قندھار جانا ہو اور احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضری نہ ہو، یہ میرے جیسے تاریخ کے طالب علم کے لیے ممکن ہی نہیں۔ گزشتہ دفعہ جب قندھار گیا تو احمد شاہ ابدالیؒ کے مزار پر بھی گیا۔ اس وقت مزار کے دروازے کھلے تھے اس لیے نیچے تہہ خانے میں اتر کر قبر کی پائنتی پر کافی دیر کھڑا رہا اور فاتحہ خوانی کے بعد تصور کی دنیا میں احمد شاہ باباؒ سے راز و نیاز میں مصروف رہا۔ مگر اس بار حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ہمراہ حاضری ہوئی تو دروازے بند تھے اس لیے باہر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی اور ’’خلوت‘‘ میسر نہ ہونے کی وجہ سے راز و نیاز کا شوق بھی ادھورا رہ گیا۔
احمد شاہ ابدالیؒ کو افغان عوام محبت و عقیدت سے احمد شاہ باباؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی عقیدت سے اس عظیم افغان فرمانروا کی قبر پر حاضری بھی دیتے ہیں جس نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں قندھار میں افغان سلطنت کی بنیاد رکھی اور صرف ربع صدی کے عرصہ میں اس کی سرحدیں دریائے آمو سے دریائے سندھ تک اور تبت سے خراسان تک وسیع کر کے ۵۱ برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔
احمد شاہ ابدالیؒ ۱۷۲۴ء میں ملتان میں پیدا ہوا۔ افغانستان کے ابدالی قبیلہ کے پوپلزئی خاندان کی سدوزئی شاخ سے اس کا تعلق ہے۔ اس کا باپ سردار زمان خان مرحوم ہرات پر ایرانیوں کے قبضہ کی مزاحمت کرتا رہا مگر ناکام رہا اور ایرانی ہرات پر قابض ہوگئے۔ اس کے بعد سردار زمان خان کے بھائی ذوالفقار خان نے ایرانیوں کے خلاف بغاوت کی مگر وہ کامیاب نہ ہوا اور ۱۷۳۱ء میں ہرات پر ایرانی قبضہ مکمل ہوگیا۔ سردار زمان خان کا بیٹا احمد خان ایرانی فرمانروا نادر شاہ کی فوج میں بھرتی ہوا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ایک سپاہی کے منصب سے ترقی کرتے ہوئے صرف تئیس برس کی عمر میں سپہ سالار کے مقام تک جا پہنچا۔ مگر ۱۷۴۷ء میں قزلباشوں کے ہاتھوں نادر شاہ قتل ہوا توا حمد خان نے دیگر افغان فوجیوں کے ہمراہ وطن واپسی کی راہ اختیار کی، قندھار میں افغان سلطنت کی بنیاد رکھی، احمد شاہ کا لقب پایا، اور در دراں (موتیوں کا موتی) کا خطاب حاصل کیا جس کی وجہ سے اسے درانی کہا جاتا ہے۔ احمد شاہ ابدالیؒ نے ۱۷۷۳ء میں وفات پائی مگر اس دوران مسلسل معرکہ آرائی اور فوجی مہمات میں اس نے اپنی سلطنت کو دریائے آمو سے دریائے سندھ تک اور تبت سے خراسان تک وسیع کر لیا جس میں کشمیر، پشاور، ملتان، سندھ، بلوچستان، ایرانی خراسان، ہرات، قندھار، کابل اور بلخ کے علاقے شامل تھے۔
احمد شاہ ابدالیؒ نے ہندوستان پر نو حملے کیے اور ایک مرحلہ پر لاہور اور سرہند پر قبضہ کر کے انہیں بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ مگر اس کا سب سے بڑا معرکہ پانی پت کی تیسری لڑائی ہے جس میں اس نے جنوبی ہند کے جنونی مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کا راستہ روکا اور شمالی ہند کے اس خطہ کو، جسے آج پاکستان کہلانے کا شرف حاصل ہے، ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے نام مخصوص کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مغل بادشاہت زوال کا شکار تھی۔ اسے ایک طرف سمندر پار سے تجارت کے نام پر آنے والی کمپنیوں نے، جن میں برطانیہ اور فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنیاں سر فہرست تھیں، دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔ دوسری طرف سے جنوبی ہند کے انتہا پسند ہندوؤں یعنی مرہٹوں کی فوج دہلی پر قبضہ کے لیے بے چین تھی۔ تیسری طرف پنجاب میں سکھوں نے اپنی قوت اور خودمختاری کے اظہار کا آغاز کر دیا تھا۔ اور اسی فضا میں ایرانی فرمانروا نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور وہ قتل عام کیا تھا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اس وقت حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی و دینی قیادت کا علم اٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے دہلی کی طرف ہندو مرہٹوں کی یلغار کو شمالی ہند کے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے مغل بادشاہت کو اس کے مقابل بے بس پا کر احمد شاہ ابدالیؒ سے مدد کی فریاد کی۔ مرہٹے بھی اپنے مقابلہ میں افغانوں کے وجود کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور ۱۷۵۸ء میں پنجاب کو افغانوں سے خالی کرانے کی مہم میں پشاور تک یلغار کر چکے تھے۔ اس پس منظر میں افغانوں کی یہ ابھرتی ہوئی قوت ہی عالم اسباب میں شمالی ہند کے مسلمانوں کا سب سے بڑا سہارا بن سکتی تھی۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالیؒ نے ۱۷۶۱ء میں مرہٹوں کے مقابلہ کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی کی اور پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو تاریخی شکست سے دوچار کرنے کے بعد دہلی کی حکومت ایک بار پھر مغل بادشاہ محمد شاہ کے سپرد کر کے اپنے وطن واپس لوٹ گیا۔
’’تاریخ مختصر افغانستان‘‘ کے مصنف عبد الحئی حبیبی مرحوم کا کہنا ہے کہ احمد شاہ ابدالیؒ حنفی المذہب عالم تھا، دینی احکام کا پابند اور متشرع حکمران تھا۔ اور شعر و شاعری اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتا تھا۔ پشتو میں احمد شاہ ابدالیؒ کا دیوان عبد الحئی حبیبی مرحوم نے ہی شائع کیا ہے جو اڑھائی ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے اور اس میں غزل، رباعی، قطعات، اور مخمس وغیرہ کی مختلف شعری اصناف شامل ہیں۔ تصوف و سلوک میں اپنے وقت کے دو بڑے شیوخ حضرت شاہ فقیر اللہ جلال آبادیؒ اور حضرت میاں محمد عمر پشاوریؒ سے اس کا ارادت کا تعلق تھا۔ اور سلوک و معرفت کے مسائل پر بھی اس کا شاعرانہ کلام موجود ہے جس کی شرح پشاور کے قاضی ملا محمد غوثؒ نے ’’شرح الشرح‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔
احمد شاہ ابدالیؒ کی فرمانروائی کا یہ پہلو تاریخ کی نظر میں عجیب اور ناقابل فہم ہے کہ اس نے مسلمان سرداروں اور حکمرانوں پر تسلط حاصل کرنے اور انہیں میدان جنگ میں شکست دینے کے باوجود ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا اور ان کے علاقوں پر مسلسل قبضہ برقرار رکھنے کی بجائے انہی کو مناسب شرائط پر ان کے علاقے لوٹا دیے۔ مؤرخ حبیبی مرحوم نے احمد شاہ ابدالیؒ کے اس طرز عمل کو تاریخی طور پر عجیب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دہلی، بخارا، خراسان، سندھ اور بلوچستان کے حکمرانوں کے ساتھ اس نے یہی معاملہ کیا۔ اور پانی پت کا معاملہ تو ہمارے سامنے ہے کہ مرہٹوں کی خوفناک شکست کے بعد اگر احمد شاہ ابدالیؒ دہلی میں بیٹھ جاتا اور ہندوستان پر اپنی حکمرانی کا اعلان کر دیتا تو دنیا کی کوئی طاقت اسے اس اقدام سے نہیں روک سکتی تھی۔ بلکہ تاریخ کے میرے جیسے طالب علم کی نظر میں اس وقت احمد شاہ ابدالیؒ کے دہلی میں بیٹھ جانے کی صورت میں نہ صرف فرنگیوں کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے بلکہ سکھوں کی روز افزوں سرکشی بھی کنٹرول میں رہتی۔ لیکن احمد شاہ ابدالیؒ نے اپنی افتاد طبع اور اس کے ساتھ اپنے پیچھے قندھار میں بغاوت کے آثار دیکھ کر واپس لوٹ جانے کو ترجیح دی۔
مؤرخ حبیبی مرحوم نے احمد شاہ ابدالیؒ کے اس طرز عمل پر بحث کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے کہ ابدالیؒ کا یہ رویہ اس دنیا کے معاملات کے حساب سے نہ تھا۔ گویا حضرت شاہ صاحبؒ کے نزدیک احمد شاہ ابدالیؒ کا معاملہ تکوینیات اور عالم غیب سے تھا کہ وہ اپنے ذمہ عائد کی گئی ذمہ داری ادا کر کے اسی طرح واپس چلا گیا۔