دینی و عصری تعلیم کے حوالہ سے چند ضروری گزارشات

   
دارالعلوم فیض القرآن، بیس بگلہ، آزادکشمیر
۱۵ جون ۲۰۱۹ء

(۳۱ جون ۲۰۱۹ء کو دارالعلوم تعلیم القرآن (باغ، آزادکشمیر) اور ۱۵ جون کو دارالعلوم فیض القرآن (بیس بگلہ، آزادکشمیر) کے اجتماعات سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دینی مدارس کے تعلیمی سال کا اس عشرہ میں آغاز ہو رہا ہے اور پورے جنوبی ایشیا میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں دینی مکاتب و مدارس سالِ رواں کے تعلیمی دورانیہ کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں، اس لیے میں اس موقع پر دینی مدارس کے حوالہ سے کچھ سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا تاکہ دینی مدارس کے تعلیمی کام کی اہمیت کا آج کے تعلیم یافتہ لوگوں کو تھوڑا بہت اندازہ ہو جائے:

  • پہلا سوال ہے کہ ان مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟
  • دوسرا سوال یہ ہے کہ کیوں پڑھایا جاتا ہے؟
  • تیسرا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس اپنے اس عمل میں ریاستی نظام کا حصہ کیوں نہیں بنتے اور الگ تعلیمی نظام پر انہیں اصرار کیوں ہے؟
  • جبکہ چوتھا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس اور سکولوں کالجوں میں الگ الگ طور پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے، اس کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

یہ سوالات جب عام لوگوں کی طرف سے بات کو سمجھنے کے لیے کیے جاتے ہیں تو میرا جواب مختلف انداز میں ہوتا ہے، لیکن یہی باتیں جب جدید تعلیم یافتہ حضرات میں سے کچھ لوگ اعتراض اور طعن کے لہجے میں کرتے ہیں تو جواب کا لہجہ بدل جاتا ہے، اور آج میں اسی لہجہ و انداز میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

  1. پہلا سوال کہ ان مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے؟ اس کا جواب ان دوستوں کے لیے یہ ہے کہ جو کچھ آپ لوگوں نے پڑھانا چھوڑ دیا تھا اور اب تک اسے چھوڑے رکھنے پر مصر ہیں، ہم وہ پڑھا رہے ہیں۔ دینی مدارس کا یہ نصاب و نظام جو درس نظامی کہلاتا ہے، ۱۸۵۷ء سے پہلے پورے جنوبی ایشیا کا مجموعی نظام و نصاب تھا جو اکثر علاقوں اور اداروں میں پڑھایا جاتا تھا۔ اس کا آغاز سترہویں صدی کے آخری عشرہ (۱۶۹۰ء تا ۱۷۰۰ء) میں لکھنؤ کے ملا نظام الدین سہالویؒ نے کیا تھا اور یہ اب تک انہی سے منسوب چلا آرہا ہے۔ یہ کم و بیش ڈیڑھ سو سال تک پڑھایا جاتا رہا ہے اور اس میں قرآن کریم، حدیث و سنت، فقہ و شریعت، اور عربی و فارسی زبانوں کے ساتھ ساتھ حساب (ریاضی)، ہندسہ (انجینئرنگ)، فلکیات (سائنس)، طب (میڈیکل)، اور آلات سازی (ٹیکنالوجی) وغیرہ شامل تھے۔ اور دینی و عصری ضرورت کے تمام علوم و فنون ایک نظام کے تحت، ایک چار دیواری میں اور ایک چھت کے نیچے پڑھائے جاتے تھے، حتیٰ کہ ملکی نظام میں شریک ہونے کے خواہشمند غیر مسلم بھی یہی پڑھتے تھے، کیونکہ فارسی زبان ملک کی دفتری اور عدالتی زبان تھی اور فقہ اسلامی ملک کا عمومی قانون تھی، اس لیے یہ درس نظامی سب کی مشترکہ ضرورت تھی۔

    ۱۸۵۷ء میں جب جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برطانیہ نے دہلی پر قبضہ کر کے پورے ریاستی نظام کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور دفتری و عدالتی زبان فارسی کی بجائے انگریزی کو قرار دے کر عمومی قانون فقہ اسلامی کی بجائے انگریزی قانون کو بنا دیا تو تعلیمی نظام بھی اس کے مطابق تبدیل کیا اور قرآن حدیث، فقہ، عربی اور فارسی کے مضامین نصاب سے خارج کر دیے۔ جس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر ان علوم کی تعلیم و تدریس ختم ہو گئی تو دو تین نسلوں کے بعد معاشرہ میں ان کا وجود باقی نہیں رہے گا، اس لیے چند خدا ترس بزرگوں کی توجہ اور محنت سے ان علوم کو باقی رکھنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر میں دینی مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع ہو گیا، جن علوم و فنون کو انگریزوں نے نصاب و نظام سے نکال دیا تھا اور جن کے خدانخواستہ ختم ہو جانے کا ماحول اور خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔

    یہ صورتحال انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اور آزادی مل جانے کے بعد بھی بدستور اسی طرح قائم ہے کہ ریاستی نظام ان علوم و فنون کو اپنے نظام و نصاب کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے دینی مدارس کے اس کردار کی ضرورت اب بھی اسی درجہ میں موجود ہے جس طرح ۱۸۵۷ء کے بعد تھی، بلکہ آزادی کے بعد پاکستان کے قیام کے ساتھ یہ عزم کیا گیا کہ پاکستان کا نظام قرآن و سنت کے مطابق ہو گا اور اس ملک میں اسلامی تعلیمات و قوانین کی عملداری ہو گی مگر ملک کے اس دستوری اور قومی عزم کے مطابق ریاستی نظام تعلیم، انتظامیہ اور عدلیہ کے افسران و ملازمین کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے روشناس کرائے اور اس حوالہ سے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ابھی تک قبول نہیں کر رہا، اس لیے ان دینی مدارس کی ضرورت وہ اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس یہ سب کچھ کیوں پڑھا رہے ہیں؟ اس کے لیے گزارش ہے کہ یہ ہماری ضرورت ہے۔ شخصی ضرورت بھی ہے کہ ایک مسلمان کے طور پر صحیح زندگی بسر کرنے کے لیے ہر مسلمان کا قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔ یہ خاندانی ضرورت بھی ہے کہ گھروں میں خیر و برکت کے حصول کے ساتھ ساتھ خاندانی احکام و قوانین، نکاح و طلاق کے مسائل، رشتوں کا تقدس و احترام، حلال و حرام کی حدود اور معاشرتی تعلقات و روابط کو صحیح دائرے میں رکھنے کے لیے شرعی احکام سے آگاہ ہونا لازمی ہے۔ اور یہ ہماری قومی ضرورت بھی ہے کہ ملک کا نظام دستور کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں چلانے کے لیے عدلیہ اور انتظامیہ کے افسروں اور ملازموں کا اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور ہونا اور اس کے مطابق ان کی تربیت ایک ناگزیر دستوری تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ ریاستی نظام تعلیم ان میں سے کسی ضرورت کو اپنے نصاب کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے یہ دینی مدارس پورے شعور و ادراک کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر طبقہ کے باشعور مسلمان ان سے تعاون کر رہے ہیں۔
  3. تیسرا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس اس حوالہ سے ریاستی نظام کا حصہ بننے اور اس پر اعتماد کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں اور اپنے الگ نظام پر انہیں اصرار کیوں ہے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ایسا دو وجہ سے ہے۔

    ایک یہ کہ ریاستی نظام تعلیم قرآن و سنت کے علوم کے لیے ابھی تک اپنی سنجیدگی کا ماحول پیدا نہیں کر سکا اور ۱۸۵۷ء میں نصاب تعلیم سے نکالے گئے مضامین کو ان کی تمام تر قومی و معاشرتی ضرورت کے باوجود نصاب میں واپس لینے پر آمادہ نہیں ہے۔ بلکہ ملک کا دستور جن مضامین کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کا تقاضہ کر رہا ہے، انہیں شامل نہیں کیا جا رہا۔ حتیٰ کہ دینی تعلیم کا بالکل ابتدائی درجہ کہ نئی نسل کو قرآن کریم ناظرہ اور سادہ ترجمہ کے ساتھ پڑھا دیا جائے، یہ بھی ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہو سکا۔ اس لیے دینی مدارس اس حوالہ سے ریاستی نظام کا حصہ بننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور انہیں بجا طور پر خطرہ دکھائی دے رہا ہے کہ اس صورت میں وہ اپنے تعلیمی کردار سے محروم ہو جائیں گے۔

    جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ تجربہ کے طور پر یہ کام ہم صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں کر چکے ہیں جو ناکام رہا ہے۔ اس دور میں محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف نے بیسیوں دینی مدارس کو یہ کہہ کر تحویل میں لیا تھا کہ وہ دونوں تعلیموں کو اکٹھا کریں گے اور ان کے انتظامات زیادہ بہتر طور پر چلائیں گے، مگر ان میں سے اکثر مدارس یا تو وجود تک سے محروم ہو گئے یا ان کی حیثیت تبدیل ہو گئی ہے۔ نمونہ کے طور پر جامعہ عباسیہ بہاولپور اور جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ کا نام لیا جا سکتا ہے کہ سرکاری تحویل میں جانے سے قبل ان کی کیفیت کیا تھی اور اب وہ کس حال میں ہیں؟ میری یہ عام دعوت ہوتی ہے کہ کوئی بھی شخص ان دونوں اداروں میں جا کر اس صورتحال کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ تجربہ پہلے ہو چکا ہے جسے دوبارہ دہرانا نہ عقل و دانش کی بات ہے اور نہ ہی دینی تعلیم اور قومی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہے۔

