گورنر پنجاب جنرل (ر) خالد مقبول کچھ عرصہ سے اجتماعی شادیوں کی سرپرستی میں مصروف ہیں، اور اب وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی اس مہم میں ان کے ساتھ شریک ہو گئے ہیں، بلکہ گزشتہ دنوں لاہور میں اجتماعی شادیوں کے حوالے سے ایک تقریب میں صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی شرکت کی ہے۔ اس مہم کے تحت مختلف شہروں میں سینکڑوں جوڑوں کی اجتماعی شادیاں ہو چکی ہیں۔ جنرل (ر) خالد مقبول اور چودھری پرویز الٰہی نہ صرف حکومت کی طرف سے ان شادیوں کے اخراجات میں تعاون کرتے ہیں بلکہ اصحابِ خیر کو توجہ دلا کر انہیں بھی اس کار ِ خیر میں شرکت کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ بہت ثواب اور اجر کا کام ہے، کیونکہ ہمارے ہاں شادی اس قدر مہنگی ہو گئی ہے اور ہماری خودساختہ رسوم و روایات نے اسے اس قدر بوجھل بنا دیا ہے کہ عام آدمی تو کجا متوسط درجے کے شہری کے لیے بھی شادی کے اہتمام کا تصور خاصا پریشان کن ہوتا ہے۔ جبکہ معاشرے میں چاروں طرف ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں لڑکیاں موجود ہیں جن کے والدین اخراجات کے متحمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھ پیلے نہیں کر پاتے، اور ہزاروں لڑکیوں کے بال اسی انتظار میں سفید ہونے لگتے ہیں۔
شادی ایک فطری انسانی تقاضا اور معاشرتی ضرورت ہے۔ اسلام نے دیگر فطری انسانی ضروریات کی طرح اسے بھی تسلیم کیا ہے، صرف تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ دینی تقاضا اور سنتِ نبویؐ قرار دیا ہے۔ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ نکاح انبیاء کرام علیہم السلام کی مشترکہ سنتوں میں سے ہے اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ بھی ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ چند صحابہ کرامؓ نے، جن میں حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، اور حضرت عثمان بن مظعونؓ شامل تھے، باہمی مشورہ کے ساتھ معاشرتی اور خاندانی زندگی سے لاتعلقی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، اور آپس میں طے کیا کہ
- زندگی بھر مسلسل روزے رکھیں گے،
- رات بھر عبادت کیا کریں گے،
- اور شادی نہیں کریں گے۔
مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سختی سے ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ تم مجھ سے زیادہ تقویٰ اور خدا خوفی اختیار نہیں کر سکتے۔ میں تقویٰ اور خدا خوفی میں تم سب سے بڑھ کر ہوں مگر میں نے شادیاں کی ہیں اور اولاد بھی رکھتا ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے واضح طور پر فرما دیا کہ شادی کرنا، گھر بسانا اور اولاد کا ہونا تقویٰ اور خدا خوفی کے خلاف نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ تجرد کی زندگی گزارنے کے لیے مردانہ صفات سے محروم ہونا چاہتے ہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اس سے آگے بڑھ کر نبی اکرمؐ نے بیوی بچوں کی کفالت اور پرورش کو ثواب کا عمل قرار دیا اور فرمایا کہ کوئی بھی شخص اگر نیک نیتی کے ساتھ بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے تو یہ بھی صدقہ شمار ہوتا ہے اور اس پر وہ بارگاہِ ایزدی میں اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔
