(عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام ایوانِ صنعت و تجارت، ٹرسٹ پلازہ، جی ٹی روڈ، گوجرانوالہ میں خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تمام محترم بزرگان کرام بالخصوص صاحبزا سید افتخار الحسن شاہ صاحب، صاحبزادہ محمد رفیق مجددی صاحب اور میرے بزرگ حضرت مولانا عبدالعزیز چشتی صاحب جن کی سرپرستی میں ہم نے زندگی بھر کام کیا ہے، اور تمام معزز شرکائے محفل! عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس خوبصورت محفل میں حاضری اور کچھ سننے کہنے کا موقع فراہم کیا، اللہ پاک آپ کی اس کاوش کو قبول فرمائیں اور اس تسلسل کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
حضرت صاحبزادہ محمد رفیق مجددی صاحب نے ایک بات فرمائی تھی اسی کو آگے بڑھاؤں گا کہ پاکستان ہمارے لیے اللہ کی نعمت ہے۔ پاکستان یقیناً ہمارے لیے نعمت ہے لیکن صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے اللہ کی رحمت ہے، اور اس کو میرے جیسے مسافر لوگ جانتے ہیں جنہوں نے دنیا گھومی ہے، اور پاکستان کی افواج صرف ہماری محافظ نہیں بلکہ عالمِ اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہیں۔ میں اس پر دو واقعات عرض کرنا چاہوں گا۔
جس زمانے میں بوسنیا اور سربیا میں قتلِ عام ہو رہا تھا، اجتماعی قبریں نکل رہی تھی اور مشرقی یورپ میں بوسنیا کے مسلمانوں کی کٹائی ہو رہی تھی، پرانے لوگوں کو یاد ہوگا، اس دور میں بوسنیا کے صدر تھے الحاج عزت بیگویج، وہ دنیا میں گھوم پھر کر اپنا ماجرا سنا رہے تھے، اپنی داستان بتا رہے تھے اور مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کر رہے تھے۔ لندن کی مسلمان تنظیموں نے ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا جس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ عزت بیگویج اپنا موقف اور صورتحال بیان کریں اور دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ ہمارے جس تعاون کے مستحق ہیں اس کی کوئی صورت نکالی جائے۔ پاکستان کی نمائندگی حضرت مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ کر رہے تھے۔ پاکستان سے دو نمائندے تھے ایک حضرت نورانیؒ اور ان کے رفیق کار کے طور پر دوسرا میں تھا۔ وہاں بوسنیا کے صدر نے ایک جملہ کہا، وہ میں آپ سے ذکر کرنا چاہوں گا۔ منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کی کٹائی ہو رہی ہے، ظلم ہو رہا ہے، اجتماعی قبریں نکل رہی ہیں اور دنیا چیخ رہی ہے۔ عزت بیگویج کا جملہ آج تک میرے سینے میں کھبا ہوا ہے، انہوں نے کہا، ہم بوسنیا کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں کوئی پاکستان نہیں ہے، ہماری سرحدیں پاکستان سے نہیں لگتیں۔ سچی بات ہے کہ پاکستان کی محبت تو پہلے بھی دل میں تھی لیکن اس جملے نے دل کی دنیا ہی بدل دی کہ پاکستان صرف ہمارے لیے ہی نہیں عالمِ اسلام کے لیے بھی اللہ کی نعمت ہے۔
جن دنوں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور اس پر دنیا میں شور مچا ہوا تھا، مصر کے ایک نامور صحافی ہیں فہمی ہویدی، مصر کے اخبار ’’الاہرام‘‘ میں لکھتے ہیں، دنیا کے بڑے کالم نگاروں میں سے ہیں، ان دنوں میں غالباً قطر سے سفر کر رہا تھا تو ہوائی جہاز میں اخبار میسر ہوتے ہیں، میں نے ’’الاہرام‘‘ پکڑ لیا کہ چند گھنٹوں کا سفر آرام سے گزر جائے گا۔ جب میں نے اخبار کھولا تو اس میں فہمی ہویدی کا کالم تھا، مصری دانشور نے ایک جملہ اس میں لکھا تھا کہ اب اسرائیل ہمارے ساتھ ہوش سے بات کرے، اب ہم ایٹمی قوت ہیں۔
