی ہمہ گیر یلغار کے ذریعہ نہیں روکا جا سکتا تو داراشکوہ کی ملحدانہ صوفیت کے نام پر بھی اس کی منزل کھوٹی نہیں جا سکتی، اس لیے کہ پاکستان میں تصوف کے نام لیوا دیوبندی ہوں یا بریلوی، سب کے سب اپنا رشتہ داراشکوہ سے نہیں، بلکہ مجدد الف ثانیؒ سے جوڑتے ہیں اور اسی نسبت پر فخر کرتے ہیں۔ اس تصوف کی نمائندہ شخصیات کے نام لکھے جائیں تو سرفہرست حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے اسماء گرامی دکھائی دیں گے، اس لیے ہم دیوبندیوں کو اس صوفیت سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے جاگنے سے کوئی پریشانی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ ”کراچی برانڈ مذہبی عصبیت“ کچھ اور گھروں کو نذر آتش کر لے گی اور کچھ اور مساجد کے باہر بربریت کا مظاہرہ کر لے گی، لیکن کیا اس سے پنجاب میں دیوبندی بریلوی جنگ کا راستہ ہموار ہو سکے گا؟ ایسا سوچنے والوں کو اپنی حماقت کا ابھی سے اندازہ کر لینا چاہیے۔
مجھے حضرت مولانا ضیاء القاسمیؒ کے خاندان کے ساتھ گزرنے والے اس عظیم حادثہ پر دکھ و غم ہے، میں خواہش کے باوجود ابھی تک اس منظر کو دیکھنے کا اپنے اندر حوصلہ نہیں پا رہا اور اس غم و حزن میں اپنے عزیز مولانا زاہد محمود قاسمی اور ان کے خاندان کے ساتھ شریک ہوں، مگر مجھے اس بات پر ایک طرح سے اطمینان بھی ہے کہ میرا بزرگ بھائی حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جس طرح زندگی میں راہ عزیمت کا راہی تھا، مرنے کے بعد بھی تاریخ کے افق پر اسی مقامِ عزیمت پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