شادی کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ جتنی سادہ ہو گی اور آسانی کے ساتھ انجام پائے گی، اتنی ہی زیادہ بابرکت ہو گی۔ مگر ہمارے ہاں شادی بھاری بھر کم اخراجات اور بوجھل روایات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔ شادی اور نکاح کو اسلام میں دینی تقاضوں میں شمار کیا گیا ہے، اسے سنتِ نبویؐ قرار دیا گیا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں فقہائے کرامؒ نے اسے واجب بھی لکھا ہے، جبکہ نکاح کے مقاصد میں جنسی خواہش کی جائز تکمیل کے ساتھ خاندانی نظام کے استحکام اور عفت و پاک دامنی کے تحفظ کو شامل کیا گیا ہے۔
مگر مغرب نے اسے باہمی ضروریات تک محدود کر کے سوشل کنٹریکٹ کا درجہ دے رکھا ہے، جس کی وجہ سے شادی کا وہ تقدس باقی نہیں رہا جو آسمانی تعلیمات کی رو سے قائم کیا گیا تھا۔ اسی بنا پر مغرب میں خاندانی نظام اور رشتے دونوں پامال ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس حوالے سے آسمانی تعلیمات سے انحراف کے تلخ ثمرات مغرب کو تو بھگتنا پڑ ہی رہے ہیں، ہمیں بھی مغرب کی پیروی کا شوق خاندانی زندگی کو سبوتاژ کرنے پر مسلسل آمادہ کر رہا ہے۔ مثلاً طلاق کو اسلام میں مجبوری کا آخری درجہ قرار دے کر اس کی گنجائش رکھی گئی ہے، مگر مغرب نے اسے حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا ہے، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
ہمارے معاشرے میں شادی کے ہولناک اخراجات ایک وبا کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ مختلف مواقع پر جہیز کی حد تک قانونی پابندی عائد کی گئی، جو شاید اَب بھی موجود ہے۔ اسی طرح شادی کے موقع پر کھانا کھلانے پر پابندی عائد کی گئی ہے، جس پر عملدرآمد کے لیے قانون نافذ ہے، مگر ان میں سے کسی قانون پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہو رہا۔ جنہیں کرنا ہوتا ہے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں اور انہیں کوئی نہ کوئی بہانہ بھی مل جاتا ہے۔ عرصہ ہوا ایک مرحوم دوست نے مجھ سے دریافت کیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں آٹا پیسنے کی چکی دی تھی، آج کل اس کی جگہ فلور مل آ گئی ہے، اس لیے اگر کوئی اپنی بیٹی کو جہیز میں فلور مل دے تو کیا یہ سنتِ نبویؐ کی پیروی شمار نہیں ہو گی؟ میں نے عرض کیا کہ یہ بات سنتِ نبویؐ میں شمار ہو گی بشرطیکہ وہ فلور مل گھریلو ضرورت کے لیے ہو، کمرشل نہ ہو۔ اس لیے کہ جناب نبی اکرمؐ نے سیدہ فاطمہؓ کو جہیز میں جو چکی دی تھی وہ کمرشل نہیں تھی بلکہ گھریلو ضرورت کے لیے تھی۔
اسلام میں جہیز کا تصور اتنا ہی ہے کہ ایک نئے جوڑے نے گھر بسانا ہے تو اسے اس کے لیے ضروری اشیا فراہم کر دی جائیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ ایک نئے گھر کا آغاز کر سکیں۔ مگر ہمارے ہاں جہیز کے نام پر جو کچھ کیا جاتا ہے، الامان والحفیظ۔ اچھے خاصے دیندار اور سمجھدار گھرانوں کو بھی نہ چاہنے کے باوجود صرف اس لیے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے کہ سوسائٹی میں ان کا وقار قائم رہے اور سسرال میں ان کی بیٹی عزت و وقار کے ساتھ رہ سکے۔ اصل مسئلہ معاشرتی ہے اور اس کا تعلق ہمارے معاشرتی رویوں سے ہے، جو بدقسمتی سے فضول اور بے مقصد بلکہ انتہائی نقصان دہ روایات و اقدار پر مشتمل ہیں۔ ہم اپنی معاشرتی اقدار و روایات کا تجزیہ کریں تو ان میں تین قسم کی چیزیں ملیں گی:
- ایک یہاں کی قدیم ہندو معاشرت کے اثرات ہیں، جو علاقائی اقدار کے نام پر ہماری رگوں میں رچ بس گئے ہیں،
- کچھ اسلامی روایات ہیں جنہیں ہم نے ان (علاقائی اقدار) کے ساتھ سمو رکھا ہے،
- اور تیسرے نمبر پر مغربی معاشرت کے اثرات ہیں جو دن بدن ہماری معاشرت میں سرایت کرتے جا رہے ہیں۔
