قومی فلسطین کانفرنس اسلام آباد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۱۱ اپریل ۲۰۲۵ء

کل کی ہماری اسلام آباد کی قومی کانفرنس آپ نے اخبار میں پڑھ لی ہو گی میڈیا میں بھی دیکھ لی ہو گی۔ الحمد للہ جب غزہ کا معاملہ شروع ہوا تھا تب بھی ہمارے ملک کی دینی قیادتوں نے اسلام آباد میں جمع ہو کر آواز دی تھی کہ بھئی فلسطین کا مسئلہ اسرائیل کا مسئلہ (صرف) فلسطینیوں کا نہیں ہمارا (بھی) ہے۔ الحمد للہ اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ حکمران جو مرضی کرتے پھریں، عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ پچھلے سال کی کارروائی کا خلاصہ یہ ہے کہ الحمد للہ لوگوں نے جذبات کا اظہار بھی کیا ہے حمایت بھی کی ہے مدد بھی کی ہے۔

کل پھر اکٹھے ہوئے ہیں، ہماری دینی قیادتیں، چوٹی کی قیادتیں، حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب، حضرت مولانا منیب الرحمٰن صاحب، علامہ ہشام الٰہی ظہیر صاحب، ہماری قیادتیں اکٹھی ہوئی ہیں، ایک میسج اور دیا ہے۔ پچھلے سال کا میسج قوم کے نام تھا کہ یہ (حکمران) کریں نہ کریں، ہم نے تو کرنا ہے۔ یہی تھا نا کہ ہم تو کریں گے؟ اور الحمد اللہ تھوڑا بہت کرتے رہے ہیں۔ کل کا میسج حکومت کے نام ہے کہ بھئی جہاد فرض ہو گیا تم پر بھی ہم پر بھی۔ میں نے دونوں میسجوں کا فرق بتایا ہے۔

پچھلے سال بھی یہی لوگ اکٹھے ہوئے تھے، ہمارے قائدین ہیں، اللہ پاک ان کو سلامت رکھے، اللہ پاک ان کے حوصلے اور جرأت کو قبول فرمائیں، پچھلے سال کی کانفرنس کا میسج یہ تھا قوم کو کہ یہ حکمران کریں یا نہ کریں، تم تو جو کر سکتے ہو کرو۔ اس دفعہ اس پیغام میں یہ اضافہ ہوا ہے کہ ہم تو کر ہی رہے ہیں اب تمہاری ذمہ داری بھی ہے، حکمرانوں کی، مسلمان حکمران سارے، اور جو اس وقت بھی، دوٹوک بات ہے، کوئی بھی حکومت ہو، کسرِ باشد، جو اس وقت بھی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہے، وہ دنیا کا سب سے بڑا بے غیرت ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ٹرمپ کے کہنے پر ہم ٹرمپ کے ساتھ ہیں، کل بیان آیا ہے، جی ہم ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ تُف ہے تم پر، اس ماحول میں ہم ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں جی۔ وہ کیا کر رہا ہے؟ تم کیا کر رہے ہو؟

بہرحال ہماری دینی قیادت نے اجتماعی آواز دی ہے کہ جہاد فرض ہے، کرنا تم نے ہی ہے لیکن فرض شرعاً‌ ہو گیا ہے۔ ہم تائید کرتے ہیں، ہم اپنی دینی قیادت کے فیصلوں کی تائید کرتے ہیں، جو ہمارے بس میں ہو ہم ضرور کریں گے، ان شاء اللہ۔ جو ہم کر سکے اپنے دائرے میں، شرعی دائرے میں، قانونی دائرے میں، اور اپنے وسائل۔ ہماری ذمہ داری ہے، ہم نے خدا کو جواب دینا ہے، ٹرمپ کو نہیں۔ ہم نے خدا کو جواب دینا ہے۔ میں نے بھی خدا کو جواب دینا، شہباز شریف صاحب نے بھی خدا کو جواب دینا ہے، اور حافظ عاصم منیر نے بھی خدا کو جواب دینا ہے۔

اس لیے ہم اس آواز پر لبیک کہتے ہیں، اپنے قائدین کی آواز پر۔ ہلکی سی بات یہ ہے، کم از کم اپنے جذبات کا اظہار تو کریں۔ آج کا دن بھی، اگلے جمعے کا بھی، اس سے پہلے بھی ریلیاں، اجتماعات، اپنے جذبات کا اظہار، یہ کم از کم درجہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ ہاتھ سے کرو، نہیں تو زبان سے کرو، یہ تو کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے؟ تو میری درخواست ہے کہ جہاں بھی کوئی دینی قیادت۔ شکر ہے کہ اکٹھے ہیں۔ کل کوئی پیچھے تھا؟ پچھلے سال بھی کوئی پیچھے تھا؟ اللہ پاک نے یہ احسان فرمایا کہ ہماری دینی قیادت ہمیشہ اکٹھی ہو جاتی ہے۔ (اکٹھے) رہیں نہ رہیں (اکٹھے) ہو جاتے ہیں۔

تو میں اس کی مبارکباد بھی دیتا ہوں اور لبیک بھی کہتے ہیں اور ان شاء العزیز اسی سلسلہ میں ایک ہلکا پھلکا سا مظاہرہ آج جمعے کے بعد جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کا فلسطین کے لیے شیرانوالہ باغ میں ہو گا، شریک ہوں۔ اور میں ایک بات عرض کروں کہ فلسطین کے لیے جو بھی آواز دے جس درجے کی آواز دے اس کی ہاں میں ہاں ملانا ہماری دینی ذمہ داری ہے، شرعی ذمہ داری ہے، اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائے، ہمارے فلسطینی بھائیوں کو اللہ پاک اس درندگی سے نجات دلائے، اور ہمیں ان کی درندگی سے نجات دلانے والوں میں شامل کرے۔ اللھم صل علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وعلیٰ اٰلہ واصحابہ و بارک وسلم۔

2016ء سے
Flag Counter