اپریل کے پہلے عشرہ کے دوران پشاور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام ’’عالمی کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے ملک بھر میں سرگرمیاں جاری ہیں۔ وطن عزیز کی موجودہ عمومی صورتحال خاص طور پر ملک کے نظریاتی تشخص، اسلامی تہذیب و معاشرت اور دستور و قانون کی اسلامی دفعات کے خلاف بین الاقوامی اور ملکی سیکولر لابیاں جس طرح ہر سطح پر متحرک ہیں اس کے پیش نظر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا یہ اجتماع، بلکہ کسی بھی دینی حوالہ سے اس نوعیت کے عوامی اجتماعات قومی اور ملی ضرورت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس کانفرنس کی اہمیت کے پیش نظر قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمودؒ کی ایک یادگار تحریر کا ایک حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جو انہوں نے ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے موقع پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے انتخابی منشور کی تمہید کے طور پر تحریر فرمائی تھی۔ اس سے جمعیۃ علماء اسلام کے تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ اس کی جدوجہد کے اہداف و مقاصد کی بھی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں اس ’’قند مکرر‘‘ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام کے کارکن اس میں کوتاہی نہیں کریں گے۔
’’قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا مقصد تخلیق یہ بیان کیا ہے کہ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کہ جن و انس کو میں نے (اللہ نے) بندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ یعنی انسان کا مقصدِ تخلیق، اللہ تعالیٰ کی بندگی کا نظام قائم کرنا ہے۔ چنانچہ اس مقصدِ تخلیق کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں انسان کے لئے مندرجہ ذیل جامع و مانع منشور کا ذکر کیا ہے:
والعصر۔ ان الانسان لفی خسر۔ الا الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ انسان ہر اعتبار سے خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عملی اختیار کی اور جو باہم ایک دوسرے کو حق اختیار کرنے کی تلقین کرتے رہے اور جو آپس میں ایک دوسرے کو صبر پر قائم رہنے کی وصیت کرتے رہے۔
قرآن حکیم کا یہ چار نکاتی پروگرام پوری نوع انسانی کی نجات و فلاح کا ضامن ہے اور اس پروگرام میں انسان کے لئے قیامت تک کے واسطے سامان ہدایت جمع کر دیا گیا ہے۔ اسلام انسانوں میں اسی پروگرام کے مطابق انقلاب لانا چاہتا ہے۔ اور چونکہ مملکت پاکستان کا قیام ہی اسلام کے نام پر عمل میں آیا ہے اس لئے سب سے پہلے ذمہ داری پاکستان کی ہے کہ وہ اپنی حدود میں مکمل اسلامی نظام قائم کر کے پوری دنیا میں قرآن کے فرمودہ انسانی منشور کے قیام کی راہ ہموار کرے۔
چنانچہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اس دینی ذمہ داری کی تکمیل کی غرض سے ہی ابتداء سے جدوجہد کرتی چلی آرہی ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام تاریخی حقائق کی روشنی میں علمائے حق کے اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز حضرت مجدد الف ثانیؒ کی مساعی سے ہوا۔ جس نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و نظریات سے نشوونما پائی۔ جس کی جہادی تنظیم کی سرپرستی شاہ عبد العزیزؒ، سید احمد شہیدؒ ، مولانا اسماعیل شہیدؒ ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے اکابر نے کی۔ جس کی انقلابی جدوجہد کا وسیع ترین نظام شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن ؒ نے قائم کیا۔ اور جس کی علمی، تبلیغی، اصلاحی، تربیتی، تحریکی و اخلاقی طاقت کو شیخ الہند کے عظیم ترین تلامذہ امام العصر حضرت (حسین احمد) مدنیؒ، مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت مولانا محمد الیاسؒ، حضرت مولانا (عبد القادر) رائے پوریؒ، حضرت (حماد اللہ) ہالیجیؒ وغیرہم اکابر وقت نے برصغیر پاک و ہند اور عرب و ایشیا میں پھیلا دیا تھا۔