ہم نے ان تینوں کو بیک وقت سینے سے لگا رکھا ہے اور ان میں سے کسی سے بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، جس سے کنفیوژن پیدا ہو گئی ہے، جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاشرتی اصلاح کی کوئی تحریک موجود نہیں۔ اگر کہیں علاقائی سطح پر کوئی تحریک نمودار ہوتی ہے تو اس کا رخ بھی سیاسیات کی طرف مڑ جاتا ہے جس سے وہ اپنا مقصد کھو بیٹھتی ہے۔ صوبہ سرحد میں ’’خدائی خدمتگار‘‘ اور پنجاب میں ’’خاکسار تحریک‘‘ خدمتِ خلق اور معاشرتی رویوں کی اصلاح کی اچھی تحریکیں تھیں مگر سیاست کی نذر ہو گئیں۔ ہمارے مشاہدہ میں بہت سی مقامی تحریکیں ہیں جو گزشتہ نصف صدی کے دوران مختلف شہروں میں معاشرتی اصلاح کے لیے ابھریں، انہوں نے بعض شعبوں میں کام بھی کیا، مگر سیاست کی اکاس بیل سے خود کو بچا نہ سکیں۔
جنرل (ر) خالد مقبول اور چودھری پرویز الٰہی نے اجتماعی شادیوں کی سرپرستی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ ایک اچھی روایت ہے۔ جو اصحابِ خیر اس کارِ خیر میں ان کے ساتھ شریک ہیں وہ نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ اس سے ہزاروں جوڑے آباد ہوں گے اور ہزاروں خاندانوں کو خوشیاں نصیب ہوں گی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اگر معاشرتی اصلاح اور مروجہ نظام کو تبدیل کرنے کی کوئی تحریک ہو تو اس کی ضرورت زیادہ ہے اور عمومی تبدیلی اسی سے آئے گی۔ خرابیوں کی اصل جڑ معاشرتی رویوں اور مروجہ نوآبادیاتی نظام میں ہے، اس میں تبدیلی اسی صورت میں آئے گی جب حکمران اور بالاتر طبقات قربانی دیں اور جھوٹی نمود و نمائش اور معاشرتی برتری کے رویوں سے دستبردار ہو کر سادگی اختیار کریں، مگر ایسا ہوگا نہیں، اگر غریبوں کو سادگی کا درس دینے والے خود سارے تکلفات کا شکار رہیں گے تو معاشرتی تبدیلی اور اصلاح ممکن نہیں ہو گی۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے اجتماعی شادیوں کی اس تقریب میں اس بات پر دکھ کا اظہار کیا ہے کہ ہم اوپر والے لوگ تو اچھی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں مگر عام لوگوں کی زندگی بہت غربت اور محتاجی کی حالت میں گزر رہی ہے۔ اسی دکھ کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ وہ وعدہ تو نہیں کرتے مگر کوشش کر رہے ہیں کہ عام آدمی کو روٹی، کپڑا اور مکان کی ضروری سہولتیں فراہم کر سکیں۔
یہ ایک اچھا احساس اور بہترین جذبہ ہے، مگر صدر جنرل پرویز مشرف کی سطح کے اشخاص کے لیے صرف دکھ اور خواہش کا اظہار کر دینا کافی نہیں ہے، انہیں اس فرق کے اسباب تلاش کرنے چاہئیں جو ان کے لیے اس دکھ کا باعث بنے ہیں۔ ہمارے طبقاتی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان اس ہوشربا فرق کی اصل وجہ ہمارا اجتماعی نظام ہے، مروجہ سسٹم ہے، اور زندگی کے اسباب و وسائل کی تقسیم کا غلط نظام ہے، جس نے ہمیں اس بحران سے دوچار کر رکھا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف اگر اپنے اس دکھ کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں، اور عام آدمی کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس سسٹم کا ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کریں اور اسباب و وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر ضرب لگائیں۔ ان کے پاس قوت و طاقت ہے، اختیارات ہیں، اور خلفائے راشدینؓ کا اسوۂ حسنہ بھی موجود ہے۔ اس لیے وہ عام شہریوں کی مشکلات و مصائب پر صرف دکھ کا اظہار نہ کریں بلکہ اس دکھ کا باعث بننے والے سسٹم پر بھی ہاتھ ڈالیں، ہو سکتا ہے ان کا یہی عمل زندگی بھر کے گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ بن جائے۔