چند روز پہلے ضلع سیالکوٹ کے گاؤں اوٹھیاں میں ایک پرائیویٹ سکول کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا، جو بچوں میں انعامات کی تقسیم کے سلسلہ میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ایک استاد نے بتایا کہ بعض تعلیمی اداروں میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے شائع کردہ اردو کے کتابچے بچوں کو پڑھائے جا رہے ہیں جن میں ٹوپی اور دوپٹے کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ ان میں سے کوئی کتابچہ مجھے مہیا کیا جائے، اس کے بعد اس سلسلہ میں کوئی رائے قائم کر سکوں گا۔
اور اس کے ساتھ ہی ذہن اس طرف منتقل ہو گیا کہ ملک میں نصابِ تعلیم مرتب کرنے والے بورڈز کی ذمہ داری ختم یا کم کر کے نصاب کی تیاری اور طباعت کا کام بین الاقوامی اداروں کے سپرد کرنے کا جو عمل ایک عرصہ سے جاری ہے، یہ کہیں اس کا شاخسانہ نہ ہو۔ اور اب تعلیمی اداروں کو خودمختاری کے نام پر مربوط قومی تعلیمی پالیسی سے آزاد کرانے کی طرف جو پیشرفت ہو رہی ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلہ کو سرسری انداز میں لینا مناسب نہ ہو گا۔ چنانچہ مجھے اس کتابچہ کا انتظار رہا، بلکہ ایک دو بار یاددہانی بھی کرنا پڑی اور دو روز قبل ایک کتابچہ میرے ہاتھ میں آیا ہے۔ اس سلسلہ میں بات کو مزید آگے بڑھانے سے قبل اس کتابچہ کا مختصر تعارف پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
- سولہ صفحات کا یہ معیاری طباعت کا حامل کتابچہ خوبصورت اور مضبوط ٹائٹل کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی طرف سے ایشین پیکجز پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی میں طبع ہوا ہے، اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ۵ بنگلور ٹاؤن، شارع فیصل، پی او بکس ۱۳۰۳۳، کراچی ۷۵۳۵۰ نے شائع کیا ہے۔ پہلا ایڈیشن ۱۹۹۹ء میں چھپا تھا اور دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۱ء میں سامنے آیا ہے۔
- آغاز میں اظہارِ تشکر کے عنوان سے ڈائریکٹر پنجاب مڈل سکولنگ پراجیکٹ جناب خالد مسعود چوہدری کی جانب سے معاونین خاص طور پر ورلڈ بینک کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اور اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ ’’یہ کتب بچوں کی شخصیت اور کردار پر بہتر اثرات مرتب کریں گی۔‘‘
- ٹائٹل پر ’’وہ ٹوپی کس کی تھی‘‘ کے عنوان کے ساتھ ایک کتے کی تصویر ہے جس کے سر پر ہیٹ سجایا گیا ہے۔ جب کہ صفحہ ایک پر ایک مکان کی چھت پر کھڑے پنجابی لڑکے کو دکھایا گیا ہے جس کی ٹوپی ہوا اڑا کر لے گئی اور سوال کیا گیا ہے کہ اس کی ٹوپی کہاں جا کر گری ہے؟ پنجابی لڑکا جس مکان پر کھڑا ہے اس کی دیوار پر صلیب کے دو واضح نشان ہیں۔ دوسرے صفحہ پر ایک بھینس کو پانی کی بالٹی کے پاس کھڑی دکھایا گیا ہے، جس کے ساتھ صلیب کا نشان ہے اور ٹوپی بھینس کے سر پر فٹ کر دی گئی ہے، جس کے ساتھ ہی پہلے صفحہ کے سوال کا جواب ہے کہ ’’ہوا نے لڑکے کی ٹوپی اڑا کر بھینس کے سر پر ٹکا دی ہے۔‘‘
- اس کے بعد ایک لڑکی کے سر سے دوپٹہ اڑا کر ہوا نے بکرے کے سر پر ڈال دیا ہے، بلکہ اس کی گردن پر لپیٹ دیا ہے۔
- پھر ایک سندھی لڑکے کی ٹوپی بیل کے سر پر رکھ دی ہے۔ ایک بابو کے سر سے ہیٹ اڑا کر کتے کے سر پر چسپاں کر دیا ہے۔ بلوچی لڑکے کی ٹوپی اونٹ کے سر پر، پٹھان لڑکے کی ٹوپی گھوڑے کے سر پر اور ایک چترالی لڑکے کی ٹوپی اڑا کر اڑیال کے سر پر رکھ دی ہے۔
- اور آخری تصویر کا منظر یہ ہے کہ ہوا ان ساری ٹوپیوں اور دوپٹے کو اڑا کر لاہور لے آئی ہے اور مینارِ پاکستان کی چوٹی پر سب کو جمع کر دیا ہے، جس سے یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ سب صوبوں کے بچوں میں اتحاد اور قومیت کا جذبہ فروغ پائے گا۔
جہاں تک آخری تاثر کا تعلق ہے ہمیں اس سے اختلاف نہیں ہے کہ اس کا تاثر بظاہر یہی بنتا ہے اور یہ اچھی چیز ہے، لیکن اس آخری تاثر تک پہنچنے کے لیے بچے کو تاثرات کے جن مراحل سے گزارا جا رہا ہے وہ بہرحال محلِ نظر ہیں۔ اور ان کے بارے میں کم از کم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تاثرات ہمارے ثقافتی اور تہذیبی پس منظر اور رجحانات کی ہرگز عکاسی نہیں کرتے۔ جبکہ اس میں ٹوپی اور دوپٹے کا مذاق اڑانے کے جس تاثر کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا ہے وہ ایک سکول کے استاد کا ہے، اور جب استاد اس ساری کہانی سے یہ تاثر لے رہا ہے تو بچوں کے تاثرات کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
ٹوپی اور دوپٹہ ہماری مشرقی تہذیب بلکہ اسلامی روایات کی علامت ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لیے سر ڈھانپ کر رکھنے کو انبیاء کرام علیہم السلام کے اخلاق کی پیروی قرار دیا ہے، اور قرآن کریم نے عورتوں کو سر اور سینے پر چادر ڈال کر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس طرح یہ ہماری مذہبی تعلیم کا بھی حصہ ہے، اس لیے وقار اور حیا کی ان علامات کو اس طرح بیل، بکرے، بھینس، کتے، اونٹ اور اڑیال کے سروں پر ڈالتے اور گھماتے رہنا، اور بچوں کو معصومیت کے دور میں صلیب کے نشانات کے ساتھ ان مناظر سے مانوس کرنا ورلڈ بینک اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیمی پروگرام کا حصہ تو ہو سکتا ہے مگر اسلامی اقدار و روایات سے کسی طرح بھی مطابقت نہیں رکھتا۔
یہ ایک نمونہ ہے جس سے اس سارے پروگرام اور اس کے مقاصد و اہداف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جو پاکستان کے تعلیمی اداروں کو قومی دائرے سے نکال کر بین الاقوامی دائرے میں شامل کرنے، اور پھر ورلڈ بینک کی نگرانی میں بین الاقوامی اداروں کے مرتب کردہ نصابِ تعلیم کو ہر سطح پر رائج کرنے کے لیے پوری منصوبہ بندی اور تکنیک کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلامیت اور پاکستانیت کی سوچ رکھنے والے دانشور اور تعلیمی ماہرین کہاں ہیں؟ اور کیا انہوں نے ورلڈ بینک کے اس تعلیمی پروگرام کو قبول کرنے اور اس کے سامنے سپرانداز ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے؟