چند ہفتے قبل بلتستان کے سفر کے حوالہ سے کچھ مشاہدات و تاثرات ایک دو کالموں میں پیش کر چکا ہوں، ان کے ساتھ میں نے وعدہ کیا تھا کہ نور بخشیہ فرقہ کے بارے میں معروضات کسی مستقل کالم میں پیش کروں گا، اس پس منظر میں یہ سطور سپردِ قلم کر رہا ہوں۔ اس فرقہ کے بانی سید نور بخش قہستانی بتائے جاتے ہیں جو نویں صدی ہجری میں گزرے ہیں اور ان کا سن وفات ان کی اپنی کتاب ’’الفقہ الاحوط‘‘ کے مترجم جناب محمد بشیر نے ۸۴۹ھ لکھا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے اردو ’’دائرہ معارف اسلامیہ‘‘ کے مطابق ان کا نام محمد بن عبد اللہ اور لقب نور بخش تھا۔ انہوں نے کشمیر میں اسلام کی روشنی پھیلانے والے معروف صوفی بزرگ سید علی ہمدانی کے خلیفہ اسحاق الختلانی کے ہاتھ پر بیعت کی جنہوں نے انہیں خلافت اور خرقہ سے نوازا۔ ان کا نسب حضرت موسیٰ کاظم تک بیان کیا جاتا ہے اور اسی نسبت سے انہیں ان کے معتقدین نے مہدی، امام اور خلیفۃ المسلمین کا خطاب دیا۔ انہیں امامت اور خلافت کے حوالے سے سرگرمیوں کی بنا پر حاکم وقت سلطان شاہ رخ تیموری کے نائب بایزید نے گرفتار کر لیا، کچھ عرصہ بعد رہا ہوئے تو کردستان پہنچ کر دوبارہ خلافت کا اعلان کر دیا اور ان کے نام کا سکہ بھی جاری ہوا۔ سلطان شاہ رخ کے حکم پر دوبارہ گرفتار ہوئے اور آذربائیجان بھیج دیے گئے، وہاں وہ جیل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور خلخال پہنچ گئے۔ وہاں انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا اور اس شرط پر رہائی ملی کہ اپنی سرگرمیاں صرف درس وتدریس تک محدود رکھیں گے۔ ان کی وفات ’’رے‘‘ کے علاقہ میں ہوئی اور انہیں وہیں دفن کر دیا گیا۔ دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق سید نور بخش کے بیٹے سید قاسم فیض بخش کی رسائی ایران کے صفوی حکمران شاہ اسماعیل صفوی تک ہوئی اور اس کے دربار میں ان کو تقرب ملا۔ سید قاسم فیض بخش کے ایک مرید شمس الدین نے ۹۰۲ھ میں کشمیر کا رخ کیا اور وہاں کے حکمران فتح خان نے اس کی آؤ بھگت کی۔ اس موقع پر کشمیر اور بلتستان کے بہت سے لوگوں نے نور بخشی فرقہ میں شمولیت اختیار کی اور اب بھی بلتستان اور کشمیر کے کشتواڑ کے علاقہ میں ان کی خاصی آبادی پائی جاتی ہے۔
سید نور بخش نے، جنہیں موسوی اور قہستانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اپنے بیٹے کے نام ایک خط میں اپنے عقائد کی وضاحت کی ہے۔ یہ مکتوب ’’کتاب الاعتقادیہ‘‘ کے نام سے بلتستان کے نور بخشی دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اور اسلام آباد میں جامع مسجد صوفیہ نور بخشیہ کے خطیب و امام ابوالعرفان محمد بشیر صاحب نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کے چند اقتباسات نمونہ کے طور پر درج کیے جاتے ہیں۔ تقدیر کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’اس بات پر اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ ازل سے تقدیراتِ کائنات کی جملہ کلیات اور جزئیات گزشتہ اور آئندہ امور پر محیط ہیں۔ بایں طور کہ اگر درخت کا کوئی پتہ گر جائے تو اس کا گر جانا بڑی شان والے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ جو کوئی اس واضح طور پر ثابت شدہ بات کے بارے میں شک و شبہ کا شکار ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ علم نجوم سیکھ لے تاکہ احکام موالید کے تجربے سے وہ یقینی طور پر مان جائے کہ چھوٹے بڑے ہر ہر امر کے شمولِ تقدیر کا پورا پورا یقین پیدا کرتا ہے، اس لیے کہ علمِ نجوم میں زبردست مہارت رکھنے والا کامل حکیم نوزائیدہ بچے کے درجہ طالع اور لمحہ مخصوصہ کو تاڑ کر اس پر یہ حکم لگا سکتا ہے کہ وہ عالم ہوگا یا جاہل، نیکوکار ہوگا یا فاسق، تونگر ہو گا یا تنگ دست، بڑا نیک چلن ہوگا یا شر پسند، حاکم ہو گا یا محکوم، باعزت فرد ہوگا یا ذلت کا شکار، لمبی عمر والا ہوگا یا کم عمر، کنجوس ہو گا یا سخی، نیک بخت ہوگا یا بدبخت۔‘‘
معراجِ نبویؐ کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’اس بات پر اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اور آپؐ نے عالمِ بالا کو عروج فرمانے کے لائق و مناسب جسم کے ساتھ جو کہ ایک انتہائی خفیف اکتسابی جسم ہے آسمانوں کو عبور کیا۔ معراج پر آپ کا تشریف لے جانا آسمانوں کے دروازے کھولے جانے کے ساتھ ساتھ ہوا، اس سے خرق و التئام کا مسئلہ لازم نہیں آتا۔‘‘
قرآنِ کریم کے قدیم یا حادث ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’یہ اعتقاد رکھنا بھی واجب ہے کہ کلامِ الٰہی اس حیثیت سے قدیم ہے کہ وہ صفاتِ خداوندی میں سے ایک صفت ہے اور صفاتِ خداوندی بالاجماع ازلی ہیں۔ مگر کلام الٰہی اس حیثیت سے حادث ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے متعین وقت میں نازل کیا گیا جس سے پہلے بہت سے زمانے گزر چکے تھے اور اس حیثیت سے بھی وہ حادث ہے کہ کلام الٰہی کی قراءت کی جاتی ہے۔‘‘
امامت کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’اس بات پر اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ امامت کی دو قسمیں ہیں (۱) حقیقی امامت (۲) اضافی امامت۔ حقیقی امامت کی تعریف یہ ہے کہ امامت کے جملہ صفات صوریہ، صفات معنویہ، اس کی شرائط اور اس کے ارکان کا پوری طرح حامل ہونا حقیقی امامت ہے۔ امامت کی شرائط میں (۱) مرد ہونا (۲) آزاد ہونا (۳) بالغ ہونا (۴) اور عقل مند ہونا ہے۔ امامت کی اصل (۱) شجاعت (۲) قریشی ہونا ہے۔ اور امامت کی صفاتِ صوریہ میں (۱) منصوص طور پر سیادت کے مصداق ہونا (۲) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہونا اور (۳) علم (۴) پرہیز گاری (۵) شجاعت اور سخاوت ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت علی علیہ السلام کے سوا امامت کی یہ جملہ صفات ائمہ کرام میں سے کسی ایک میں بھی آج تک یکجا نہیں ہوئیں۔‘‘
جبکہ کتاب الاعتقادیہ کے مترجم جناب محمد بشیر نے اپنے پیش لفظ میں وضاحت کی ہے کہ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ منصبِ امامت نبوت کا لازم بین امر ہے تو اب دیکھنا ہے کہ وہ پاک نفوس کون کون سے ہیں جو اس منصبِ امامت کے صحیح حق دار ہیں۔ اور اس کے بعد انہوں نے انہی بارہ ائمہ کی فہرست دی ہے جو اثنا عشریہ کے نزدیک بارہ امام شمار ہوتے ہیں۔
نور بخشیہ فرقہ کے دینی مدارس میں بچوں کو ’’الفقہ الاحوط‘‘ کے نام سے ایک فقہی کتاب پڑھائی جاتی ہے جس کے مصنف بھی سید محمد نور بخش ہیں۔ اور ان کا کہنا کہ
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں شریعت محمدیہ سے بدعتوں کو دور کروں، اسے اس صورت میں زندہ کروں جیسی وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی۔‘‘
’’الفقہ الاحوط‘‘ اردو ترجمہ کے ساتھ ادارہ مدرسہ شاہ ہمدان صوفیہ نور بخشیہ سکردو نے شائع کی ہے جو فقہی ابواب پر مرتب ہے اور پانچ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے مترجم بھی ابوالعرفان محمد بشیر صاحب ہیں۔ انہوں نے اپنے پیش لفظ میں عربی لغت کی معروف کتاب ’’المنجد‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’الفقہ الاحوط‘‘ میں سید نور بخش نے سنی تعلیمات اور شیعی تعلیمات کے بین بین متوسط مسلک کو بیان کیا ہے۔ اور خود محمد بشیر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کے لیے سید محمد نور بخش نے افراط و تفریط سے ہٹ کر ایک متوسط راہ کی نشاندہی کی ہے۔‘‘ انہوں نے سید نور بخش کا یہ قول بھی درج کیا ہے کہ
’’کسی اہل ایمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایسے شخص کو کسی ایسی چیز کی بنا پر کفر سے منسوب کرے جس کا وہ عقیدہ رکھتا ہو اور معاملے کی حقیقت کو نہ جانتا ہو اور یہ گمان کرتا ہو کہ جو شخص ایسی عقیدت نہ رکھے وہ کافر ہے تو یہ جہالت کے شکار حضرات کا عقیدہ ہے۔‘‘
فقہی معاملات میں محمد بشیر صاحب کے بقول ’’الفقہ الاحوط‘‘ میں جو درمیانی راہ نکالی گئی اس کا ایک نمونہ وضو میں پاؤں دھونے یا ان پر مسح کرنے کے حوالے سے یوں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ
’’۵۔ ٹخنوں سمیت پاؤں پر مسح کرنا یا پیر کو استنجا کی چھینٹوں وغیرہ سے بچانے کی دشواری کی بنا پر مسلمانوں کی عام ابتلاء کی صورت میں ٹخنوں سمیت پیروں کا دھونا۔‘‘
نور بخشیہ گروہ کے عقائد کی ایک ہلکی سی جھلک ان کی اپنی کتابوں کے حوالے سے ہم نے پیش کی ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ محققین اہل علم متوجہ ہوں اور ان عقائد و احکام کا تجزیہ کر کے ان کی اصلی صورت کو واضح کریں۔ مگر اس سے بھی زیادہ ضروری امر ہمارے نزدیک یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں بہت بڑی تعداد میں آباد اس گروہ کے افراد کو اسلام کے حقیقی عقائد اور احکام سے مثبت طور پر آمادہ کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر محاذ آرائی کی صورت پیدا کیے بغیر مثبت اور مفاہمانہ انداز میں انہیں اسلامی عقائد و احکام سے آگاہ کرنے کی مربوط اور منظم جدوجہد کی جائے تو ان کی اکثریت صحیح عقائد کی طرف رجوع کرنے کے لیے تیار ہوگی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نور بخشی دینی مدارس میں ایک حد تک تعلیم کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ اس لیے جو نور بخشی نوجوان اہل سنت کے مدارس سے دینی علوم میں فراغت حاصل کر رہے ہیں وہ اہل سنت سے زیادہ قریب ہیں اور دوسروں کو بھی قریب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر جو حضرات اہل تشیع کے مدارس سے پڑھ کر آتے ہیں وہ اثنا عشریہ سے زیادہ قریب ہیں اور اس بنیاد پر نور بخشی آبادی میں صوفیہ اور امامیہ کے عنوان سے تقسیم دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے۔