  4. چوتھا سوال یہ ہے کہ دینی مدارس اور سکول و کالج کے تعلیمی نصابوں میں فرق کی نوعیت کیا ہے؟ اس کے بارے میں گزارش ہے کہ یہ بات درست ہے کہ جو کچھ دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے وہ سکولوں کالجوں میں نہیں پڑھایا جاتا، اور جو سکولوں کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے وہ دینی مدارس کے نصاب کا حصہ نہیں ہے، مگر موجودہ معروضی صورتحال میں یہ دونوں ہماری ضروریات میں شامل ہیں۔ دینی تعلیم بھی ہماری ضرورت ہے اور سکول و کالج کی تعلیم بھی ہماری ضرورت ہے۔ ان میں سے کسی کی نفی نہیں کی جا سکتی اور کسی کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہوتا۔

    انسان جسم اور روح دونوں کے تعلق سے بنتا ہے، جسمانی ضروریات کو پورا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور روحانی ضروریات کو نظر انداز کرنے سے بھی بات نہیں بنتی۔ اس لیے موجودہ حالات میں اسے باہمی کشمکش کی بجائے تقسیم کار سے تعبیر کیا کرتا ہوں کہ ایک دائرے کی ضرورت دینی مدارس پوری کر رہے ہیں اور دوسرے دائرے کی ضرورت سکول و کالج سے پوری ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر یہ عرض کرتا ہوں کہ میڈیکل سائنس انسانی جسم کے بارے میں بہت معلومات دیتی ہے اور ریسرچ کرتی رہتی ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے اور اسے کیسے صحیح رکھا جا سکتا ہے؟ یہ ہماری ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضرورت ہے کہ معلوم کیا جائے کہ ہمارا مقصدِ وجود کیا ہے اور ہمیں کس نے بنایا ہے؟ اپنی جیب میں لگے ہوئے قلم کے بارے میں تو میں یہ سوال کرتا ہوں کہ یہ کیا ہے؟ کیسے کام کرتا ہے؟ کیا کام کرتا ہے؟ اور کس کمپنی نے بنایا ہے، مگر خود اپنے بارے میں یہ بات میری سوچ میں شامل نہیں ہے۔

    کسی بھی چیز کے بارے میں یہ چار باتیں معلوم ہونے کے بعد ہی اس کی پہچان مکمل ہوتی ہے کہ: (۱) یہ کیا ہے؟ (۲) کیسے کام کرتی ہے؟ (۳) اس کا مقصد کیا ہے؟ (۴) اور اسے کس نے بنایا ہے؟ میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ میڈیکل سائنس ہمیں ہمارے بارے میں دو سوالوں کا جواب تو فراہم کرتی ہے کہ ہمارے جسم کا نیٹ ورک اور میکنزم کیا ہے اور یہ کیسے صحیح طور پر کام کرتا ہے، لیکن دوسرے دو سوال میڈیکل سائنس کے موضوع سے ہی خارج ہیں کہ ہمیں کس نے بنایا ہے اور کس مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے؟ ان دو سوالوں کا جواب ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے، وحی الٰہی سے ملتا ہے اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات سے ملتا ہے، جو دینی مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔

    یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے ورنہ زندگی کے تمام شعبوں میں صورتحال یہی ہے کہ ظاہری معلومات اور سسٹم کا علم ہمیں ایک جگہ سے ملتا ہے، جبکہ روحانی تقاضوں اور مقصدی ضروریات سے ہمیں دوسرا تعلیمی نظام آگاہ کرتا ہے، یہ دونوں ہماری یکساں ضرورت ہیں۔ اس لیے سب سے بہتر صورت تو یہ ہے کہ یہ دونوں ۱۸۵۷ء سے پہلے کی طرح یکجا ہو جائیں لیکن اس کے لیے باہمی اعتماد کا ماحول لازمی ہے جو قائم نہیں ہو رہا، بلکہ قائم نہیں ہونے دیا جا رہا۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان دونوں ضرورتوں کا شعوری ادراک و احساس رکھنے والے حضرات میں باہمی مشاورت اور اشتراک عمل ضروری ہے جس سے اس تقسیم کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اور میری گزارش ہے کہ دونوں طرف کے سنجیدہ اصحابِ فکر و دانش کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور کردار ادا کرنا چاہیے۔، اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق دیں، آمین ثم آمین۔

2016ء سے
Flag Counter