افغانستان میں ہیروئن کا کاروبار

   
جون ۲۰۰۳ء

روزنامہ اوصاف اسلام آباد نے ۷ مئی ۲۰۰۳ء کو اے پی پی کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ کسٹم حکام نے چھاپہ مار کر افغانستان سے پاکستان آنے والی ۵۴۰ ملین روپے مالیت کی ہیروئن پکڑی ہے، یہ ہیروئن کوئٹہ میں پکڑی گئی ہے اور اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق یہ اب تک کسی بھی ایجنسی کی طرف سے پکڑی جانے والی ہیروئن کی سب سے بڑی مقدار ہے جو کسٹم حکام نے قابو کر لی ہے تاہم دونوں طرف سے بھاری فائرنگ کے دوران اسمگلر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

افغانستان سے مغربی ممالک کو ایک عرصہ سے یہ شکایت ہے کہ وہاں پوست کی بڑی مقدار کاشت ہوتی ہے جس سے ہیروئن بنتی ہے اور وہ پاکستان کے راستے دنیا بھر میں پھیل کر منشیات کی لعنت میں اضافہ کا ذریعہ بنتی ہے، اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی حکومتیں افغانستان میں پوست کی کاشت کو ختم کرانے کے لیے تخویف اور تحریص کے تمام حربے آزما رہی ہیں لیکن مغربی ممالک کے ہی وہ ادارے جو منشیات کے عالمی اسمگلر اور بیوپاری ہیں، پوست کی کاشت اور ہیروئن کی تیاری و فروخت کے لیے افغانستان کے اس قسم کے لوگوں کی پشت پناہی اور سرپرستی کرتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران عالمی سطح پر اس کا وسیع پروپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ افغانستان میں پوست کی بہت زیادہ کاشت ہوتی ہے اور وہاں سے ہیروئن کی بہت بڑی مقدار مغربی ممالک میں سمگل ہو کر جاتی ہے تو طالبان حکومت کے سربراہ ملا محمد عمر نے ایک حکم کے تحت افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی تھی، اور دنیا نے یہ منظر کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ پوست کی جس کاشت کو ختم کرانے کے لیے مغربی حکومتوں کے سالہا سال کے تمام حربے یکسر ناکام ہوگئے تھے اسے اسلامی حکومت کے سربراہ کے ایک آرڈر نے مکمل طور پر ختم کر دیا، اور بین الاقوامی اداروں نے اس کا اعتراف کیا کہ اس کے بعد طالبان کے دور حکومت میں ان کے زیر کنٹرول علاقے میں ایک ایکڑ زمین پر بھی پوست کی کاشت نہیں ہوئی۔ مگر اب مغربی ممالک کی مرضی کی حکومت افغانستان میں مسلط کیے جانے کے بعد افغانستان پھر سے پوست کی کاشت کا مرکز بن گیا ہے۔ اس ایک بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی مسلم معاشرہ میں نظریاتی اسلامی حکومت اور اسلامی قوانین کی برکات کیا ہوتی ہیں اور انہیں ان کے عقیدہ و دین کے خلاف کسی نظام پر چلانے کے اثرات کیا ہوتے ہیں ؟

   
2016ء سے
Flag Counter