میں تاریخ کا طالب علم ہوں، ایک جملہ اور عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے مغربی مہربانوں نے ۱۹۲۴ء میں جب لوزان معاہدے کے تحت خلافتِ عثمانیہ ختم کی تھی اور ہم پر شرطیں لگا دی تھیں، انہوں نے ہمارے ترک بھائیوں سے لکھوا لیا تھا کہ آئندہ دنیا میں اسلام کے نام پر کوئی حکومت نہیں بنے گی اور کسی مسلمان ملک میں شریعت نافذ نہیں ہوگی۔ اللہ کی قدرت اور اسلام کا اعجاز دیکھیں کہ ۱۹۲۴ء میں ہم بین الاقوامی معاہدے کے پابند ہو رہے ہیں اور ۱۹۴۷ء میں اسلام کے نام اور ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے پر ایک نئی سلطنت وجود میں آ رہی ہے۔ کیا یہ اسلام کا اعجاز اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ نہیں؟ قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ تعالیٰ سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو ایک تاریخی جملہ انہوں نے گاندھی جی کو لکھا تھا کہ ہمارے پاس قرآن مجید کی شکل میں ہمارا دستور موجود ہے۔
بس یہی باتیں آپ حضرات کے ذہنوں میں تازہ کرتے ہوئے آج دنیا والوں کے لیے پاکستان کا یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ہم اسلام کے نام پر، لا الٰہ الا اللہ کے نعرے پر، قرآن و سنت کی بالادستی پر، اللہ کی حاکمیت پر، اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر قائم ہیں اور ان شاء اللہ قائم رہیں گے۔ اسلام کے نام پر یہ ملک بنا ہے، اس میں اسلام آ کر رہے گا، اور ہماری جو کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں ان پر ہم قابو پائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ایک مغالطہ میں دور کرنا چاہتا ہوں جو مغربی ممالک اور سیکولر قوتوں کی طرف سے اکثر دیا جاتا ہے کہ یہ تو آپس میں بہت لڑتے ہیں۔ یہ بات ان کی ٹھیک ہے کہ ہم بہت لڑتے ہیں اور دنیا ہمارا تماشہ دیکھتی ہے لیکن میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ جب تمہاری باری آتی ہے تو ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، ختمِ نبوت کا مسئلہ ہو، ناموسِ رسالت کا مسئلہ ہو، دین کے تحفظ کا کوئی مسئلہ ہو، ہم سب اپنی لڑائیاں چھوڑ کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کو کون بھول سکتا ہے اور علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی، پیر صاحب آف مانکی شریف، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ تعالیٰ کو ایک اسٹیج پر کس نے کھڑا نہیں دیکھا۔ ختمِ نبوت کی تینوں تحریکوں میں ہم اکٹھے تھے، تحریکِ نظامِ مصطفیٰ میں حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ اور مولانا مفتی محمودؒ قیادت فرما رہے تھے اور ہم سارے اکٹھے تھے۔
اس لیے میں ان لوگوں سے کہا کرتا ہوں کہ اس بات پہ خوش نہ ہو کہ ہم آپس میں لڑتے ہیں،اس لیے کہ تمہاری جب باری آتی ہے تو پھر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان شاءاللہ العزیز ہم پاکستان کا تحفظ بھی کریں گے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کا تحفظ بھی کریں گے جس کے پیچھے پوری دنیا پڑی ہوئی ہے۔ پاکستان اسلامی بھی رہے گا، جمہوریہ بھی رہے گا اور پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ بھی نافذ ہوگا، ان شاء اللہ العزیز، یہی ہمارا پیغام ہے، اللہ پاک ہمیں ثابت قدمی نصیب فرمائے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