چنانچہ ان بزرگوں کی عظیم جدوجہد و قربانیوں کی بدولت ملک و ملت کو برطانوی استعمار کے جابرانہ غلبہ سے نجات ملی او رخطۂ پاکستان میں مسلمانوں کی آزاد مملکت و حکومت کی بنیاد پڑ گئی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی خاطر نئے سرے سے پاکستان کے تمام علماء حق کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی جدوجہد فرمائی۔ چنانچہ ۱۹۵۲ء میں جمعیۃ علماء اسلام مغربی پاکستان کا قیام عمل میں آیا جس کے امیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ منتخب ہوئے اور ناظم (اعلیٰ) مولانا احتشام الحق تھانویؒ چنے گئے۔ ۱۹۵۳ء میں پاکستان کی پہلی اور اہم ترین دینی تحریک ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ شروع ہوئی جس میں مسلمانوں نے بیش بہا جانی و مالی قربانیاں دے کر لادینی ذہنیت کو شکست فاش دی اور ختم نبوت کے عقیدہ کے تحفظ کا مستقل موقف قائم کر دیا۔ ۱۹۵۴ء میں دوبارہ انتخاب عمل میں آیا، حضرت مولانا مفتی محمد حسن ؒ خلیفہ حضرت تھانویؒ امیر منتخب ہوئے۔ حضرت مفتی محمد حسن صاحب بوجہ علالت و معذوری امارت کے فرائض انجام دینے سے قاصر تھے، آپ نے عارضی طور پر مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کو قائم مقام امیر مقرر فرمایا۔ اور ۱۹۵۶ء میں حضرت مفتی محمد حسن صاحب نے حضرت مولانا خیر محمد صاحب خلیفہ حضرت تھانویؒ کی معرفت ایک تحریری پیغام کے ذریعے نئے انتخابات کرانے کی ہدایت فرمائی۔
اسی دوران غلام محمد گورنر جنرل کی قائم کردہ دستور ساز اسمبلی نے ایک دستور وضع کر کے پاس کیا اور سکندر مرزا گورنر جنرل کے حکم سے وہ ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ اس دستور میں اگرچہ تمہید میں تو پاکستان کو اسلامی مملکت اور قانون سازی کے لیے اسلام کو رہنمائی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن اصل دستور میں ایسی دفعات رکھ دی گئی تھیں جن کی وجہ سے ارتداد اور اسلام سے انحراف کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ جس دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، اس دفعہ کی تصریح نمبر ۴ میں دستور کی دوسری دفعات کو تحفظ دینے کے لیے یہ کہہ دیا گیا کہ اس دفعہ سے دستور کی بقیہ دفعات متاثر نہیں ہوں گی۔ اس سے نفاذ دین میں جو مستقل رکاوٹ کھڑی کر دی گئی تھی اور تحریف کا جو راستہ کھول دیا گیا تھا اس کے ازالہ کے بغیر دستور کا نفاذ زبردست گمراہی کا موجب ثابت ہو سکتا تھا۔
چنانچہ اس صورتحال پر غور کرنے کے لئے حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ کے حکم پر پاکستان کے جید علماء کا کنونشن ملتان میں طلب کیا گیا اور اس موقع پر جمعیۃ کا نیا انتخاب بھی عمل میں آگیا۔ حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ امیر اور حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی ناظم عمومی منتخب ہوئے۔ دستور کی مخالف اسلام دفعات کو تبدیل کرانے کے لیے ایک کمیٹی کا تقرر کیا گیا جس نے ۱۹۵۶ء میں دستوری ترامیم کی تجاویز پر مشتمل سفارشات مرتب کر کے شائع کیں۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء میں مارشل لا لگا دیا گیا، اس دوران دینی اقدار کے تحفظ کے لئے نظام العلماء کے نام سے ایک تنظیم قائم کر دی گئی اور جب ایوب خان نے مارشل لا ریگولیشن کے ذریعہ عائلی قوانین نافذ کر کے مداخلت فی الدین کا رسوا کن اقدام کیا تو نظام العلماء سے منسلک علماء نے مساجد اور جلسہ ہائے عام میں اس کے خلاف آواز بلند کی اور حکومت کی داروگیر کا ہدف بنتے رہے۔
اس دوران شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی صاحبؒ کا وصال ہوگیا اور ان کی جگہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب درخواستی مدظلہ امیر جماعت منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں مارشل لا ختم کیا گیا، سیای جماعتیں بحال ہونے لگیں، میں (حضرت مولانا مفتی محمود صاحب) نے بحیثیت قائم مقام امیر کے جمعیۃ کے احیاء کا اعلان کیا اور پھر جمعیۃ کا انتخاب نو عمل میں آیا۔ حضرت درخواستی مدظلہ امیر اور حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی ناظم (عمومی) مقرر ہوئے۔ ‘‘