بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جہاں دوست اکٹھے رہتے ہوں تو بے تکلفی ہو جاتی ہے اور پھر بہت سی اچھی عادتیں بھی پڑ جاتی ہیں، بہت سی غلط عادتیں بھی، جن میں ایک دوسرے کے نام ڈالنا، ایک دوسرے کی کمزوریاں نکالنا کہ اس کی آنکھ ایسی ہے، اس کا کان ایسا ہے، اس کے پاؤں ایسے ہیں، اس کا قد ایسا ہے، کوئی نہ کوئی ایسی بات۔ اس کو قرآن کریم نے کہا ہے ’’ویل لکل ہمزۃ لمزۃ‘‘ (الہمزۃ ۱)۔ ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرنا، ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنا، اس کو قرآن کریم نے منع کیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ دو چھوٹے چھوٹے واقعے عرض کر دیتا ہوں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے صحابی ہیں، اکابر صحابہ میں سے ہیں، قد چھوٹا تھا، ٹانگیں پتلی پتلی تھیں، یہ حضورؐ کے خادم تھے اور مسواکیں عام طور پر درختوں سے یہ اتارا کرتے تھے۔ حضورؐ کی جوتی سیدھی کرنا، عصا سنبھال کر رکھنا، مصلیٰ بچھانا، خدمت کے کام کیا کرتے تھے۔ ایک دن باہر جا رہے تھے اکٹھے حضورؐ کے ساتھ، ایک درخت پر کوئی اچھی سی ٹہنی نظر آئی تو کہا یا رسول اللہ! میں مسواک اتار دوں؟ ٹہنی بہت اچھی ہے۔ فرمایا، اتار دو۔ پھرتیلے تھے، چڑھ گئے۔ نیچے اب ساتھی کھڑے ہیں سارے۔ ایک نے آوازا کسا کہ اوپر کیا لینے گئے ہو، مسواکیں تمہارے پاس نہیں ہیں؟ ٹانگوں کے بارے میں کہا کہ مسواکیں تمہارے پاس ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا، فرمایا خدا کے بندو! ساتھیوں سے ایسے مذاق نہیں کیا کرتے۔ حضورؐ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اس قسم کا مذاق جس سے اس کی ہتک ہوتی ہو، نہیں کرنا چاہیے۔
ازواجِ مطہراتؓ میں ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چھوٹے قد کی تھیں۔ ایک دن وہ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں آئیں، کوئی کام تھا، پھر چلی گئیں۔ (حضرت عائشہؓ نے اس کا تذکرہ حضورؐ سے اشارہ کے ساتھ کیا) کہا، یا رسول اللہ! وہ آئی تھی (چھوٹے قد کی)۔ حضورؐ نے فرمایا، عائشہؓ! کیا کر رہی ہو، اللہ کی بندی ایسی باتیں مت کرو۔ حضورؐ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اس قسم کی باتیں پسندیدہ نہیں ہیں۔ دل لگی تو خیر ٹھیک ہے، لیکن ایسی بات جو اس کو محسوس ہو کہ یہ مجھے کیا کہہ دیا، یہ نہیں کرنی چاہیے۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