تحریک ختم نبوت کے مطالبات

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۰۲ء

تمام مذہبی مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے جداگانہ طرز انتخاب کے خاتمہ اور ووٹر کے اندراج کے فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدۂ ختم نبوت کا حلف ختم کرنے کے فیصلوں کو مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فیصلے فی الفور واپس لے کر دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ فیصلہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی دعوت پر ۴ مئی ۲۰۰۲ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں طے پایا کہ اس سلسلے میں تمام مذہبی جماعتوں کا سربراہی اجلاس طلب کیا جائے گا جس کے لیے جمعیۃ علماء اسلام (ف) نے میزبانی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں تحریک ختم نبوت کو ازسرنو منظم کرنے اور کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کو ہر سطح پر متحرک کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اجلاس میں ملک بھر کے علماء کرام اور خطباء سے اپیل کی گئی ہے کہ جمعۃ المبارک کے خطبات میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت واضح کی جائے، قادیانی سرگرمیوں کے بارے میں عوام کو باخبر کیا جائے اور رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے ضلعی اور مقامی سطح پر ختم نبوت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔

اجلاس میں مشترکہ طور پر اس موقف کا اعلان کیا گیا کہ جداگانہ طرز انتخاب ختم کرنے کا فیصلہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور تحریک پاکستان کے تاریخی پس منظر بالخصوص دو قومی نظریہ کی نفی کے مترادف ہے اور ملک کے دستور کے بھی منافی ہے جس کی اسلامی دفعات کے تحفظ کا پی سی او میں واضح طور پر وعدہ کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ دستور کی اسلامی دفعات سے کوئی تعرض نہیں کرے گی لیکن اس کے باوجود اس خالص اسلامی اور نظریاتی مسئلہ کو ازسرنو متنازعہ بنا کر دستور کی اسلامی حیثیت کو مجروح کیا جا رہا ہے۔

اجلاس میں اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ امریکی کانگریس کی طرف سے قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرنے کے مطالبہ کے فوراً بعد مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کے الگ الگ اندراج اور ووٹر فارم میں مذہب کا خانہ اور عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو عملاً قادیانیوں کو مسلمانوں میں شامل کرنے اور سرکاری ریکارڈ میں مسلمانوں اور قادیانیوں کا فرق ختم کر دینے کے مترادف ہے جو اسلامیان پاکستان کے لیے قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے جبکہ یہ حلف نامہ اور مذہب کا خانہ نیز مسلم اور غیر مسلم ووٹروں کا الگ الگ اندراج بھٹو حکومت کے دور سے چلا آ رہا ہے جب مخلوط الیکشن کا طریقہ رائج تھا اس لیے اس مسئلہ کا تعلق جداگانہ الیکشن سے نہیں بلکہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے پر عمل درآمد سے ہے اور اسے ختم کر کے دستور پاکستان کے اس فیصلے کو غیر مؤثر بنانے کی سازش کی گئی ہے اس لیے یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جداگانہ طرز انتخاب اور ووٹر فارم میں عقیدہ ختم نبوت کا حلف نامہ ختم کرنے کے فیصلے فی الفور واپس لے کر اسلامیان پاکستان کو دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے حوالے سے مطمئن کیا جائے۔

اجلاس نے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے خلاف کیے جانے والے کسی بھی اقدام سے بیزاری کا اعلان کیا ہے اور حکومت پر واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ کی طرف لے جانے والے ہر اقدام کی پوری قوت سے مزاحمت کی جائے گی اور ملک کی دینی قوتیں اور غیور عوام ایسے کسی بھی عمل کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔

اجلاس میں جمعیۃ علماء اسلام کے مولانا محمد عبد اللہ، مولانا محب النبی، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا خلیل الرحمن حقانی، پاکستان شریعت کونسل کے مولانا زاہد الراشدی، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر اور مولانا ذکاء الرحمن اختر، مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا اللہ وسایا، مولانا محمد اکرم طوفانی، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اور مولانا بشیر احمد، مجلس احرار اسلام کے چوہدری ثناء اللہ بھٹہ، پیر سید کفیل شاہ بخاری، عبد اللطیف خالد چیمہ اور مولانا اللہ یار ارشد، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مولانا منظور احمد چنیوٹی، جمعیۃ علماء پاکستان کے مولانا قاری زوار بہادر اور انجینئر سلیم اللہ خان، پاکستان عوامی تحریک کے علامہ علی غضنفر کراروی اور مولانا محمد حسین آزاد، عالمی انجمن خدام الدین کے مولانا میاں محمد اجمل قادری اور جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے مولانا ریاض الرحمن یزدانی کے علاوہ ممتاز قانون دان جناب محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ اور صوبائی وزیر مذہبی امور مولانا مفتی غلام سرور قادری نے بھی شرکت کی۔

   
2016ء سے
Flag Counter