دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بھر میں بحث جاری ہے اور اس کی کوئی تعریف متعین کیے بغیر عالمی اتحاد کے نام پر طاقتور قومیں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے اس کے خلاف لٹھ لیے پھر رہی ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے سانحات کے بعد جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے عالمی اتحاد بنانے کا اعلان کیا اور افغانستان کو خوفناک بمباری کا نشانہ بنایا تو یہ سوال اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ دہشت گردی کہتے کس کو ہیں اور اس کی تعریف کیا ہے؟ کیونکہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف طے کیے بغیر اگر ہر طاقتور کو یہ حق دے دیا گیا کہ وہ جسے چاہے دہشت گرد قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑے تو مظلوم اور کمزور اقوام کی آزادی اور جینے کا حق سلب ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں کو اتنی جلدی تھی یا ان کی منشا ہی یہ تھی کہ دہشت گردی کا لیبل اپنے مخالفین پر ہر صورت میں چسپاں کر کے انہیں بلاتاخیر انتقامی کاروائی کا نشانہ بنا ڈالا جائے۔
چنانچہ افغانستان اور عراق پر امریکہ کی فوج کشی کے بعد اب جب عالمی افق پر دھند دھیرے دھیرے چھٹنے لگی ہے تو خود مغرب کے اہل دانش میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس کاروائی کا اخلاقی اور اصولی جواز کیا ہے؟ بالخصوص عراق پر امریکہ کی فوج کشی نے تو نئے عالمی استعمار کے چہرے سے اخلاقیات اور بین الاقوامی اصولوں کے سارے نقاب ایک ایک کر کے اتار پھینکے ہیں۔ لیکن اس سے قطع نظر ہمارے مسلمان حکمرانوں میں اس حوالہ سے ایک اور رخ پر گفتگو ہو رہی ہے اور اس سلسلہ میں سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد اور ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے حال ہی میں جو کچھ کہا ہے وہ توجہ اور غور و فکر کے لائق ہے:
- شاہ فہد نے سعودی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے تمام علماء، دانشوروں اور تعلیم یافتہ طبقے سمیت نوجوان نسل پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمہ کے لیے فعال کردار ادا کریں، اسلام کی جدت پسندی اور رحمدلی سے متعلق نوجوانوں میں شعور اجاگر کیا جائے اور انہیں ایسی تعلیم نہ دی جائے جس سے شدت پسندی کو فروغ ملے۔
- جبکہ دوسری طرف ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ جب تک دنیا دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم نہیں کرتی دہشت گردی جاری رہے گی۔ آخر ہم اس کی پیش بندی میں اور کتنا وقت لیں گے؟ ہم دہشت گردی کے خاتمہ میں ایک دن کی تاخیر کریں گے تو یہ دوبارہ وقوع پذیر ہوگی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے صحیح اقدامات نہیں کر رہا۔
عالمِ اسلام کے ان دو مقتدر رہنماؤں کے ارشادات کو دیکھا جائے تو دو الگ الگ پہلو سامنے آتے ہیں۔ شاہ فہد کی گفتگو سے تاثر ملتا ہے کہ جسے وہ دہشت گردی کہہ رہے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ انہیں ایسی تعلیم دی جا رہی ہے جس سے شدت پسندی کا ذہن پیدا ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے دہشت گردی جنم لیتی ہے، اس لیے انہوں نے علمائے کرام اور دانشوروں کو یہ تلقین کرنا ضروری سمجھا ہے کہ نوجوانوں کو شدت پسندی کی تعلیم نہ دی جائے بلکہ جدت پسندی اور رحمدلی کی تعلیمات سے انہیں آراستہ کیا جائے تاکہ وہ شدت پسندی کی طرف مائل نہ ہوں۔ مگر مہاتیر محمد نے اس کے برعکس دہشت گردی کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینے اور انہیں ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور انہوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکی کاروائیوں کو صحیح قرار نہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک دہشت گردی کے اصل اسباب کو ختم نہیں کیا جائے گا دہشت گردی کو ختم کرنا ممکن نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مہاتیر محمد کے موقف میں زیادہ وزن ہے کیونکہ اس وقت جن کاروائیوں کو بھی دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے، اس سے قطع نظر کہ ان پر دہشت گردی کی کسی قابل قبول تعریف کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں، انہیں کچھ دیر کے لیے دہشت گردی تسلیم کرتے ہوئے بھی یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ ان کاروائیوں کا تعلق تعلیم سے نہیں بلکہ ردعمل سے ہے۔ اور جن کاروائیوں کو شدت پسندی قرار دیا جا رہا ہے وہ اس لیے نہیں ہو رہیں کہ انہیں اس کی تعلیم دی گئی ہے بلکہ اس لیے ہو رہی ہیں کہ ایسا کرنے والوں کے سامنے مسلمانوں کے خلاف مغربی قوتوں کے معاندانہ طرز عمل، انتقامی کاروائیوں اور عالم اسلام کے وسائل اور اقتدار و سیاست پر مخالفانہ قبضہ و کنٹرول کا ایک تسلسل ہے جس کے ردعمل میں وہ انتہا پسندی اور شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو صدیوں کے دوران اسلام، ملت اسلامیہ اور مسلم ممالک کے خلاف مغربی ممالک نے جو کچھ کیا ہے اور جو وہ اب کر رہے ہیں اور جس طرح ’’انجمن اقوام‘‘ اور پھر ’’اقوام متحدہ‘‘ نے اس سب کچھ کو جواز کی سند مہیا کرنے کی ڈیوٹی سنبھالی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اگر مسلم ممالک کے نوجوان احتجاج کا اور کوئی راستہ نہ پاتے ہوئے شدت پسندی پر اتر آئے ہیں تو اسے غیر فطری قرار نہیں دیا جا سکتا، یہ بالکل ان کی فطرت کا تقاضا ہے اور اس کی ذمہ داری مسلم نوجوانوں پر نہیں بلکہ اس عمل کو تسلسل فراہم کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے جس کے ردعمل میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
جہاں تک علمائے کرام اور دینی رہنماؤں کی بات ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس حوالہ سے صرف تین باتوں کے ’’قصوروار‘‘ ہو سکتے ہیں:
- وہ عام مسلمان کو قرآن و سنت کی تعلیم دیتے ہیں، ان پر ایمان کی تلقین کرتے ہیں اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کا ذہن بناتے ہیں۔
- وہ قرآن کریم یا سنت نبویؐ کی تعلیم دیتے ہوئے اس بات کی تفریق نہیں کرتے کہ آج کے نوجوانوں کو قرآن و سنت کے کون سے حصوں کی تعلیم دینی ہے اور کون سے حصوں کو ان سے اوجھل رکھنا ہے۔ جبکہ ہمارے ’’مہربانوں‘‘ کا تقاضا ہے کہ علمائے کرام اپنے تعلیمی پروگرام میں آج کی عالمی قوتوں اور اداروں کی خواہشات کے مطابق نئی ترجیحات قائم کریں اور قرآن و سنت کی صرف ان باتوں کی مسلمان نوجوانوں کو تعلیم دیں جن سے آج کی عالمی تہذیب اور مغربی قوتوں کو اختلاف نہ ہو۔ مگر علمائے کرام ابھی تک دنیا کے کسی حصے میں اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
- عالمِ اسلام کے دینی حلقے اور علمائے کرام اس بات کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ اسلام کی جن باتوں پر مغرب کو اعتراض ہے ان کی کوئی نئی تعبیر و تشریح کر کے مغرب کو مطمئن کریں۔ بلکہ وہ اسلامی احکام و قوانین کی اس تشریح پر قائم ہیں جو چودہ سو سال سے اجتماعی طور پر چلی آرہی ہے اور وہ اس سلسلہ میں مغرب کے اعتراضات کو درست سمجھنے کی بجائے اسلامی تعلیمات کو ہی درست اور جائز تصور کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں جب علمائے کرام نئی نسل کو قرآن و سنت کی تعلیم دیں گے تو ظاہر بات ہے کہ اسلامی تعلیمات میں ایسی صورتحال کے بارے میں بھی واضح ہدایات موجود ہیں کہ جب مسلمانوں پر کافروں کا تسلط قائم ہو جائے، جب مسلمانوں کے علاقوں اور وسائل پر غیر مسلم قبضہ جمانے لگیں اور جب مسلمان حکمران اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے غیر مسلم قوتوں کے حاشیہ بردار بن جائیں تو پھر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اور مسلمان نوجوانوں کو کس طرح اس صورتحال سے نمٹنا چاہیے۔ اب علمائے کرام یہ تو نہیں کر سکتے کہ مغرب کو راضی رکھنے اور اپنے مسلم حکمرانوں کی ناراضگی سے بچنے کے لیے قرآن و سنت کی ان تعلیمات سے چشم پوشی کرلیں اور نوجوانوں سے یہ کہنا شروع کر دیں کہ دین کی باقی تعلیمات پر وہ عمل کریں لیکن اس صورتحال کے بارے میں شریعت کی جو ہدایات ہیں ان پر اس لیے عمل نہ کریں کہ ان سے مغرب ناراض ہوتا ہے اور اس سے ہمارے مسلم حکمرانوں کی پیشانیوں پر بل پڑ جاتے ہیں۔
شاہ فہد سعودی عرب کے حکمران ہیں، سعودی عرب نے قرآن و سنت کو اپنے دستور و قانون کا سرچشمہ قرار دے رکھا ہے اور عالم اسلام کی عظیم مجاہد شخصیت شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نہ صرف سعودی حکمرانوں اور اہل علم کےہاں آئیڈیل شخصیت ہیں بلکہ ہمارے نزدیک بھی مسلمانوں پر کافروں کے تسلط اور جبر کے دور میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ علمائے کرام کے لیے آئیڈیل شخصیت ہیں جنہوں نے تاتاریوں کی یلغار کے دور میں مسلمانوں کی مجاہدانہ رہنمائی کی اور جرأت و استقامت کا ایک نیا باب رقم کیا۔ اس لیے اگر آج کے دور میں علمائے کرام اور دیندار نوجوان شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کو اپنا راہنما تصور کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیں تو کم از کم سعودی حکومت اور شاہ فہد کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