مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت کی عوامی جدوجہد کے قائد مولانا صوفی محمد نے گورنر سرحد کے نافذ کردہ ’’شرعی نظام عدل آرڈیننس ۱۹۹۹ء‘‘ کو مسترد کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے ساتھ اپنے گزشتہ سمجھوتوں کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان میں وکالت کے شعبے کو بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ اس پر ملک کے سینئر قانون دان جناب عابد منٹو سمیت متعدد ماہرین قانون نے جو تبصرہ کیا ہے اس میں اسے وکالت کی نفی قرار دیتے ہوئے مولانا صوفی محمد پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ اور بعض قانون دان دوستوں نے یہ کہا ہے کہ وکالت کے مروجہ سسٹم کے خلاف مولانا صوفی محمد کا موقف جہالت پر مبنی ہے۔
آج کی صحبت میں ہم اس مسئلہ کا اصولی طور پر مختصر سا جائزہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا صوفی محمد کے موقف کی جو تفصیلات ’’اوصاف‘‘ نے شائع کی ہیں ان کے مطابق وکالت کے بارے میں ان کا موقف یہ ہے کہ:
’’وکالت کا اختیار حکومت کی بجائے مدعی اور مدعا علیہ کو ہوگا۔ وکالت کا موجودہ نظام جو کہ ایک ادارے کی شکل میں موجود ہے، غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے جو کہ ہمیں قبول نہیں ہے۔ وکیل کے لیے ایل ایل بی کی ڈگری مطابق شریعت لازمی نہیں ہے اور نہ ہی مدعی اور مدعا علیہ پر وکیل کی خدمات حاصل کرنا لازمی ہے۔ قاضی بھی مدعی اور مدعا علیہ کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے نہیں کہے گا۔ شرعی وکیل کا کام صرف مدعی کی طرف سے دعویٰ اور مدعا علیہ کی طرف سے جواب دعویٰ پیش کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وکیل کا کام دلیل پیش کرنا نہیں ہے بلکہ دلیل پیش کرنا قاضی کا کام ہے۔ وکیل دعویٰ اور جواب دعویٰ پیش کرنے کے بعد دلیل اور نکتہ پیش نہیں کرے گا۔ مختصر یہ کہ وکالت کا موجودہ طریق کار جو کہ ملک میں مروجہ ہے غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ مدعی اور مدعا علیہ جو وکیل مقرر کرے گا وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے جس پر اس کا اعتماد ہو اور اس کے لیے وکالت کی ڈگری یا کسی اور تعلیمی استعداد کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اس قدرے طویل اقتباس کو بار بار پڑھنے سے جو بات ہم سمجھ پائے ہیں وہ یہ ہے کہ اس میں وکالت کے عمل کی نفی نہیں کی گئی بلکہ اسے تسلیم کرتے ہوئے اس کے موجودہ طریق کار کو غیر شرعی قرار دیا گیا ہے اور مروجہ سسٹم کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ اس لیے مولانا صوفی محمد کو شعبۂ وکالت کی نفی کا مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔
اسلام میں وکالت کی ضرورت و اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور حدیث و فقہ کی بیشتر کتابوں میں اس حوالہ سے ’’کتاب الوکالۃ‘‘ کے نام سے مستقل ابواب موجود ہیں جن میں زندگی کے مختلف شعبوں میں وکالت اور نمائندگی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے قوانین و ضوابط وضع کیے گئے ہیں۔ وکالت کی مختلف صورتوں میں ایک قسم ’’وکیل خصومت‘‘ کی بھی ہے جس میں عدالتوں میں مدعی اور مدعا علیہ کی طرف سے پیش ہونے والے وکلاء کو شمار کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جو عدالت میں اپنے کیس کو مناسب انداز میں پیش کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو، کسی بھی ایسے شخص کی خدمات حاصل کر سکتا ہے جو اس کی بات کو بہتر انداز میں پیش کر سکے اور مقدمہ میں اس کی صحیح نمائندگی کر سکے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اس قسم کے معاملات میں حضرت عقیل بن ابی طالبؓ کو وکیل خصومت مقرر کر رکھا تھا۔ اور جب وہ معذور ہوگئے تو ان کی جگہ حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ کو انہوں نے اپنا وکیل خصومت مقرر کر دیا۔
فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’ہدایہ‘‘ میں وکیل خصومت کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ہر شخص عدالت میں اپنی بات کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لیے بعض اوقات اسے ایسے کسی شخص کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو اس کی بات کو اچھے انداز میں بیان کر سکے۔ اس لیے شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ البتہ اس کی تفصیلات اور طریق کار میں فقہاء کرام کی اپنی اپنی آرا ہیں جو فقہ کی کم و بیش سب ہی کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور چونکہ یہ اجتہادی امور میں سے ہے اس لیے ہر مجتہد کو اس کے بارے میں رائے قائم کرنے اور طریق کار تجویز کرنے کا حق حاصل ہے ۔ چنانچہ امت کے تمام مسلمہ فقہی مذاہب مثلاً حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی اور ظاہری وغیرہ میں اس کے قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے ہیں اور ان کے دائرہ میں ان پر عمل بھی ہوتا چلا آرہا ہے۔
البتہ وکالت کا مروجہ نظام جو اس وقت ہمارے عدالتی سسٹم کا حصہ ہے اس کی بنیاد شرعی قوانین و ضوابط پر نہیں بلکہ اینگلو سسٹم پر ہے اور اس کا پورا ڈھانچہ نوآبادیاتی عدالتی نظام کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے۔ اس لیے اسے اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی شرعی قوانین کے نفاذ کے نظام کے ساتھ اس کی ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ یہ ایک سادہ اور بدیہی بات ہے کہ انگریزی عدالتی نظام کے شعبۂ وکالت کو اسلامی عدالتی نظام کے ساتھ جوڑا جائے گا تو یہ قطعی طور پر غیر منطقی جوڑ ہوگا جو مثبت نتائج نہیں دے گا۔ ایسا کرنا رائج الوقت سسٹم کے رہے سہے فوائد کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ شرعی قوانین کے تجربے کو بھی ناکامی سے دوچار کر دے گا۔
چنانچہ ہمیں مولانا صوفی محمد سے یہ شکایت تو نہیں ہے کہ وہ وکالت کے عمل کی سرے سے نفی کر رہے ہیں اور یہ شکوہ بھی نہیں ہے کہ وہ وکالت کے مروجہ سسٹم کو اسلامی تسلیم نہیں کر رہے، کیونکہ اس کا غیر اسلامی ہونا ایک بدیہی بات ہے جس کے بارے میں کوئی دلیل پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ مولانا صوفی محمد سے ہمیں یہ شکایت ضرور ہے کہ وہ عدالتی سسٹم اور وکالت کے نظام کی تفصیلات بیان اور طے کرتے ہوئے آج سے ڈیڑھ سو سال پیچھے کھڑے ہیں۔ اور وہاں سے سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں جہاں برطانوی استعمار نے برصغیر پاک و ہند، بنگلہ دیش اور برما کے اس وسیع خطے کی عدالتوں سے ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ چھین کر انگریزی قوانین کے پلندے ان کے ہاتھوں میں تھما دیے تھے۔ مولانا صوفی محمد چاہتے ہیں کہ عدالتوں میں شرعی نظام نافذ ہو تو اس کے طریق کار اور اس کے ساتھ ہی شعبۂ وکالت کی تفصیلات کا ڈھانچہ انہی فروعات و جزئیات کے دائرے میں تشکیل پائے جو ڈیڑھ سو سال قبل فتاویٰ عالمگیری کی شکل میں رائج تھا۔
ہمیں مولانا صوفی محمد کی اس خواہش، موقف اور طریق کار سے اتفاق نہیں ہے، کیونکہ ڈیڑھ سو سال کے اس عرصہ میں حالات میں بہت تبدیلی آگئی ہے۔ عالمی عرف اور روایات کا منظر وہ نہیں رہا، علاقائی تہذیبی اور کلچر تغیرات کے کئی تھپیڑے سہہ چکے ہیں، بے شمار نئے مسائل اور ضروریات نے جنم لیا ہے، اور دنیا سمٹ کر ’’گلوبلائزیشن‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس لیے اجتہادی معاملات اور فروعات و جزئیات کے حوالہ سے امت کو ڈیڑھ سو سال پیچھے لے جا کر وہاں سے نئے سفر کے آغاز پر اصرار کرنا دانش مندی کی بات نہیں ہے۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ حنفی کا مستند ذخیرہ اور اپنے دور کے علماء کرام اور فقہاء عظام کی محنتوں کا شاہکار اور عظیم کارنامہ ہے اور بلاشبہ آج اسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس صورت میں نہیں کہ اس کی جزئیات کو من و عن آج کی سوسائٹی میں فٹ کرنے پر اصرار کیا جائے بلکہ اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ جس طرح اس دور کے علماء کرام اور فقہاء عظام نے اپنے زمانے کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے فتاویٰ عالمگیری کی شکل میں مکمل طور پر ایک نیا فقہی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا بالکل اسی طرح آج کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ دو صدیوں کے دوران رونما ہونے والے تغیرات اور تبدیلیوں کا لحاظ کرتے ہوئے ایک نیا ’’فقہی ڈھانچہ‘‘ مرتب کیا جائے۔ ورنہ اگر دو یا تین صدیاں پہلے کے اجتہادات کی بنیاد پر آج کے دور میں اسلامی نظام کے نفاذ پر اصرار کیا گیا تو یہ امت مسلمہ اور اسلام دونوں کے ساتھ نا انصافی کی بات ہوگی۔ اور نفاذ شریعت کا کوئی ایسا تجربہ خواہ وہ پاکستان میں ہو یا افغانستان میں ’’خاکم بدھن‘‘ کامیاب نہیں ہوگا۔
اس لیے عدالتی سسٹم اور وکالت کے شعبہ کے حوالے سے ہمارے نزدیک اصل الجھن یہ ہے کہ وکلاء صاحبان مروجہ عدالتی نظام اور وکالت کے موجودہ سسٹم کو ’’اسلام‘‘ کا لیبل لگا کر من و عن باقی رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ مولانا صوفی محمد دو سو برس پہلے کے عدالتی نظام اور وکالتی سسٹم کو کسی تبدیلی کے بغیر نفاذ اسلام کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں موقف غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور صحیح راستہ اسی وقت سامنے آئے گا جب دونوں طبقوں (علماء اور وکلاء) کے مخلص دیندار اور اسلام کی بالادستی پر یقین رکھنے والے سنجیدہ ارباب فہم و دانش باہم سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک دوسرے کے موقف کو سمجھتے ہوئے مل جل کر کوئی قابل قبول لائحہ عمل طے کریں گے۔