درسِ نظامی کا آن لائن کورس

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۳ جنوری ۲۰۲۱ء

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں درس نظامی کے تین سالہ کورس کی افتتاحی تقریب میں کچھ گزارشات پیش کیں جو اکادمی کے ناظم مفتی محمد عثمان جتوئی نے مرتب کیں اور نظر ثانی کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام درس نظامی کے تین سالہ آن لائن کورس کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لاتے ہوئے دو تین باتیں تعارفی اور تمہیدی طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔

  1. پہلی بات یہ کہ آج سے تین عشرے قبل ہم نے جب الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا آغاز کیا تو بنیادی ہدف دین کی دعوت اور تعلیم و ترویج تھا جس کے تین بنیادی مرحلے ہمارے ذہن میں ہیں: (۱) غیر مسلموں کے لیے دعوت (۲) مسلمانوں میں تعلیم (۳) اور معاشرے میں اس کی ترویج و نفاذ۔ ان تینوں دائروں میں عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور اس کی طرف توجہ مبذول کرانا ہمارا بنیادی ہدف چلا آ رہا ہے۔ عصری تقاضوں کا لحاظ ہر زمانے میں ضروری رہا ہے، اس پر تفصیلی بات کرنے کی بجائے صرف یہ حوالہ دینا چاہوں گا کہ فقہی احکام میں بھی عرف اور تعامل کا اعتبار ہوتا ہے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ عرف اور تعامل کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ اس اصول کا اطلاق اگر ہم دین کی دعوت ، تعلیم اور ترویج و تنفیذ کے دائروں میں کریں تو مطلب یہ بنتا ہے کہ ان تینوں کاموں کیلئے بدلتے ہوئے زمانے میں وقت کے تقاضوں اور ضروریات کو ملحوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہر دور میں ایسا ہوتا چلا آرہا ہے۔
  2. آج کے دور میں دین کی دعوت کے عصری تقاضے کیا ہیں؟ دین کی تعلیم کے عصری تقاضے کیا ہیں؟ اور دین کے نفاذ کے عصری تقاضے کیا ہیں؟ یہ تینوں اپنے طور پر مستقل موضوع ہیں۔ البتہ الشریعہ اکادمی کا دائرہ تعلیم کا ہے کہ معاشرے میں دین کی تعلیم کیسی ہو رہی ہے اور کیسی ہونی چاہیے؟ حال کا تقاضا کیا ہے اور مستقبل کی ضروریات کیا ہیں؟ اس حوالے سے ہم دو تین اہداف پر کام کرتے آ رہے ہیں۔

    ایک اس بات پر کہ دینی تعلیم کا موجودہ نظام، جسے ہم درسِ نظامی کہتے ہیں، ۱۸۵۷ء کے بعد اس کا آغاز ہوا تھا ۔اس سے پہلے بھی درس نظامی رائج تھا لیکن موجودہ دور کا آغاز ۱۸۵۷ء کے بعد دارالعلوم دیوبند سے ہوا اور پورے برصغیر میں اس کا سسٹم اور نیٹ ورک پھیلا۔ اس کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ عام آدمی کو دین کی تعلیم ملتی رہے، مساجد اور مکاتب کے نظام کو امام، خطیب، مفتی، قاری اور حافظ ملتے رہیں اور عام مسلمانوں کو دین کی رہنمائی کے مواقع میسر ہوں۔ مسجد، مدرسہ، حفظ قرآن کی تعلیم، مکمل درس نظامی کی تعلیم اور دارالافتاء وغیرہ یہ سارے دائرے اسی نظام کے ہیں ۔ملک کی آزادی تک اہداف یہی رہے لیکن وطن کی آزادی اور پاکستان کے قیام کے بعد اسے مزید دو حوالوں سے دیکھنا ضروری ہو گیا: (۱) ایک تو یہی تقاضے کہ عام مسلمان کو دین کی تعلیم ملتی رہے اور اس کے ساتھ قرآن، حدیث، فقہ، شریعت کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔ (۲) اور دوسرا یہ کہ ملک کا مستقل تعلیمی نظام ازسرنو تشکیل دیا جائے۔ پاکستان چونکہ اسلامی ریاست کے عنوان سے وجود میں آیا تھا تو ریاست کے ہر شعبے کو ایسے رجال کار چاہئیں جو ریاست کے بنیادی نظریے سے بہرہ ور ہوں۔ یہ دوسرا یعنی ریاست کے اداروں کو دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افراد کی فراہمی کا تقاضا مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس پر جزوی طور پر تو کام ہو رہا ہے لیکن ریاستی اداروں نے اس کی ذمہ داری کبھی قبول نہیں کی۔ جبکہ معروضی صورتحال یہ ہے کہ ریاستی اداروں اور قومی شعبوں کو دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور رجال کار کی ضرورت ہے مگر ریاستی ادارے اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہے، اس لیے یہ کام بھی پرائیویٹ سطح پر ہی کرنا پڑ رہا ہے۔

