پسند کی شادیاں اور طلاق کی شرح

   
دسمبر ۲۰۱۷ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ۱۱ نومبر ۲۰۱۷ء کو شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’پسند کی شادیاں کرنے والی پندرہ سو لڑکیوں نے شادی کے ایک برس بعد ہی طلاقیں لے لیں۔ قانونی ماہرین نے پسند کی شادیوں کو معاشرے کے لیے بوجھ قرار دے دیا ہے۔ رواں برس میں جنوری سے نومبر تک لاہور کی سول عدالتوں نے دو ہزار خواتین کو طلاق کے سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں جن میں پندرہ سو خواتین پسند کی شادیاں کرنے والی شامل ہیں۔ ان عدالتوں نے یہ سرٹیفکیٹس یکم جنوری سے یکم نومبر کے درمیانی عرصہ کے دوران جاری کیے ہیں، طلاق لینے والی ان دو ہزار خواتین میں سے پندرہ سو نے اپنی مرضی سے شادیاں کی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ طلاق لینے والی ان خواتین کی علیحدگی کی وجہ گھریلو ناچاقیاں ہیں۔‘‘

یہ صورتحال صرف لاہور کی ہے اور دس ماہ کے عرصہ کی ہے جس سے ملک بھر کی عمومی صورتحال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اس میں ہمارے خیال کے مطابق صرف پسند کی شادی اس کا سبب نہیں ہے بلکہ یہ عدالتی پالیسی بھی اس کا باعث ہے کہ خلع کو عورت کا مطلقاً حق طلاق سمجھ کر، دونوں فریقوں کا موقف معلوم کیے بغیر، اور انصاف کے معروف تقاضے پورے کیے بغیر علیحدگی کی ڈگریاں جاری کی جا رہی ہیں، جس سے خاندانی نظام مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

مغرب نے ترقی یافتہ سولائزیشن کے عنوان سے مرد اور عورت کے درمیان غیر فطری مساوات کا جو طریق کار گزشتہ دو صدیوں سے اختیار کر رکھا ہے اس نے ان کے ہاں تو خاندانی نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں، مگر اپنے ہاں خاندانی رشتوں کا یہ حشر دیکھتے ہوئے بھی مغرب کا اصرار ہے کہ دنیا کی ساری اقوام اپنے اپنے مذہبی احکام اور ثقافتی روایات و اقدار سے دستبردار ہو کر مغرب کا یہ نظام اپنائیں۔ جبکہ عالم اسلام کے مغرب پرست حلقے نتائج و عواقب کی پروا کیے بغیر مسلم معاشروں میں مغربی کلچر کے فروغ اور نفوذ کے لیے سرگرم عمل ہیں، اور اس وقت مسلمانوں کا خاندانی نظام مغرب کی ثقافتی یلغار کا سب سے بڑا ہدف دکھائی دے رہا ہے۔ قرآن کریم نے اسی قسم کی صورتحال کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء’’ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح دینی احکام سے انکار کر دو جیسے انہوں نے انکار کر رکھا ہے تا کہ تم سب ایک جیسے ہو جاؤ۔ چنانچہ مغرب ساری دنیا بالخصوص عالم اسلام کو اپنے جیسا بنانے کے لیے مسلسل مصروف عمل ہے اور فنڈنگ، لابنگ، میڈیا اور دباؤ کے تمام حربے اسی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

ہمارے ہاں عائلی قوانین کے عنوان سے مغربی ایجنڈے کے مطابق شرعی احکام و قوانین کی من مانی تاویلات کا سلسلہ اب سے نصف صدی قبل شروع ہو گیا تھا۔ جس کی علماء کرام اور دینی اسکالرز نے ہمیشہ مخالفت کی ہے اور دلیل و منطق کے ساتھ اس بات کو واضح کیا ہے کہ معاشرتی اور خاندانی نظام میں شرعی احکام و قوانین سے روگردانی کا نتیجہ خاندانی نظام کے بکھرنے اور معاشرے میں اخلاقی خلفشار کی صورت میں سامنے آ رہا ہے، مگر علماء کرام کے اس موقف کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ہمیشہ اس کی حوصلہ شکنی بلکہ اس کا اظہار کرنے والوں کی کردارکشی کی گئی ہے، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ طلاق کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور خاندانوں میں باہمی اعتماد کا ماحول سبوتاژ ہو کر رہ گیا ہے۔

