اسلامی نظریات اور مغرب کے عزائم

   
۲۰ اپریل ۲۰۰۳ء

ہمارے بعض دانشور دوستوں کا اصرار ہے کہ مغرب اور عالم اسلام کے درمیان جو کشمکش جاری ہے اور جس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اس کا عقیدہ و ثقافت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ صرف سیاسی بالادستی اور معاشی وسائل پر کنٹرول کی جنگ ہے، اور چونکہ مغرب کو سائنس، ٹیکنالوجی اور عسکری قوت میں فیصلہ کن بالاتری حاصل ہے اس لیے وہ دنیا بھر کے معاشی وسائل پر قبضے اور نسل انسانی پر سیاسی حکمرانی کو اپنا حق تصور کرتا ہے اور اس حق کے حصول کے لیے برسر پیکار ہے۔

ہمیں اس نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں ہے اور ہم نے ہمیشہ اپنے مضامین میں یہ گزارش کی ہے کہ یہ نقطۂ نظر ادھورا ہے اور زمینی حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ یہ درست ہے کہ مغرب دنیا بھر پر سیاسی بالادستی کا خواہاں ہے، یہ بھی بجا ہے کہ وہ معاشی وسائل کو جن کا ایک بڑا حصہ عالم اسلام کے پاس ہے اپنے کنٹرول اور تصرف میں رکھنا چاہتا ہے، اور یہ بات بھی سو فیصد صحیح ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور عسکری قوت و صلاحیت میں مغرب کو اس قدر فیصلہ کن برتری حاصل ہے کہ وہ کسی بات کی پروا کیے بغیر کوئی بھی دعویٰ کر کے اسے پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن کیا مغرب کا ایجنڈا صرف یہی ہے اور اس کے علاوہ اس کے پروگرام میں کوئی بات شامل نہیں ہے۔ یہ بات ہمارے نزدیک محل نظر ہے کیونکہ مغربی سیاست کاروں اور دانشوروں کی طرف سے ماضی میں اور اب حال میں بھی دنیا کے مستقبل کے حوالہ سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور کیا جا رہا ہے وہ اس کی نفی کرتے ہیں۔

اب سے دو سو سال قبل برطانیہ، فرانس، پرتگال، ہالینڈ اوراسپین وغیرہ نے تجارت کے نام پر دنیائے اسلام کے معاشی وسائل کو تصرف میں لانے کے لیے مہم جوئی کی تھی اور بہت سے مسلم ممالک ان استعماری قوتوں کی نو آبادیاں بن گئے تھے۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ مہم صرف عالمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی میں مغرب کی ترقی و تجربات سے باقی دنیا کو بہرور کرنے کے لیے ہے۔ لیکن تجارتی کمپنیوں کے روپ میں مسلم ممالک میں مسیحی مشنریوں کے وسیع جال اور اسلامی عقائد اور احکام کے حوالہ سے یورپی مستشرقین کی خود ساختہ تعبیرات و تشریحات کی وسیع پیمانے پر اشاعت نے واضح کر دیا تھا کہ اس مہم کے درپردہ مقاصد میں مسلمانوں کو ان کے عقیدہ و ثقافت سے محروم کرنا اور لارڈ میکالے کے بقول ’’اگر وہ عیسائی نہ ہوں تو انہیں کم از کم مسلمان نہ رہنے دینے‘‘ کا عزم بھی شامل ہے۔ اور اگر اس کے ساتھ اس دور کے برطانوی وزیر اعظم گلیڈ سٹون سے منسوب تاریخی جملہ بھی سامنے رکھ لیا جائے تو بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جو مبینہ طور پر انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں قرآن کریم ہاتھ میں لے کر کہا تھا کہ ’’جب تک یہ کتاب دنیا میں پڑھی جاتی رہے گی مذہبی جنوں کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘

اصل بات یہ تھی کہ برطانیہ اور دوسرے استعماری ممالک نے یہ بات محسوس کر لی تھی کہ امریکہ، آسٹریلیا اور افریقا کے بہت سے حصوں میں انہوں نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعہ جو مقاصد حاصل کر لیے ہیں، مسلم ممالک میں ان مقاصد کا حصول ممکن نظر نہیں آرہا۔ اس لیے کہ قرآن کریم مسلمانوں کو حریت فکر کا سبق دیتا ہے، آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کی تلقین کرتا ہے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ دنیا کے ہر مسلمان کو اپنے دینی تشخص اور آزادی کے لیے ہر وقت سربکف رہنے کی ہدایت کرتی۔ لہٰذا کسی مسلمان معاشرہ سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے علاقوں اور ماحول میں یورپی اقوام اور غیر مسلم قوتوں کی بالادستی قبول کر لیں گے اور اپنے دینی تشخص اور قومی خود مختاری سے دستبردار ہو جائیں گے، قطعی طور پر غلط اور نا ممکن بات ہے۔

یعنی دنیا کو اپنے معاشرے اور سوسائٹی کی اساس سمجھنا اور کسی دوسرے دین کے پیروکاروں کی بالادستی اور حکومت کو اپنے اوپر قبول نہ کرنا مغرب کے نزدیک ’’مذہبی جنون‘‘ کہلاتا تھا۔ اور اب یہ بات ’’بنیاد پرستی‘‘ کہلانے لگی ہے اور اسی عقیدہ و نظریہ کو قوت و طاقت کے ذریعہ فروغ یا تحفظ دینے کو ’’دہشت گردی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مغرب کی یہ مجبوری ہے کہ وہ یورپی استعمار کے دو سو سالہ استبداد کے دور میں مسلمانوں کو دنیا کے کسی بھی خطے میں اپنے اس فلسفے اور عقیدے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا کہ سوسائٹی کی بنیاد دین نہیں ہے اس لیے وہ قرآن و سنت اور عقیدہ و شریعت کو ذاتی دائرے تک رکھیں اور سوسائٹی اور خاندان کے احکام و قوانین میں دینی بنیادوں پر اصرار کرنے کی بجائے عالمی برادری کے ’’مین دھارے‘‘ میں شامل ہونے کے نام پر مغربی فلسفہ و تہذیب کو قبول کر لیں۔ طاقت کے زور پر کسی ملک یا قوم کو دبا لینا اور کچھ عرصہ تک دبائے رکھنا اور بات ہے لیکن اس قوم کے افراد کو اپنے عقیدہ و ثقافت سے دستبرداری پر مجبور کرنا قطعی مختلف چیز ہے۔ چنانچہ کم و بیش دو صدیوں تک یورپی ممالک کی نو آبادیاں رہنے کے بعد جب مختلف مسلم ممالک آزادہ ہوئے تو ان کے عوام اپنے اس عقیدہ اور کمٹمنٹ پر بدستور قائم تھے اور ہیں کہ وہ اسلام ہی کو اپنی معاشرت کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف فرد نہیں بلکہ خاندان اور سوسائٹی کے احکام و قوانین کی اساس بھی صرف قرآن و سنت پر ہے اور وہ عالمی برادری کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے اور اجتماعی دھارے میں شامل ہونے کے شوق میں قرآن و سنت کے احکام و نظام سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اب امریکہ نے اس مہم کا چارج لیا ہے اور گزشتہ نصف صدی سے وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر، جمہوری اقدار، جدید ترقی یافتہ تہذیب کے فروغ، اور گلوبلائزیشن کے خوشنما نعروں کی آڑ میں مغربی فلسفہ و ثقافت کی ترویج اور خاص طور پر مسلم ممالک پر اسے مسلط کرنے کے لے مصرو ف کار ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ عراق پر امریکی حملے کا ایک ہدف تیل کے چشموں پر قبضہ ہے جو اس نے حاصل کر لیا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کے جو دوسرے اہداف ہیں، وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس حوالہ سے جو خبریں مسلسل آ رہی ہیں ان میں ان اہداف کو مخفی رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مثلاً اے ایف پی کے مطابق عرب لیگ کے سیکرٹری جنرب جناب عمرو موسیٰ نے ایک جرمن جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں ایسی حکومت نہیں ہونی چاہیے جو امریکہ کی حمایت یافتہ ہو بلکہ ایسی حکومت تشکیل دی جائے جسے عراقی عوام کی مکمل نمائندگی حاصل ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم عراق کو ایسے ملک کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہتے جو اسلامی دنیا سے دور ہو۔

جناب عمرو موسیٰ کے اس بیان کو اگر ان رپورٹوں کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بات زیادہ بہتر طور پر سمجھ میں آئے گی کہ امریکہ بہادر عراق پر براہ راست اپنی حکومت قائم کر کے اسے یورپی طرز کی ایک ایسی ریاست کی شکل دینا چاہتا ہے جسے ماڈل کے طور پر پیش کر کے وہ عرب دنیا کے باقی ممالک کے عوام کو ترغیب دے سکے کہ وہ بھی اس کی پیروی کریں اور اپنی روایتی تہذیب و ثقافت سے پیچھا چھڑا کر ماڈرن ازم کی طرف قدم بڑھائیں۔ لیکن امریکہ کو یاد نہیں رہا کہ اس سے قبل لبنان اور بیروت کو ماڈرنائزیشن کے اس تجربہ سے گزارا جا چکا ہے اور تو نس اس تجربہ کی وادی سے گزر رہا ہے لیکن عرب دنیا کے عوام اس سے متاثر ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور وہ اس سب کچھ کے باوجود اپنی ’’دقیانوسیت‘‘ پر قائم ہیں۔

اس کے ساتھ اے ایف پی کی یہ رپورٹ بھی ملاحظہ فرما لیں کہ امریکہ نے سعودی عرب، ایران، اردن اور مراکش سمیت دس مسلم ممالک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے نجی گروپوں کو چالیس لاکھ ڈالر کی گرانٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ کولن پاول سعودی عرب میں جمہوریت، انسانی حقوق، اور نظام تعلیم کے لیے بیس ملین ڈالر کی رقم مختص کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کے نظام تعلیم سے امریکہ کی دلچسپی کیا ہے؟ وہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے اس خطاب سے معلوم کی جا سکتی ہے جو انہوں نے گزشتہ سال جدہ میں اکنامک فورم کے ایک اجلاس میں کیا تھا اور جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب کو اپنے نظام تعلیم میں ’’عقیدہ کی تلقین‘‘ ختم کرنا ہو گی۔

اسلامی اقدار اور مغربی روایات کا یہ مسئلہ مغرب کے نزدیک کس قدر حساس ہے؟ اس کا اندازہ اس خبر سے بھی کیا جا سکتا ہے جو روزنامہ جنگ نے ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کو شائع کی ہے اور اس کے مطابق فرانس میں نیشنل کونسل آف مسلمز کے انتخابات کے موقع پر فرانسیسی وزیر داخلہ نکلس سرکوزی نے ایک بیان میں امید ظاہر کی ہے کہ اسلامک کونسل فرانسیسی روایات کے خلاف کام نہیں کرے گی، خاص طور پر اسلامی اقدار کو نہیں پھیلائے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس طرح کیا گیا تو شدت پسند مسلم رہنماؤں کو فرانس سے نکال دیا جائے گا۔

فرانس مغربی جمہوریت کا سب سے پہلا علمبردار ہے اور جمہوریت کے سفر کا نقطۂ آغاز ’’انقلاب فرانس‘‘ کو ہی قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ اپنے ملک میں رہنے والے فرانسیسی مسلمانوں کو اسلامی اقدار کے فروغ کا حق دینے کے لیے تیار نہیں اور ایسا کرنے والوں کو ملک سے باہر نکال دینے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک میں مغربی اقدار کے فروغ کے لیے مغرب کروڑوں ڈالر خرچ کر رہا ہے اور طاقت کے زور پر ایک مسلم ملک پر قبضہ جما کر اسے یورپی طرز کی ماڈل ریاست بنانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر ہمارے بعض دانشوروں کی یہ غلط فہمی برقرار ہے کہ مغرب اور اسلام یا امریکہ اور عالم اسلام کے درمیان جاری اس تنازع اور کشمکش کا عقیدہ و ثقافت اور دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے تو اس ’’بھولپن‘‘ پر ان کے لیے دعائے خیر کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟

   
2016ء سے
Flag Counter