لوئیس فرخان کا اسلام اور صدر قذافی

   
۲۵ جولائی ۱۹۹۸ء

برادر مسلم ملک لیبیا کے صدر جناب معمر قذافی نے اس سال عید میلا النبیؐ کے موقع پر دنیا بھر کے سرکردہ مسلم لیڈروں کو طرابلس آنے کی دعوت دی جس پر مختلف ممالک کی حکومتوں کے ذمہ دار حضرات اور دیگر ممتاز لیڈر لیبیا میں جمع ہوئے۔ پروگرام کے مطابق قصبہ بایدہ کی بلال مسجد میں ان راہنماؤں نے صدر قذافی کی امامت میں نماز ادا کرنا تھی لیکن موصوف کے زخمی ہونے کے باعث وہ نماز نہ پڑھا سکے اور ٹی وی پر انہیں بیڈ پر لیٹے ہوئے ان راہنماؤں کا خیرمقدم کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس موقع پر لیبیا میں جمع ہونے والے راہنماؤں میں گیمبیا کے صدر یحییٰ جانمی اور جمہوریہ مالی کے صدر ایلفا عمر کونرے سمیت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سرکردہ حضرات شامل تھے۔

صدر قذافی کے بارے میں گزشتہ دنوں ایک خبر آئی تھی کہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے ہیں اور لیبیا کی ایک انتہا پسند اسلامی تنظیم نے اس حملہ کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ لیکن لیبیا کے سرکاری حلقے ایسے کسی حملے کی نفی کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صدر قذافی پھسلنے کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں اور ان کی کوہلے کی ہڈی متاثر ہوئی ہے۔ جہاں تک صدر قذافی کے زخمی ہونے کا تعلق ہے وہ کسی بھی وجہ سے زخمی ہوئے ہوں ہم ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔ وہ پاکستان کے دوست ہیں اور ایک دوست و برادر ملک کے سربراہ ہیں، اس لیے ان کی علالت ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔

البتہ مذکورہ اجتماع کے حوالے سے ہمیں ان سے ایک شکایت ہے کہ انہوں نے مسلمان راہنماؤں کے اس عالمی اجتماع میں امریکہ کے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے جن صاحب کو دعوت دی ہے وہ خود مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ یہ صاحب اسلام کے نام پر قادیانیوں کی طرز پر کھلے انحراف اور ارتداد کی تبلیغ کر کے ملت اسلامیہ کے لیے ویسی ہی مشکلات کھڑی کر رہے ہیں جیسی مشکلات برصغیر کے مسلمانوں کے لیے قادیانیوں نے پیدا کر رکھی ہیں۔ ان کا نام لوئیس فرخان ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ ایک عرصہ سے انہیں امریکہ کے مسلمانوں کے لیڈر کے طور پر نمایاں کرنے میں مصروف ہیں۔

لوئیس فرخان کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ امریکہ کے شہر ڈیٹرائٹ میں ’’فارد محمد‘‘ نامی ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ وہی مسیح ہے جس کا دنیا بھر کی مسیحی برادری انتظار کر رہی ہے، اور وہی مہدی ہے جس کا مسلمانوں کو انتظار ہے۔ اسے ایلیجاہ محمد جیسا ایک شعلہ نوا ساتھی مل گیا جس نے امریکہ میں سفید فام اور سیاہ فام آبادیوں کے درمیان ایک عرصہ سے چلی آنے والی منافرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاہ فاموں کو اسی نفرت کی بنیاد پر منظم کرنا شروع کر دیا۔ چند برسوں کے بعد فارد محمد اچانک غائب ہوگئے اور ایلیجاہ محمد نے اپنے پیروکاروں کو یہ عقیدہ دیا کہ وہ اصل میں اللہ تھا جو فارد محمد کی صورت میں کچھ عرصہ کے لیے ظاہر ہوا تھا اور اب وہ اسے یعنی ایلیجاہ محمد کو نبی بنا کر غائب ہوگیا ہے، چنانچہ اسے پیغمبر اور رسول کے اختیارات حاصل ہیں اور اب شریعت وہی ہوگی جو وہ کہے گا۔ ایلیجاہ نے اپنے عقائد اور احکام کی بنیاد نسلی منافرت پر رکھی اور یہ تعلیم دی کہ سیاہ فام لوگ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں جبکہ سفید فام شیطان کی نسل سے ہیں۔ اور یہ کہ اب دنیا سے سفید فام نسل کے غلبہ اور تسلط کے ختم ہونے کا وقت آگیا ہے جس کے لیے خدا نے اسے چنا ہے۔

سیاہ فام امریکیوں میں سفید فاموں کے صدیوں سے چلے آنے والے مظالم کی وجہ سے نفرت موجود تھی جسے ایلیجاہ محمد کی شعلہ نوائی اور انتھک محنت نے منظم کر دیا اور بہت جلد اس کے گرد سیاہ فام افراد کا ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور ایلیجاہ محمد کو نبی مان کر دنیا کا آخری نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ ایلیجاہ محمد کے ہاتھ پر ’’اسلام‘‘ قبول کرنے والوں میں عالمی مکہ باز محمد علی کلے بھی تھے لیکن وہ جلد ہی اس کی گمراہی سے واقف ہو کر الگ ہوگئے اور صحیح العقیدہ مسلمان بن گئے۔ اسی طرح ایلیجاہ محمد کے ایک دست راست مالکم ایکس نے بھی اس سے علیحدگی اختیار کر کے ملت اسلامیہ کے اجتماعی عقائد کو قبول کرنے کا اعلان کیا اور اپنا الگ گروپ قائم کر لیا۔ لیکن مالکم ایکس کو بہت جلد شہید کر دیا گیا اور انہیں اب بھی مالکم شہباز شہیدؒ کے نام سے صحیح العقیدہ سیاہ فام مسلمانوں میں عقیدت و محبت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ نیویارک کے معروف مسلم راہنما امام سراج وہاج بھی ابتدا میں ایلیجاہ محمد کے گروپ میں شامل ہوئے لیکن بعد میں حقیقت حال کھلنے پر اس سے الگ ہوگئے اور اب وہ نیویارک میں صحیح العقیدہ سیاہ فام مسلمانوں کے ایک مرکز کی قیادت کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ خود ایلیجاہ محمد کے اپنے بیٹے وارث دین محمد نے باپ کی وفات کے بعد اس کے عقائد سے براءت کا اعلان کر دیا۔ وہ شافعی المذہب مسلمان ہیں اور ’’بلالی مسلمز‘‘ کے نام سے صحیح العقیدہ مسلمانوں کے ایک گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔

ایلیجاہ محمد کے اصل گروپ کی قیادت اس کی وفات کے بعد لوئیس فرخان نے سنبھال رکھی ہے اور ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے نام سے یہ گروپ اسی طرح فارد محمد کے خدا ہونے اور ایلیجاہ محمد کے پیغمبر ہونے کے ساتھ خالص نسل پرستانہ عقائد و روایات کا مسلسل پرچار کر رہا ہے۔ ’’دی فائنل کال‘‘ کے نام سے ایک میگزین لوئیس فرخان کی ادارت میں شائع ہوتا ہے جس میں پابندی کے ساتھ ایلیجاہ محمد کی تصویر کے ساتھ یہ عقیدہ درج ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ۱۹۳۰ء میں فارد محمد کی شکل میں ظاہر ہوا تھا اور وہی مسیح اور مہدی ہے جس کا عیسائیوں اور مسلمانوں کو انتظار ہے۔ جبکہ ایلیجاہ محمد دنیا کا آخری نجات دہندہ ہے جو سفید فام لوگوں کا تسلط ختم کرنے اور سیاہ فاموں کی بادشاہت قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس گروپ کا ہیڈکوارٹر امریکہ کے مشہور شہر شکاگو میں ہے اور لوئیس فرخان کی قیادت میں یہ گروپ انتہائی منظم اور فعال ہے جو سیاہ فاموں کو اشتعال دلا کر امریکی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے امریکہ مخالف ممالک کی اس میں دلچسپی ایک فطری بات ہے اور اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوئیس فرخان ایران، عراق، اور لیبیا کے متعدد دورے کر چکا ہے اور یہ ممالک اسے مالی سپورٹ بھی دے رہے ہیں۔

دو سال قبل صدر قذافی نے لوئیس فرخان کو طرابلس بلا کر مبینہ طور پر لاکھوں ڈالر کی نقد امداد دی اور اس امداد کو عنوان یہ دیا گیا کہ اس رقم سے امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کی جائے گی۔ اس پر راقم الحروف نے اس گروہ کے تعارف اور اس کے عقائد کے بارے میں بنیادی معلومات پر مشتمل ایک فائل اسلام آباد میں لیبیا کے سفارت خانے کو بھجوائی تھی۔ اس میں شکاگو کے مسلمانوں کی ایک یادداشت کی کاپی بھی تھی جس میں وہاں کے مسلمان ارباب علم و دانش نے مسلم حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ لوئیس فرخان اور اس کے گروہ ’’نیشن آف اسلام‘‘ کو اسلام کا نمائندہ تصور نہ کیا جائے کیونکہ یہ اسی طرح منکرین ختم نبوت کا ایک گمراہ گروہ ہے جس طرح قادیانی ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ صدر قذافی اپنی امریکہ دشمنی میں اس قسم کی باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ اس لیے ہم ان کی خدمت میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ امریکی مظالم اور نا انصافیوں کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں اور امریکی ہتھکنڈوں کو کمزور کرنے کی جو صورت بھی قابل عمل ہو اس سے گریز نہ کریں، اس میں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن اس حوالہ سے جھوٹی نبوت اور خالص نسل پرستانہ عقائد کے فروغ کا ذریعہ نہ بنیں، کیونکہ اسلام ان دونوں میں سے کسی ایک کا روادار بھی نہیں ہے۔ اور ان باتوں سے امریکہ کو شاید اتنا نقصان نہ پہنچے جتنا خود اسلام کو پہنچ رہا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter