ہفت روزہ زندگی کے ایک گزشتہ شمارہ (۱۵ تا ۲۱ دسمبر ۱۹۸۹ء) میں ’’ایران اور انقلاب ایران‘‘ پر بحث و تمحیص کے حوالہ سے کالاگوجراں سے جناب جعفر علی میر کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے انقلاب ایران اور اس کے اثرات کے بارے میں اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں۔ راقم الحروف کو ۱۹۸۷ء میں پاکستانی علماء کرام، وکلاء، دانشوروں کے ایک وفد کے ساتھ ایران جانے اور وہاں گیارہ روزہ قیام کے دوران انقلابی راہنماؤں سے ملنے اور انقلاب کے اثرات و نتائج کا مشاہدہ کرنے کا موقع مل چکا ہے اور اس مشاہدے کے بارے میں میرے تاثرات قومی پریس کے ذریعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ اسی لیے جناب جعفر علی میر کے مضمون کے اس عنوان نے مجھے چونکا دیا کہ ’’ایران کے سنیوں پر شیعہ قوانین نافذ نہیں ہے‘‘۔ کیونکہ یہ بات واقعات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتی۔ پھر مضمون کے اس حصے نے حیرت و استعجاب کو دوچند کر دیا کہ
’’نفاذ فقہ جعفریہ کا مطالبہ فقط اہل تشیع کے لیے کیا جاتا ہے اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا موقف یہ ہے کہ ہر مسلک کے پیروکاروں کو ان کی اپنی فقہ کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہو جیسا کہ ایران میں ہے۔ وہاں اہل سنت کو مکمل آزادی ہے، ان کے مدارس دینیہ و مساجد موجود ہیں، پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران کے کسی قانون کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا۔‘‘
یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب جعفر علی میر صاحب ابھی تک خود ایران نہیں گئے ہیں اور اگر انہیں وہاں جانے کا موقع ملا ہے تو انہوں نے تصویر کا ایک ہی رخ دیکھنے پر اکتفاء کیا ہے اور دوسرے رخ پر نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی، ورنہ ان کے تاثرات اس درجہ خلاف واقعہ اور یک طرفہ نہ ہوتے۔
جہاں تک انقلاب ایران کے سماجی و سیاسی اثرات اور علاقائی و عالمی سیاست میں انقلابی حکومت کے رول کا تعلق ہے اس پر زیر نظر مضمون میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی عالم اسلام کے ساتھ ایران کی انقلابی حکومت کے تعلقات اور رویے کو زیر بحث لانا مقصود ہے۔ مگر جعفر میر صاحب کے مضمون کے عنوان اور مندرجہ بالا اقتباس کے حوالہ سے اور ایران میں اپنے گیارہ روزہ قیام کے مشاہدات کی روشنی میں مندرجہ ذیل دو پہلوؤں پر چند ضروری گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اصل صورت حال قارئین کے سامنے آسکے۔
- ایران میں مقیم اہل سنت کے ساتھ انقلابی حکومت کا رویہ کیا ہے؟
- اور پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان میں شیعہ سنی اختلافات کے پس منظر میں شیعہ تحریکات کے سرپرست کی حیثیت سے ایران کی انقلابی حکومت کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
جہاں تک ایران میں مقیم اہل سنت کا تعلق ہے، اس بارے میں سب سے پہلے ان حقائق کا ادراک ضروری ہے کہ ایران کی مجموعی آبادی میں اہل سنت کا تناسب پچیس فیصد سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ دو صوبوں بلوچستان اور کردستان بلکہ ایرانی ترکمانستان میں بھی اہل سنت کی واضح اکثریت ہے اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایران کے چاروں طرف سرحدی علاقوں میں اہل سنت اکثریت میں ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ صفیوں کے اقتدار سے قبل پورا ایران سنی اکثریت کا ملک تھا لیکن صفیوں نے طاقت کے زور سے لوگوں کو زبردستی شیعہ بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا اور راسخ العقیدہ سنی مسلمان ان کے ظلم و جبر کی تاب نہ لاتے ہوئے وسطی ایران سے سرحدی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور اس طرح ایران کو بالجبر شیعہ ریاست بنا دیا گیا۔
مزید تفصیلات میں جائے بغیر میں ان مسائل کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کا اس وقت ایرانی اہل سنت کو سامنا ہے اور جن مسائل کے حل کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کسی تحریک اور منظم حمایت کا وجود نہیں ہے جس سے اس طبقہ کی مظلومیت دوچند ہو جاتی ہے۔
- تین صوبوں میں اہل سنت کی واضح اکثریت ہونے کے باوجود صوبائی حکومتوں کا وجود نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار میں ان کی کسی درجہ میں بھی شرکت نہیں، بلکہ ملازمتوں میں بھی ان کا تناسب بہت کم ہے۔ گورنر اور اعلیٰ افسران مرکز کی طرف سے آتے ہیں جو غیر سنی ہونے کے علاوہ غیر مقامی بھی ہوتے ہیں اور عام ملازمتوں کے دروازے بھی مقامی سنی آبادی پر بند ہیں جس سے غیریت اور محرومیت کا احساس دن بدن بڑھ رہا ہے۔
- ملکی آبادی میں کم از کم پچیس فیصد ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں اہل سنت کی نمائندگی کا تناسب یہ ہے کہ ۱۹۸۷ء میں جب ہم ایران گئے، دو سو ستر کے ایوان میں سنی ارکان کی تعداد صرف چودہ تھی۔
- تہران میں لاکھوں کی تعداد میں سنی آباد ہیں لیکن انہیں اپنے لیے الگ مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ اور شیعہ سنی اتحاد کا جو پراپیگنڈا زور و شور سے کیا جاتا ہے اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ سنی آبادی اپنا الگ تشخص قائم کرنے کی طرف متوجہ نہ ہو۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنے میزبانوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ تہران میں ایک پلاٹ اہل سنت کی مسجد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا لیکن جس سنی راہنما کو یہ پلاٹ دیا گیا تھا اسے اس جرم میں جیل میں ڈال دیا گیا کہ اس نے مسجد کی تعمیر کے لیے سعودی حکومت سے رابطہ قائم کیا تھا۔ ہمارے شدید اصرار اور کوشش کے باوجود ہمارے میزبان وہ پلاٹ ہمیں دکھانے پر تیار نہ ہوئے جو خود ان کے بقول اہل سنت کی مسجد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا اور ابھی تک وہاں مسجد کی تعمیر کے کوئی امکانات واضح نہیں ہوئے تھے۔
- ایرانی دستور میں ہر طبقہ کو اپنے حقوق و مسائل کے لیے تنظیم سازی کا حق دیا گیا ہے لیکن یہ حق عملاً اہل سنت کو حاصل نہیں ہے۔ کردستان کے ایک عالم احمد مفتی زادہ صرف اس جرم میں گرفتار ہوئے کہ انہوں نے اہل سنت کے حقوق کے لیے ایک تنظیم قائم کرنے کی جسارت کرلی تھی جو انقلابی حکومت کے ہاں ناقابل معافی قرار پائی۔ ان کے علاوہ سراوان کے صوفی دوست محمد، سرخس کے مولانا محی الدین، اور ایران شہر سے قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا نظر محمد بھی اہل سنت کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
- ایران کے صرف قم شہر کے مدارس میں پاکستان کے ایک ہزار سے زائد شیعہ طلبہ دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن ایران کے سنی طلبہ کو پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے۔ طلبہ کو پاسپورٹ نہیں دیا جاتا، درخواست دینے والے طلبہ سی آئی ڈی کی مستقل نگرانی کی زد میں آجاتے ہیں اور جو نوجوان کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں واپسی پر جیل کی سلاخیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔
- ایران کی یونیورسٹیوں میں داخلے کے سلسلہ میں سنی طلبہ سے ترجیحی سلوک روا رکھا جاتا ہے، مذہبی رجحانات کے حامل طلبہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، صرف ان طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے جو مذہبی لحاظ سے قدرے آزاد ہوں اور ان کی برین واشنگ آسانی سے کی جا سکے۔
- ایران کا سرکاری مذہب اثنا عشری ہے۔ ملک کا پبلک لاء اسی فقہ کے مطابق ہے اور اس کا اطلاق سنیوں پر بھی اسی طرح ہوتا ہے جس طرح باقی آبادی پر ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں
- ایرانی دستور کے ’’اصول کلی‘‘ میں اصل دوازدہم (بارہواں اصول) یوں درج ہے:
’’دین رسمی ایران، اسلام و مذہب، جعفری اثنا عشری است و ایں اصل الی الابد غیر قابل تغیر است و مذاہب دیگر اسلامی اہم از حنفی، شافعی، مالکی، حنبل و زیدی دار ای احترام کامل میباشند و پیر وان ایں مذاہب درانجام مراسم مذہبی طبق فقہ خود شاں آزادند و در تعلیم و تربیت دینی و احوال شخصیہ (ازدواج، طلاق، ارث، و وصیت) و دعاوی مربوط بہ آن در داد گاہ ہا رسمیت دارند و در ہر منطقہ کہ پیروان ہر یک ازیں مذاہب اکثریت داشتہ باشند مقدرات محلی در حدود و اختیارات شوراہا برطبق آں مذہب خواہد بود باحفظ حقوق پیرواں سایر مذاہب۔‘‘
ترجمہ: ’’ایران کا سرکاری دین اسلام اور سرکاری مذہب جعفری اثنا عشری ہے اور یہ اصل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناقابل تبدیل ہے۔ دیگر اسلامی مذاہب مثلاً حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور زیدی پوری طرح قابل احترام ہوں گے اور ان مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی رسوم کو اپنی فقہ کے مطابق بجا لانے میں آزاد ہوں گے اور دینی تعلیم و تربیت اور شخصی قوانین (نکاح، طلاق، وراثت اور وصیت یعنی پرسنل لاء) اور ان سے متعلقہ دعاوٰی کی سماعت کا عدالتوں میں قانونی حق رکھیں گے اور جن علاقوں میں ان میں سے کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہوگی وہاں لوکل قوانین مجالس مشاورت کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنے مذہب کے موافق بنا سکیں گے بشرطیکہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق محفوظ ہوں۔‘‘
- ایرانی دستور کی اصل یک صد و پانزدہم (دفعہ ۱۱۵) میں صدر مملکت کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایرانی النسل اور دیگر شرائط کا حامل ہونے کے ساتھ ایران کے سرکاری مذہب (جعفری اثنا عشری) کا پیروکار ہو۔ اور اصل یک صد و بیست و یکم (دفعہ ۱۲۱) میں صدر ایران کے حلف نامہ میں اسے اس حلف کا پابند کیا گیا ہے کہ
’’پاسدار مذہب رسمی و نظام جمہوری اسلامی و قانون اساسی کشور باشم۔‘‘
ترجمہ: ’’میں ریاست کے سرکاری مذہب (جعفری اثنا عشری) جمہوری اسلامی نظام اور دستور کی پاسداری کروں گا۔‘‘
- دستور کی دفعہ ۷۲ میں مجلس شوریٰ ملی (قومی اسمبلی) کو پابند کیا گیا ہے کہ
’’مجلس شوریٰ ملی نمی تواند قوانینی وضع کند کہ بااصول و احکام مذہب رسمی کشور یا قانون اساسی مغایرت داشتہ باشد۔
ترجمہ: ’’قومی اسمبلی ملک کے دستور اور سرکاری مذہب (جعفری اثنا عشری) کے منافی کوئی قانون نہیں بنا سکتی۔‘‘
ان واضح دستوری دفعات کی روشنی میں یہ بات طے ہے کہ ایران کا سرکاری مذہب شیعہ ہے۔ صدر ایران شیعہ مذہب کی پاسداری کا پابند ہے۔ قومی اسمبلی شیعہ مذہب کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی۔ اور ملک کا عمومی قانون (پبلک لاء) جعفری اثنا عشری مذہب کے مطابق ہے جس کا اطلاق شیعہ سنی سب پر ہوتا ہے۔ اس لیے جناب جعفر علی میر کے اس ارشاد کو مبنی بر حقیقت کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایران میں سنیوں پر شیعہ قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔
- ایرانی دستور کے ’’اصول کلی‘‘ میں اصل دوازدہم (بارہواں اصول) یوں درج ہے:
جناب جعفر علی میر کے مضمون کے جواب میں دوسری گزارش یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ حالات و واقعات کے تسلسل نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ایرانی انقلاب کے اثرات پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان میں نفاذ اسلام کی تحریکات کے حق میں مثبت نہیں رہے اور ایرانی انقلاب سے پڑوسی ممالک کی نفاذ اسلام کی تحریکات کو وقتی طور پر جو توقعات وابستہ ہوگئی تھیں، نتائج ان کے برعکس سامنے آئے ہیں۔ راقم الحروف خود ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ایران کی انقلابی قیادت سے واضح مذہبی اختلاف کے باوجود انقلاب ایران کا خیرمقدم کیا تھا اور اس کے حق میں خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا تھا، صرف اس خیال اور جذبہ سے کہ عقائد کے اختلاف کے باوجود بہرحال ایران کا انقلاب ایک کامیاب مذہبی انقلاب ہے جو آج کے دور میں کمیونسٹ، سیکولر، اور مغربی جمہوریت کے پرستار سیاسی حلقوں پر ایک ضرب کاری ہے اور مذہبی اختلاف کے باوجود نفاذ اسلام کی جدوجہد میں ایران کی انقلابی قیادت کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ توقع تھی کہ انقلاب ایران کے بعد پاکستان کے شیعہ حلقے پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ نفاذ شریعت اسلامیہ کی جدوجہد میں ہمارے معاون ہوں گے اور ان کا مذہبی جوش و خروش ہمارے لیے تقویت کا باعث ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو ااور انقلاب ایران کے حوالے سے پاکستان میں جو نئی شیعہ تحریکات ابھریں انہوں نے اہل تشیع کے لیے الگ اور متوازی پبلک لاء کا مطالبہ کر کے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو نظریاتی محاذ پر سبوتاژ کر کے رکھ دیا۔
انقلاب ایران سے قبل پاکستان کے شیعہ حلقے نفاذ اسلام کی جدوجہد میں کسی اصولی اختلاف کے بغیر ہمارے ساتھ تھے اور انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ ملک کا پبلک لاء ایک ہو۔ چنانچہ ۳۱ علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات میں مندرجہ ذیل اصول (نکتہ ۹) پر مولانا مفتی جعفر حسین اور مولانا مفتی کفایت حسین کے دستخط موجود ہیں کہ
’’مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیرؤوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذاہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا کرنا مناسب ہوگا کہ ان کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔‘‘
اس طرح سنی اور شیعہ دونوں حلقے اس امر پر متفق تھے کہ پبلک لاء ایک ہوگا اور شخصی قوانین (پرسنل لاء) میں مسلمہ اسلامی فرقوں کو اپنے اپنے مذہبی قوانین پر عمل کا حق حاصل ہوگا۔ لیکن ایرانی انقلاب کے بعد ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی اور مطالبہ یہ ہوا کہ پرسنل لاء میں نہیں بلکہ پورے قانونی نظام میں فقہ جعفریہ کو متوازی قانون کے طور پر نافذ کیا جائے۔ اس مطالبہ کے لیے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے دو گروپ کام کر رہے ہیں اور دونوں خود کو انقلاب ایران کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ دونوں گروپوں نے اس بنیاد پر سینٹ میں زیر بحث ’’شریعت بل‘‘ کی مخالفت کی۔ اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے میدان عمل میں آنے کا منطقی اور نظریاتی نتیجہ یہ سامنے آیا کہ شریعت اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کا مطالبہ فرقہ وارانہ مطالبہ قرار دے دیا گیا۔
انقلاب ایران کے بعد اس حوالہ سے پاکستان میں ابھرنے والی شیعہ جدوجہد کا یہ کردار تاریخ میں اپنے منفی نتائج کے لحاظ سے ہمیشہ ناقابل فراموش رہے گا کہ سیکولر حلقوں کو نفاذ اسلام کی جدوجہد کے خلاف ایسا ہتھیار دے دیا گیا ہے جسے استعمال کرنے میں لادین عناصر اس سے قبل کبھی کامیاب نہیں ہو سکے تھے لیکن اب وہ اسے پوری مہارت اور کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے نفاذ کی مخالفت میں سیکولر اور مفاد پرست عناصر پہلے بھی فقہی اختلافات اور فرقہ وارانہ کشمکش کا حوالہ دیا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ کس فرقے کا اسلام نافذ کیا جائے؟ لیکن علماء کے ۲۲ دستوری نکات ان کے اس پروپیگنڈے کا مسکت جواب تھے اور دستوری مسائل پر تمام مکاتب فکر کے متفقہ موقف کے سامنے سیکولر حلقوں کی یہ منطق بے اثر ثابت ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے کیونکہ جب ملک میں شریعت اسلامیہ کی بالادستی اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی فقہ جعفریہ کے متوازی نظام کا مطالبہ کھڑا ہو جاتا ہے تو سیکولر عناصر کے ہاتھ میں ایک مضبوط ہتھیار آجاتا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ مسئلہ ہے اور اس سے مذہبی مناقشت بڑھے گی اس لیے نفاذ اسلام کی طرف عملی قدم بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یہ مسئلہ راقم الحروف نے ۱۹۸۷ء میں اپنے دورۂ ایران کے موقع پر معروف انقلابی راہنما جناب آیت اللہ جنتی کے سامنے پاکستانی وفد کی موجودگی میں پیش کیا تھا اور انہیں اس مشکل سے آگاہ کیا تھا کہ فقہ جعفریہ کے پبلک لاء کے طور پر متوازی نفاذ کے مطالبہ نے سیکولر حلقوں کے مقابلہ میں نظریاتی محاذ پر ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ وفد کے ارکان گواہ ہیں کہ جناب آیت اللہ جنتی نے ہمارے موقف کو درست قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ پبلک لاء ایک ہی ہو سکتا ہے جو اکثریتی آبادی کی فقہ کے مطابق ہونا چاہیے، البتہ پرسنل لاء میں آپ اہل تشیع کو آزادی دیں۔ ہم نے عرض کیا کہ پرسنل لاء میں اہل تشیع کے جداگانہ حق سے ہم نے کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی انکار نہیں کیا۔
آج بھی صورتحال یہ ہے کہ ہم پرسنل لاء میں اہل تشیع کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں اپنے مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن پبلک لاء ایک ہی ہو سکتا ہے۔ یہ دنیا بھر کا مسلمہ اصول ہے اور خود ایرانی دستور میں بھی اس اصول کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے اہل تشیع کو اپنی اس جدوجہد اور موقف پر بہرحال نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ اس کا فائدہ ملک کی لادین اور سیکولر قوتوں کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
آخر میں جناب جعفر علی میر اور ان کے رفقاء سے عرض کروں گا کہ اہل سنت کے موقف میں کوئی ابہام، تضاد، یا نا انصافی نہیں ہے، وہ اپنے لیے وہی حقوق مانگتے ہیں جو ایران میں شیعہ اکثریت کو دستوری طور پر حاصل ہیں اور ان کا یہ مطالبہ بالکل حقیقت پسندانہ اور مبنی بر انصاف ہے کہ
- پاکستان کو سنی اسٹیٹ قرار دیا جائے۔
- صدر اور وزیراعظم کے لیے سنی ہونا شرط قرار دیا جائے۔
- ملک کا پبلک لاء اکثریتی فقہ کے مطابق ہو اور شیعہ سمیت تمام اقلیتی آبادیوں کو پرسنل لاء میں اپنے مذہب پر عمل کا حق دیا جائے۔
- قومی اسمبلی کو پابند کیا جائے کہ وہ اہل سنت کے مذہب کے منافی قانون سازی نہ کر سکے۔
امید ہے کہ تمام سنجیدہ شیعہ حلقے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان مطالبات کا جائزہ لیں گے اور سیکولر حلقوں کی تقویت کا باعث بننے کی بجائے اپنے ملک کی اکثریتی آبادی کا ساتھ دیں گے۔