ہمارے ہاں صورتحال اس حوالہ سے بہرحال بہتر ہے کہ معاشرتی اور خاندانی ماحول میں شرعی احکام سے دستبرداری اور انہیں قبول کرنے سے انکار کی فضا عمومی ماحول میں قائم نہیں کی جا سکی، کیونکہ عام مسلمان اب بھی تمام تر خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود قرآن و سنت کے ساتھ وفاداری کی بات کرتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت و عقیدت میں جذبات کی انتہا کو چھونے لگتا ہے، اسی وجہ سے عام مسلمانوں سے یہ بات کہنے کا حوصلہ اب تک کسی میں نہیں ہے کہ شریعت کے احکام آج کے دور میں (نعوذ باللہ) قابل عمل نہیں رہے۔ اس لیے مسلمان ان پر مصر رہنے کی بجائے متبادل کی سوچ پیدا کریں بلکہ ان کے سامنے قرآن سنت کے احکام و قوانین کو من مانے معانی دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مغربی ثقافت کی جن اقدار کو قبول کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ خود قرآن و سنت کا تقاضہ ہے اور آج کے دور میں قرآنی احکام کا یہی مفہوم بنتا ہے۔ مگر قرآن و سنت اور فقہ و شریعت کی تعلیم ہر طرف عام ہونے کی وجہ سے یہ بات بھی عام مسلمانوں کو ہضم نہیں ہو رہی، چنانچہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے یہ کھیل جاری ہے کہ وقفہ وقفہ سے کوئی نہ کوئی دانشور کھڑے ہو کر قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا نیا ایڈیشن تیار کرتے ہیں، اسے بڑی محنت اور سلیقے کے ساتھ پیش کرتے ہیں، اور قرآن و سنت کی روایتی اور اجماعی وراثت کے طور پر چلی آنے والی تعبیرات و تشریحات کے بارے میں تحقیر و استہزا کا بازار گرم کر دیتے ہیں، مگر اس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ زیادہ سے زیادہ چند سو نوجوان ان کے ساتھ مل کر بے راہ ہو جاتے ہیں اور بالآخر امت کے اجتماعی علمی دھارے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے دوران امت مسلمہ نے ایسے بیسیوں دانشوروں کو ابھرتے، چمکتے اور پھر اسی تیزی کے ساتھ غروب ہوتے دیکھا ہے جبکہ امت کی اجماعی علمی روایت پوری قوت کے ساتھ کھڑی گنگنا رہی ہے کہ:

؂ جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

پسند کی شادی کا مذکورہ معاملہ بھی اسی مہم کا حصہ ہے، اسلام نے شادی میں مرد کی طرح عورت کی پسند کو بھی ضروری قرار دیا ہے اور اس کی رضامندی کے بغیر جبری شادی کو قطعی طور پر ناجائز اور ظلم کہا ہے۔ لیکن عورت کی پسند کے احترام کی آڑ میں نکاح اور شادی کو والدین کے دائرۂ اختیار سے ہی نکال دینے کے عمل کو بھی اسلام اسی طرح ناپسند کرتا ہے اور والدین کو بالغ لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کے نکاح سے روکتے ہوئے ولایت اور کفاءت کے عنوان سے شادی میں والدین کے کردار اور خاندان کی عزت و وقار کی حدود کا بھی تعیین کرتا ہے۔قرآن و سنت اور فقہ و شریعت میں ولایت اور کفاءت کے تحت کسی بھی لڑکے اور لڑکی کے نکاح میں خاندانی عزت و وقار اور والدین کے کردار کا جو لحاظ رکھا ہے اس کو نظر انداز کر کے صرف لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی کو نکاح کی بنیاد قرار دینا شرعی احکام اور اسلامی ذوق و مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مگر ہمارے ہاں قرآن و سنت کی تعلیم سے عاری اور اسلامی روایات سے ناواقف جج صاحبان جس طرح کے فیصلے صادر کرتے جا رہے ہیں اس کا نتیجہ اسی خلفشار کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے جس کی ایک جھلک مذکورہ بالا خبر میں دیکھی جا رہی ہے اور اس پر قانونی ماہرین کی پریشانی بھی سب کے سامنے ہے۔ خبر کے مطابق قانونی ماہرین نے جس پریشانی کا اظہار کیا ہے وہ بجا ہے لیکن اس کا حل یہ ہے کہ:

  • خاندانی نظام کے بارے میں قرآن و سنت کے احکام سے انحراف اور ان کی من مانی تاویلات کے طرز عمل پر نظر ثانی کی جائے۔
  • جج صاحبان کو باقاعدہ قانون کے تعلیمی نصاب میں قرآن و سنت کے خاندانی احکام و قوانین کی تعلیم دی جائے اور قضاء و عدالت کی اسلامی روایات سے واقف کرایا جائے۔
  • مغربی ثقافت کے ساتھ فاصلہ کی شعوری پالیسی اختیار کی جائے اور مغربی ثقافت کے فروغ و نفوذ کے لیے سرگرم عمل این جی اوز اور دیگر حلقوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے۔
  • ملک کے عمومی تعلیمی نظام میں قرآن و سنت کے معاشرتی اور خاندانی احکام کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
  • میڈیا اور لابنگ کے ذرائع کو دستور پاکستان کے مطابق اسلامی اقدار و روایات کے فروغ کا پابند بنایا جائے اور فحاشی و عریانی کے ساتھ ساتھ مادرپدر آزادی کی حوصلہ شکنی کو پالیسی بنایا جائے۔

یہ ہم سب کی صرف دینی ذمہ داری نہیں بلکہ دستوری تقاضہ اور معاشرتی ضرورت بھی ہے، خدا کرے کہ ہم اپنے اپنے دائرہ میں اس ذمہ داری اور ضرورت کا صحیح طور پر ادراک و احساس کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter