صوفیائے کرام امت کے اجتماعی مسائل سے بے نیاز نہیں تھے

   
۴ مارچ ۲۰۱۴ء

گزشتہ روز ۲ مارچ کو لاہور کی مختلف تقریبات میں حاضری کا موقع ملا۔ مخدوم و محترم حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم نے شاہدرہ میں امامیہ کالونی کے قریب جامعہ اسلامیہ ملیہ کے عنوان سے ایک علمی و فکری مرکز قائم کر رکھا ہے۔ وہ جب پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہ ادارہ ان کی علمی و فکری سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے۔ قرآن کریم اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت علامہ صاحب کے خصوصی علمی، تحقیقی اور فکری ذوق کے حوالہ سے پروگرام ہوتے رہتے ہیں اور ان کا عنوان بھی منفرد ہوتا ہے۔ گزشتہ سال حضرت مجدد الف ثانیؒ کی شخصیت و کردار کے حوالہ سے سالانہ تقریب ہوئی جبکہ اس سال سالانہ تقریب میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی شخصیت کو عنوان بنایا گیا۔ حضرت علامہ صاحب اور شیخ العلماء حضرت حافظ ناصر الدین خاکوانی زید مجدھم کے علاوہ متعدد سرکردہ علماء کرام نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ جامعہ میں قرآن کریم حفظ مکمل کرنے والے ۹ حفاظ کی دستار بندی کی گئی۔ اس تقریب میں دستار بندی کی سعادت میں شریک ہونے اور کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔ میں نے بطور خاص یہ گزارش کی کہ آج کے دور میں جس طرح ’’صوفی اسلام‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ شریعت اسلامیہ کی اہمیت کو کم کرنے اور مسلمانوں کی توجہ شریعت کے احکام و قوانین سے ہٹانے کی عالمی سطح پر کوشش کی جا رہی ہے اس کے پیش نظر اس قسم کی محافل اور حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا تذکرہ وقت کی اہم ضرورت ہے جس کی طرف سب کو توجہ دینی چاہیے۔

صوفیاء کرامؒ کے بارے میں یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ چونکہ وہ صرف فرد اور ذات کو اپنی محنت کا ہدف بناتے ہیں اس لیے انہیں سوسائٹی کے عمومی ماحول اور اجتماعیت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ سوسائٹی سے الگ تھلگ اور بے پروا ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں، اور اسی وجہ سے مغرب کے اہل دانش اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ ’’صوفی اسلام‘‘ کو فروغ دیا جائے۔ لیکن یہ بات قطعی طور پر غلط ہے اور اس کے ازالے کے لیے منظم محنت کی ضرورت ہے۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ان کا یہ کردار سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے لاکھوں افراد کی قلبی و روحانی اصلاح کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرہ کے لیے مسلسل محنت کی۔ ان کا عمومی درس لوگوں کے عقائد و اخلاق کی اصلاح کے علاوہ معاشرہ کی رسوم و بدعات کے رد اور حکمرانوں کے مظالم پر تنبیہ کے امور پر بھی مشتمل ہوتا تھا۔ وہ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر بغداد میں ایک ظالم شخص کو قاضی مقرر کیا گیا تو حضرت شیخؒ نے اپنے درس میں اس پر سخت احتجاج کیا جس پر خلیفۂ وقت نے اس قاضی کو تبدیل کر دیا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ صوفیاء کرامؒ سوسائٹی کے اجتماعی ماحول اور معاملات سے لا تعلق ہوتے ہیں اور صرف فرد اور ذات کے دائرے میں بند رہتے ہیں۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ حضرات صوفیاء کرام رحمہ اللہ تعالیٰ اقتدار کے معاملات میں فریق نہیں بنتے ہیں اور حکمرانی کی کشمکش سے دور رہتے ہیں، جس سے یہ مغالطہ پیدا کیا گیا کہ وہ امت کے اجتماعی مسائل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ اصلاح اور احتساب کے شعبوں میں حضرات صوفیاء کرامؒ کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ وہ معاشرے کے سب سے بڑے مصلح اور محتسب ہوتے ہیں اور ان کا یہ کردار ہمیشہ مؤثر اور ثمر آور رہا ہے۔

مغرب کی نماز کے بعد رائے ونڈ روڈ میں بھوبتیاں کے مقام پر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام ’’محفل تحفظ ختم نبوت‘‘ کا انعقاد ہوا جس میں مولانا قاری محمد رفیق وجھوی اور دارالہدیٰ ماڈل ٹاؤن کے مولانا حافظ محمد رفیق کے ہمراہ حاضری دی۔ اس موقع پر قادیانیوں کے ایک سابق مربی جناب نذیر احمد نے جو کم و بیش دس سال تک قادیانیوں کی تبلیغ کا کام کرتے رہے ہیں، اپنے قبول اسلام کا واقعہ سنایا اور قادیانیوں کو دعوت دی کہ وہ حقیقت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور باطل عقائد سے توبہ کر کے دامنِ اسلام میں پناہ لیں۔

عشاء کے بعد مسلم ٹاؤن میں مجلس احرار اسلام پاکستان کی سالانہ ’’شہدائے ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری بڑھاپے اور علالت کے باوجود جس ہمت و حوصلہ کے ساتھ قافلۂ احرار کی قیادت کر رہے ہیں وہ آج کے نوجوانوں کے لیے یقیناً مشعل راہ ہے۔ مجلس احرار اسلام کے پروگراموں میں حاضر ہو کر ذہن میں ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں جو ذہنی اور فکری ’’فریشمنٹ‘‘ سے کم نہیں ہوتیں۔ پیر سید کفیل شاہ بخاری اور حاجی عبد اللطیف چیمہ اپنے رفقاء کی ٹیم کے ساتھ قافلہ کی رونقوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں جس سے وضعداری کا مفہوم ذہن میں تازہ رہتا ہے۔

چیمہ صاحب نے اپنے خطاب میں ایک تازہ اخباری خبر کا ذکر کیا کہ امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے قادیانیوں کے ’’حقوق‘‘ کی پاسداری کے لیے نئے سرے سے کام کرنے کا عزم کیا ہے اور اس کے لیے ایک نیا فورم قائم کر کے پاکستان، انڈونیشیا، اور سعودی عرب سمیت مختلف ممالک میں قادیانیوں کے ’’خود ساختہ حقوق‘‘ کو تحفظ فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ میں نے اس پر اپنی گفتگو میں عرض کیا کہ یہ نئی بات نہیں ہے اور تب سے ہم یہ باتیں سنتے آرہے ہیں جب منیر انکوائری کمیشن میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین مرحوم کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا اور چودھری ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ کے منصب سے ہٹا دیا گیا تو امریکہ ہماری گندم بند کر دے گا۔ قادیانی گروہ اپنے قیام کے وقت سے برطانوی استعمار اور پھر امریکی استعمار کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس لیے عالمی استعمار نے ہر دور میں اس کردار کے مفادات کو سپورٹ کیا ہے اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں کی پشت پناہی کی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔

خود میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی برس قبل کھاریاں کے گاؤں ’’چک سکندر‘‘ میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک تنازعہ کی نوبت قتل و قتال تک پہنچ گئی اور عدالتوں میں مقدمات کا سلسلہ چل نکلا تو لاہور کی ایک تقریب میں اس وقت کے امریکی قونصلیٹ جنرل رچرڈ مکی نے خود مجھ سے اس تنازعہ کے بارے میں گفتگو کی اور جب میں نے دریافت کیا کہ آپ کو ایک دور دراز کے گاؤں کے اس تنازعہ سے کیا دلچسپی ہے، تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی احمدی کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے بارے میں واشنگٹن مجھ سے پوچھتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے؟

لیکن میں آپ حضرات کو یقین دلاتا ہوں کہ امریکہ ہو، یورپی یونین ہو، اقوام متحدہ ہو یا ایمنسٹی انٹرنیشنل، ان سب کی تمام تر کوششوں کے باوجود قادیانی گروہ پاکستان میں اپنے خود ساختہ حقوق کو منوانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اس مسئلہ پر پوری قوم متفق ہے کہ قادیانیوں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ پاکستان میں ہمیشہ غیر مسلم ہی شمار ہوں گے اور عالمی سطح پر وہ جس قدر چاہے لابنگ کر لیں پاکستان میں وہ اسلام کے ٹائٹل کے ساتھ اور مسلمان کے عنوان کے ساتھ معاشرتی حیثیت حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان کا لیے صحیح راستہ صرف یہ ہے کہ وہ یا تو باطل عقائد سے توبہ کر کے ملت اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہو جائیں اور اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو غیر مسلم اقلیت کی حیثیت کو ایک حقیقت واقعہ سمجھ کر قبول کر لیں۔ اس کے سوا قادیانیوں کے لیے کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔

   
2016ء سے
Flag Counter