سہ روزہ دعوت دہلی کے یکم نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پروفیسر ایچ اے ہیلر نے جو ایک برطانوی یونیورسٹی میں نسلی تعلقات کے تحقیقی مرکز کے سر براہ ہیں ’’یورپ کے مسلمان‘‘ نامی اپنی کتاب میں کہا ہے کہ:
’’یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کی بحث سکیورٹی کے مسائل سے شروع ہوئی تھی اور اس کا تناظر القاعدہ جیسے گروپوں کا طرز عمل تھا۔ یورپی باشندوں کو خوف تھا کہ انتہاپسند مسلم گروپوں کی پرتشدد سر گرمیاں یورپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ مگر اس بحث کا رخ جلد ہی تبدیل ہو گیا ہے اور اب خوف یہ ہے کہ مغربی تہذیب کو خود اسلامی تہذیب سے خطرہ ہے یعنی اب القاعدہ سے خطرہ نہیں بلکہ ان مسلمانوں سے خطرہ ہے جو مغربی ملکوں میں آباد ہیں اور اپنی مذہبی اقدار پر مصر اور عمل پیرا ہیں۔‘‘
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا مغربی معاشروں میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اپنی تہذیب و ثقافت پر قائم رہنے پر اصرار، نیز مختلف مواقع پر اسلامی اخلاق کا مظاہرہ مقامی آبادیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اور برطانوی صحافی تھیونس بیٹس نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ:
’’مغربی ممالک میں اسلامی پردہ یا مسجد کے میناروں پر اعتراض محض علامتی ہے، اصل پریشانی اسلامی ثقافت سے ہے اور اہل مغرب کو تو سور اور شراب سے مسلمانوں کے اجتناب پر بھی اعتراض ہے کیونکہ مغرب میں رہنے والے مسلمان رفتہ رفتہ باعمل بن رہے ہیں اور اب وہ مسلمان بھی جو شراب اور سور کا استعمال کرتے تھے یہ سب کچھ چھوڑ کر اپنی مسلم شناخت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘‘
ہمارے خیال میں اصل قصہ یہ ہے کہ مغرب کے ذہن میں ابھی تک اندلس پر دوبارہ مسیحی قبضہ اور وہاں کی آبادی کو زبردستی مسیحی کر لینے، حتٰی کہ اسپین سے فرار ہو کر امریکہ اور دوسرے ممالک میں جانے والے مسلمان خاندانوں کے رفتہ رفتہ اسلام سے کنارہ کش ہو جانے کا منظر تسلط جمائے ہوئے ہے۔ اس لیے بہت سے مغربی ممالک میں دنیائے اسلام سے ترک وطن کر کے آنے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلم خاندانوں کو اس خیال سے خوش آمدید کہا گیا اور معاشرتی سہولتوں اور مراعات میں شریک کیا گیا کہ رفتہ رفتہ یہ سب لوگ ایک دو نسلوں کے بعد اسلام سے کنارہ کش ہو کر مقامی آبادی میں ضم ہو جائیں گے۔ لیکن یہ تجربہ الٹ ہو گیا ہے اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے دین اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی نہ صرف برقرار رکھی ہوئی ہے بلکہ مساجد و مدارس اور تبلیغی مراکز کے ذریعے اسلامی ماحول کی جھلک کو بھی قائم رکھا ہے جو مغربی دنیا میں اسلام کے تعارف کا ذریعہ بن رہی ہے۔
مغرب اور مسلمانوں کے درمیان گزشتہ دو صدیوں سے جاری کشمکش میں سیاسی، معاشی، عسکری، سائنسی اور اسباب و وسائل کے دائروں میں تو مسلمانوں کی مغلوبیت کا منظر ہی اب تک دکھائی دے رہا ہے لیکن عقیدہ و ثقافت کے محاذ پر آج بھی مسلمان مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس دائرے میں مغرب کی پسپائی اب رفتہ رفتہ پریشانی اور جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔ تاریخ کا طالب علم ہونے کے حوالہ سے ہمارا وجدان یہ کہتا ہے کہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کن معرکہ آرائی عقیدہ و ثقافت کے اسی میدان میں ہو گی اور اسلامی تہذیب و ثقافت ایک بار پر پھر پورے جوش و جذبہ کے ساتھ نسل انسانی کی راہنمائی اور قیادت کے لیے میدان میں موجود ہو گی۔ اسی لیے ہم اپنے دینی مدارس اور علمی مراکز سے بار بار یہ گزارش کرتے رہتے ہیں کہ وہ فکر و عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی اس کشمکش کا صحیح طور پر ادراک کریں اور اس کے لیے مثبت اور مؤثر طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے اساتذہ اور طلبہ کو تیار کریں۔