  3. تیسری بات یہ کہ جدید ذرائع کا استعمال ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی کہ نصاب پر نظر ثانی کی جائے، نظر ثانی کا یہ معنی نہیں کہ نصاب تبدیل کر دیا جائے، البتہ نصاب میں وہ اضافے ضروری ہیں جو نئے تقاضوں کے شامل ہونے کے ساتھ ہمارے ذمے آگئے ہیں۔ اس کے مختلف پہلو ہیں جبکہ ان نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ عصری اسلوب اور عصری وسائل و اسباب کا استعمال بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس ہدف پر ہم تین عشروں سے کام کر رہے ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں ہم نے کام شروع کیا تھا الحمد للہ ہمیں اطمینان ہے کہ متعلقہ شعبوں میں یہ احساس اجاگر کرنے میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ عصری وسائل میں سے انٹرنیٹ کا استعمال ایک اہم ضرورت ہے جو تیز رفتار، سریع الاثر اور عالمی ماحول مہیا کرنے والا میڈیم ہے۔ ہم ایک عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ دینی تعلیم میں الیکٹرانک میڈیا اور دیگر جدید ذرائع کے استعمال کو منظم کیا جائے اور مربوط بنایا جائے۔
  4. اس کے ساتھ دینی مدارس کے حوالے سے میں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ ہمیں آنے والے حالات میں جو خدشات و خطرات اور امکانات دکھائی دے رہے ہیں ان کے پیش نظر دو باتوں کا بطور خاص اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ تعلیم و تدریس کے آن لائن ذرائع اختیار کرنا ہماری ضرورت بن گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ دینی مدارس کو فیس سسٹم بھی متعارف کرانا چاہیے کیونکہ اس کا اپنا دائرہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ ماحول پیدا کرنا چاہیے کہ جس طرح لوگ دنیا کی تعلیم کیلئے خرچ کرتے ہیں دین کی تعلیم کیلئے بھی خرچ کریں اور آنے والے حالات کا ایک تقاضا یہ ہے کہ دینی تعلیم کے ہر شعبے کا انحصار چندہ پر نہ ہو۔

اس تناظر میں الشریعہ اکادمی نے تین سالہ درس نظامی کے آن لائن کورس کا آغاز کیا ہے جو ہفتہ اور اتوار صرف دو دن ہو گا۔ اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ انٹرمیڈیٹ اور ثانویہ عامہ کے لیول کے طلبہ لیے جائیں گے اور تین سالہ کورس سے گزرنے کے بعد وہ دورہ حدیث میں شرکت کی پوزیشن میں ہوں گے۔ تین سالہ درس نظامی کورس کے بعد دو سالہ دورہ حدیث کورس منظم کرنے کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ اس مرحلہ پر ہماری کوشش ہو گی کہ ہم کسی مستند اور تسلیم شدہ ادارے کے ساتھ الحاق کریں جس کی سند تسلیم کی جاتی ہو تاکہ اس دورہ حدیث کی سند عرف میں قابل قبول ہو۔ اس سلسلہ میں مزید معلومات الشریعہ کی ویب سائیٹ alsharia.org سے مل سکتی ہیں۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter